(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ماجرے کی تلاش میں!

عارف حسین  ہفتہ 3 جنوری 2015
وہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سلام کے اشعار سُن کر اشاروں کی مخصوص زبان میں ڈھال رہا ہے اور یہ لوگ اسے سمجھ رہے ہیں۔ فوٹو آن لائن

وہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سلام کے اشعار سُن کر اشاروں کی مخصوص زبان میں ڈھال رہا ہے اور یہ لوگ اسے سمجھ رہے ہیں۔ فوٹو آن لائن

یہ ایک خوب صورت اور خوش گوار یاد ہے، جسے آپ سے شیئر کرنے جارہا ہوں۔ میری درخواست ہے کہ اسے مذہب کی ’عینک‘ اتار کر پڑھا جائے۔ یہ بیش قیمت جذبات سے گندھے اور عقیدت سے بھرپور لمحات کی منظر کشی ہے۔ میری حد درجہ محتاط طبیعت نے مجھے آپ کے آگے درخواست گزار کیا ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس تحریر کی بنیاد کسی عقیدے اور مسلک کا پرچار نہیں بلکہ ایک طبقۂ سماج ہے، جسے معاشرے میں توجہ اور ہمارے سہارے کے علاوہ دینی تربیت اور شرعی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔

چند روز قبل اپنے دوست نور خان کی دعوت پر ایک روح پرور اجتماع کے اختتامی لمحات نصیب ہوئے۔ وہ خالصتاً مذہبی اور روحانی اجتماع تھا۔ اُس وسیع و عریض اجتماع گاہ میں ہر طرف عقیدت اور محبت کے رنگ تھے۔ ربیعُ الاوّل کی مناسبت سے عمارت برقی قمقموں سے سجائی گئی تھی۔ نور و نکہت کے اس سیلاب میں بھی میرے اندر کا صحافی باز نہ رہا۔ وہ کچھ منفرد، اچھوتے اور قابلِ ذکر ماجرے کی تلاش میں تھا۔ اور اس نے پالیا۔

میری نظریں ایک منظر میں ڈوب رہی تھیں۔ وہ منظر دل کش، دل آویز اور سہانا تھا۔ قدم آگے نہ بڑھے کہ ذہن انہیں ساکت رہنے کا حکم دے چکا تھا۔ اب سرکارِ دوعالم، شافعِ محشرﷺ پر درود و سلام بھیجا جارہا تھا۔ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک باعمامہ و ریش نوجوان اور اس کے گرد مختلف عمر، طبقے اور حلیے کے افراد موجود تھے۔ وہ بھی سرورِ کونینﷺ کی بارگاہ میں ہدیۂ سلام پیش کررہے تھے، لیکن ہاتھوں کے اشاروں سے۔ قریب موجود نور خان نے میری کیفیت کا ادراک کر لیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایاکہ یہ تمام گونگے اور بہرے ہیں اور وہ نوجوان ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سلام کے اشعار سُن کر اشاروں کی مخصوص زبان میں ڈھال رہا ہے اور یہ لوگ اسے سمجھ رہے ہیں۔ سب کی توجہ اُس نوجوان کے ہاتھوں کی حرکت پر تھی اور ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ میں انہیں دیکھتا رہا اور پھر ہم آگے بڑھ گئے۔

 بعد میں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ نوجوان نے باقاعدہ اشاروں کی زبان سیکھی ہے۔ وہ دعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں اصلاحی بیانات، حمد ونعت اور دیگر سرگرمیوں کا احوال ان گونگے اور بہرے مسلمان بھائیوں تک ان کی مخصوص زبان میں پہنچاتا ہے۔ میں نے مزید پوچھا تو یہ بھی کُھلا کہ اس تنظیم کے کئی شعبہ جات ہیں۔ انہی میں ایک مجلس برائے محرومِ سماعت و گویائی بھی ہے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ پیار اور توجہ ان معذوروں کا حق ہے اور انہیں کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے نظر انداز کرنا کسی طور درست نہیں۔ یہ مجلس ایسے افراد کی دینی اور شرعی امور میں راہ نمائی بھی کرتی ہے۔ وہاں انہیں اپنائیت کا احساس دلایا جاتا ہے، گلے لگایا جاتا ہے، توجہ دی جاتی ہے، ان کے مسائل اور دکھ سنے جاتے ہیں اور اس ماحول میں ہر فرد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی دین اور دنیا میں توازن قائم کرکے معاشرے کے لئے مفید اور کارآمد ثابت ہوں۔ جشنِ ولادتِ رسولﷺ کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں۔ نور خان بتارہے تھے کہ اُس سہانی گھڑی خوشی و مسرت سے جھومتے عرش اور فرش کے درمیان ایسے کئی لوگ اشاروں کی زبان میں آقائے دو جہاںﷺ کو ویلکم کہنے کے لیے جمع ہوں گے۔

مجھے یہ سب بہت اچھا لگا، بہت منفرد اور خوش رنگ ۔ ذہنی اور جسمانی معذوری اور ایسے افراد کی مشکلات پر میں متعدد مرتبہ قلم اٹھا چکا ہوں۔ حکومت کی جانب سے سہولیات کی عدم دست یابی، ملازمتوں میں نظر انداز کیے جانے کی نشان دہی، ان کی داد رسی اور دل جوئی کی عملی کوشش نہ کرنے کے علاوہ سماج کا ان کے ساتھ نامناسب اور توہین آمیز رویہ زیرِ بحث آتا رہا ہے، لیکن کم از کم مجھے کبھی یہ گمان تک نہیں گزرا کہ انہیں بھی دین و شرع جاننے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ بھی مذہبی نقطۂ نگاہ سے رہنمائی اور تربیت چاہتے ہیں تاکہ اپنی آخرت کا سامان کرسکیں۔ یہ احساس اُس روز کراچی میں قائم مسجدِ فیضانِ مدینہ جاکر ہوا۔ میں نے یہ جانا کہ ہماری طرح ان معذوروں کو روحانی سہارا بھی چاہیئے اور اس کے لیے دینی محافل اور اجتماعات میں انہیں شریک کرنا ہو گا۔

نور خان، میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ میری فکر کو یہ نیا آہنگ آپ کی وجہ سے ملا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔