(پاکستان ایک نظر میں) - بے رنگ زندگی

دانش ارشاد  ہفتہ 3 جنوری 2015
شاید میں خوش نصیب ہی ہوں جو چند میٹر کے فاصلے پر ہونیوالے دھماکے کے باوجود بال بال بچ گیا۔ لیکن جب اس کیخلاف آواز اُٹھاتا ہوں تو معاشرہ چپ کروادیتا ہے اور جب چپ ہوتا ہوں تو ضمیر جھنجورتا ہے۔ بس اسی کشمکش نے زندگی کو بے رنگ کردیا ہے۔  فوٹو: فائل

شاید میں خوش نصیب ہی ہوں جو چند میٹر کے فاصلے پر ہونیوالے دھماکے کے باوجود بال بال بچ گیا۔ لیکن جب اس کیخلاف آواز اُٹھاتا ہوں تو معاشرہ چپ کروادیتا ہے اور جب چپ ہوتا ہوں تو ضمیر جھنجورتا ہے۔ بس اسی کشمکش نے زندگی کو بے رنگ کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

لوگ مجھ سے ہمیشہ یہ پوچھتے ہیں کہ میری فیس بک کی پروفائل پر میری تصویر بلیک اینڈ وائٹ کیوں ہے؟َ اور میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ہوں کہ میر زندگی میں رنگ نہیں۔ اور شائد یہ بات سچ بھی ہے ۔

میری تصویر کی کہانی تب سے شروع ہوتی ہے جب میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار  ایک خودکش دھماکہ دیکھا تھا۔ یقیناً وہ میری زندگی کا سب سے سیاہ دن تھا، جب گاڑی کے ٹائر سے ہوا نکلنے کی آواز سے شروع ہو کر شبِ بارات میں بٹھنے والے بم لیکن آواز کی شدد میں زیادہ سے میری قوتِ سماعت چند پل کے لئے جیسے کہیں گم ہوگئی تھی۔ گاڑیاں  ایسے رکی جیسے کسی سائنس فکشن فلم میں کوئی پاگل سائنسدان کوئی مشین بنا کر سب کچھ روک دیتا ہے۔

یقیناً اس وقت ایک عجیب سی کفیت سی تھی ہو کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھتا اور پھر دھماکے کی جگہ کو دیکھتا تھا، دھماکہ ایک رکشہ کے اندر ہوا تھا، اور خودکش بمبار کے ٹکڑے اچھل کر قریبی پارک تک پہنچ چکے تھے،

صرف چند لمحے بعد ہی قریب و جوار کی تمام دکانیں بند ہونا شروع ہوگئی۔ فوراً ایمبولینس بھی وہاں پہنچنا شروع ہوگئی اور پولیس نے بھی علاقے کا گھراؤ کرنا شروع کردیا ۔ اس وقت میرے ساتھ میرا ایک دوست بھی تھا ہم نے گھر واپس جانے میں ہی عافیت جانی۔

اس واقعہ میں ایک شخص کی جان گئی اور کئی رخمی بھی ہوئے۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کے ہم جائے وقوع سے صرف کچھ میٹر کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود زندہ اور سہی سلامت بچ گئے تھے لیکن دل میں اب بھی وہ ڈر باقی ہے. وہ کیفیت اور وہ غم آج بھی زندہ ہے۔

اس واقعہ نے میرے وجود کو جنجھوڑ کر رکھ دیا کہ آخر ہمارا وجود اس دنیا میں ہے کیا؟

یہ جواب ڈھونڈنے کی میں نے بہت کوشش کی اور جواب ملا کہ پہلے اپنے وجود کا پتا کرو کہ تمہیں خدا نے پیدا کس لئے کیا ہے؟ کھانے، پینے، کمانے، اور حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہوئے کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا ، یہ نکمے اور کرپٹ ہیں، یہ صرف لوٹتے ہیں، یہ کچھ نہیں کرسکتے، اور یہ کہتے ہوئے اپنی ایک چھوٹی سی گمنام قبر پر مرجانے کے لئے جہاں مجھے کوئی یاد رکھنے والا نہ ہو،

میرا جواب ہمیشہ نفی میں ہی ملا اور ہمیشہ میرے ضمیر نے یہی کہا کہ جاؤ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرو ، مجھے یہ احساس تو ہے کہ خدا کا مجھ پر کرم ہوا اور میں زندہ بچ بھی کیا لیکن اس واقعہ میں جس شخص کی جان گئی اس کے گھر میں کیسا ماتھم ہوگا جو شخص اپنے گھر والوں کے لئے روزی کمانے نکلا اور شام کو خبر ملی کے کسی نے جنت کے خواب آنکھوں میں لئے اپنے جسم میں بارود باندھ کر اسے دنیا سے سیدھا جنت میں داخل کرادیا ہے اور اس کے گھر والوں کے لئے دنیا میں جہنم بنادیا ہے ، صبح ہستے کھیلتے اپنے والد کو جاتے دیکھنے والے بچے جب رات کو اپنے والد کی مردہ جسم وہ بھی کوئی تکڑوں میں دیکھیں گے تو ان پر کیا گزری ہوگی اس کا تو میں تصور ہی کرسکتا ہوں لیکن محسوس بلکل بھی نہیں کرسکتا۔

اور جب میں نے اس سب کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی تو ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ خاموش ہوجاؤ ورنہ تمہیں مروادیا جائے گا۔ اپنی فیس بک آئی ڈی پر ایسی چیزیں شئر نہ کرو کہ تمہیں پریشانی ہو، اپنی آواز کو دھیمی رکھو کہ کہیں کوئی سن نہ لے اور تمہیں نقصان نہ پہنچادے،

آج سڑک پر چلتا ہوں تو ہر طرف کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، گٹر کے پانی سے کود کود کر سڑک پر چلنا پڑتا ہے، لیکن پھر وہی حالت کے کیا بولوں اور کس کو بولوں؟

جب نہیں بولتا تو ضمیر ملامت کرتا ہے اور جب بولتا ہوں تو معاشرہ بولنے نہیں دیتا۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔