کل جماعتی کانفرنس کے درست فیصلے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 3 جنوری 2015
 قوموں کی تاریخ میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب انھیں کڑے اور بظاہر ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔پاکستان بھی اس وقت ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے، فوٹو : فائل

قوموں کی تاریخ میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب انھیں کڑے اور بظاہر ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔پاکستان بھی اس وقت ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے، فوٹو : فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوںکی لیڈر شپ کے درمیان خصوصی عدالتوں کے قیام اور آئینی ترامیم پر اتفاق ہوگیا ہے جس کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔ وزیراعظم ہاؤس میں5 گھنٹے سے زائد دیر تک جاری رہنے والے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، چاروں وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرأ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔

مشترکہ اعلامیے میں آل پارٹیز کانفرنس نے اتفاق رائے سے 24 دسمبر کی قراردادکے منظورکردہ 20 نکات بشمول خصوصی عدالتوں کے قیام پر تیزی سے عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا۔ کل جماعتی کانفرنس نے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم سمیت مجوزہ قانونی اقدامات کی منظوری دی۔ قیادت نے متفقہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ پوری قوم اور لیڈرشپ دہشتگردی اور انتہاپسندی کی شیطانی قوتوں کے خلاف جنگ میں اپنی مسلح افواج کے ساتھ پرعزم طور پرکھڑی ہیں۔ اجلاس کے آغاز پر خطاب میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ آج اگر جرأتمندانہ فیصلے نہ کیے تو قوم کا ہاتھ ہمارے گریبان پر ہوگا۔

دہشتگردی پر کاری ضرب کا فیصلہ کن لمحہ ضایع نہیں ہونے دیں گے۔ آج ریفرنڈم بھی کرالیں تو قوم کا فیصلہ دہشتگردوں کے خلاف ہوگا۔ اگر دہشتگردوں سے نمٹ نہیں سکتے تو یہاں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔ قومی ایکشن پلان کے مسودے پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ خصوصی عدالتیں فوج نہیں وقت اور حالات کی ضرورت ہیں اور جیسے ہی صورتحال معمول پر آئے گی پرانے نظام پر واپس آجائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ یہ جنگ ہارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس فیصلہ کن جنگ میں انشا اللہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔

آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کا دہشت گردی کے خلاف اور خصوصی عدالتوں کے قیام پر متفق ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پاکستانی عوام کو جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ملک کی سیاسی قیادت اور ادارے ابہام کا شکار تھے ۔دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کیا اقدام کیے جائیں ،اس حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اعلیٰ سطح پر موجود ابہام کی وجہ سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے رہے ۔سانحہ پشاور کے بعد صورت حال میں غیر معمولی تبدیلی آئی ۔گزشتہ پندرہ سال میں یہ پہلا موقع تھا جب ملک کی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادت نے دہشت گردی کے خطرات کا حقیقی معنوں میں ادراک کیا۔ ورنہ پہلے تو جب بھی کہیں آپریشن کی بات ہوئی تو اس کے ساتھ ہی مذاکرات کی باتیں بھی شروع ہو گئیں۔

جہاں تک پاکستان کے عوام کا تعلق ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردوں ،ان کے سرپرستوں اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے لیکن عوام کی اس اجتماعی سوچ کو اعلیٰ سطح پر کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ مذہبی جماعتیں اپنا راگ الاپتی رہیں ،خود کو جمہوری سیاسی جماعتیں کہلانے والی قیادت اپنے مفادات کے مطابق ایجنڈا مرتب کرتی رہیں۔ اہل قلم کی سطح پر بھی کنفیوژن اور ابہام موجود رہا۔ ادارہ جاتی سطح پر بھی ترجیحات واضح نہیں ہوئیں۔ اب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کسی ابہام کے بغیر دہشت گردی کے خلاف موقف اپنایا ہے۔ ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت نے بھی دیوار پر لکھا ہوا پڑھ لیااور اسے احساس ہوا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ابہام دور کرنا لازم ہے۔ بہر حال دیر آید درست آید ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جو فیصلے ہوئے ہیں ،ان پر کسی تاخیر کے بغیر عمل درآمد کا آغاز کیا جائے۔

اب دہشت گردوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ انھیں نظریاتی غذا فراہم کرنے والے گروہوں اور افراد کے خلاف بھی آپریشن کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان نے اگر دنیا کی مہذب اقوام کا حصہ بننا ہے تو اسے سرجری کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب انھیں کڑے اور بظاہر ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔پاکستان بھی اس وقت ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی اور ادارہ جاتی قیادت دہشت گردی کے حوالے سے کسی ایک نقطے پر متفق ہوئی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب دہشت گردی کے حوالے سے پوری قوم متفق ہے اور ان کے درمیان کسی قسم کا ابہام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔