سائبر کرائم…کچھ اور حقائق

رئیس فاطمہ  ہفتہ 3 جنوری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ ایک کالم بعنوان ’’سائبر کرائم اور خواتین‘‘ کے حوالے سے میرے پاس اب تک ای میل آ رہی ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرون ملک بھی بہت سے پاکستانیوں نے اس بارے میں بہت کچھ بتایا۔ اس کے علاوہ بہت سے ذمے دار لوگوں نے بھی اس سلسلے میں کافی رہنمائی کی۔ بعض معلومات ایسی بھی تھیں۔ جن کا میں کالم میں ذکر نہیں کر سکتی بلکہ ایک نوجوان نے اس کا بھی اعتراف کیا کہ خود اس کا بھی ایک مس کال کے ذریعے ایک خراب لڑکی سے واسطہ پڑ چکا ہے۔ مجبوراً اسے شہر اور درس گاہ دونوں چھوڑنے پڑے۔

ہم جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں، اس سے آہستہ آہستہ تمام مشرقی روایات رخصت ہو رہی ہیں۔ آج شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں لڑکیوں کو سلائی آتی ہو۔ وہ غریب عورتیں اور لڑکیاں سلائی کرتی ہیں جن کا روزگار سلائی مشین سے وابستہ ہے، ورنہ درزی موجود تو محنت کون کرے؟ سارا زور دیگر مصروفیات پر۔ موبائل فونز، انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ سے دنیا بہت آگے جا چکی ہے۔ اب کوئی کتاب نہیں خریدتا، اخبار پڑھنا بھی ضروری نہیں، ملبوسات کے لیے جگہ جگہ بوتیک کھلے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ڈریسنگ روم بنے ہیں۔

جن میں قد آدم آئینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور انھیں ڈریسنگ رومز کے متعلق ہولناک انکشافات میرے سامنے آئے۔بیشتر ڈریسنگ رومز میں خفیہ کیمرے لگے ہیں۔ خواتین جب کوئی ڈریس پسند کر لیتی ہیں، تو رسید بناتے وقت ان کا موبائل نمبر بھی لے لیا جاتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد موبائل فون کی اسکرین پہ نازیبا تصاویر بھیج دی جاتی ہیں، اس انتباہ کے ساتھ کہ اگر مطلوبہ رقم نہ ملی تو یہ تمام تصویریں انٹرنیٹ پہ ڈال دی جائیں گی‘‘۔ بے شمار جرائم ہو رہے ہیں لیکن نہ تو ان کی کوئی رپورٹ درج ہوتی ہے۔ نہ ہی بات سامنے آتی ہے کہ بدنامی کے ڈر سے خواتین مسلسل بلیک میل ہوتی رہتی ہیں اور یہی خوف اور ڈر مجرموں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کی سرگرمیوں پہ کڑی نگاہ رکھیں، ساتھ ہی انھیں یہ احساس بھی دلائیں کہ وہ ہر صورت میں بیٹیوں کے ساتھ ہیں۔ انھیں یہ بھی سمجھائیں کہ اگر اپنی کسی نادانی اور حماقت سے وہ کسی مصیبت میں پھنس گئی ہیں، تو بلیک میل ہونے کے بجائے والدین خصوصاً والدہ کو اعتماد میں لیں۔

اگر بڑے بھائی ہیں تو انھیں بھی چاہیے کہ بجائے بہن کو لعنت ملامت کرنے کے اسے قبیح صورت حال سے نکالنے میں جرات کے ساتھ مدد کریں۔ اگر ضرورت ہو تو پولیس افسران سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ ساری ہی پولیس فورس بے ایمان اور کرپٹ نہیں ہے۔ اس بدنام ادارے میں بھی کچھ نیک نام اور اچھے لوگ موجود ہیں اور ان ہی میں سے ایک ذمے دار نے یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں کہ ان کے دوست کی بہن اس واردات کا شکار بنی تھی۔ کہاں خفیہ کیمرہ ہے اور کہاں نہیں، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی حفاظت خود کی جائے۔ شاید قارئین کو یاد ہو کہ دو لڑکیوں نے قابل اعتراض تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔

ان معاملات میں اس کا ساتھی بھی برابر کا شریک تھا جو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن یہ ایک نودولتیہ خاندان تھا۔ جن کی پہچان صرف پیسہ تھا۔ وہ لڑکا لڑکیوں سے دوستی کرتا اور شادی کا جھانسا دے کر انٹرنیٹ کیفے میں لے آتا۔ جہاں بند نیم تاریک کیبن میں بہت کچھ ہوتا جو خفیہ کیمروں سے ریکارڈ ہوتا اور پھر بڑی بڑی تصاویر لڑکیوں کو ملتیں تو وہ ہوش کھو بیٹھتی تھیں۔ اکثر مسلسل بلیک میل ہوتی رہتی تھیں۔ جب کالموں میں اس جانب توجہ دلائی گئی تو مختلف علاقوں کے کونسلر حضرات نے ازخود وہاں اہل محلہ کے ساتھ جا کر حقائق کا پتہ لگایا اور لڑکیوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا۔ پولیس کو انھوں نے اس معاملے سے دور رکھا، تب یہ بات بھی سامنے آئی کہ لانڈھی میں پائی جانے والی لڑکی گلشن اقبال کی رہائشی تھی، کوئی ناظم آباد کی تو کوئی کلفٹن کی۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں جنھیں تھوڑا بہت اپنے خاندان اور عزت کا پاس تھا۔ اسی لیے انھوں نے دور دراز جگہوں کا انتخاب کیا۔

سائبر کرائم کی وبا اب بہت عام ہو چکی ہے۔ جائیداد کے لین دین سے لے کر رشتوں کی تلاش میں سرگرداں والدین اور خود لڑکیاں کسی بات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ انھوں نے بیٹی کے رشتے کے لیے انٹرنیٹ پہ رابطہ کیا۔ لوگ لڑکی کو دیکھنے آئے۔ ان میں سے ایک فیملی نے پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ لڑکے کے والدین ساتھ تھے۔ لیکن لڑکی کی والدہ محترمہ نے رشتہ نامنظور کر دیا کہ لڑکے کی پانچ بہنیں تھیں۔ پھر ایک اور جگہ بات ہوئی یہ نوجوان اپنی بہن کے ساتھ آیا، پتہ چلا کہ اس کا اپنا پراپرٹی کا کاروبار ہے۔ ساتھ ہی کسی پرائیویٹ بینک میں ملازمت بھی کرتا ہے۔ صرف دو بہن بھائی تھے۔ ساس سسر مر چکے تھے۔

یہ ایک پلس پوائنٹ تھا لڑکی والوں کے لیے۔ حالانکہ ساس سسر یعنی لڑکے کے والدین موجود بھی ہوں تو دلہن بیگم اور ان کے ابا میاں اور امی جان جلد ہی لڑکے کو یتیم بنا کر اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں۔ لیکن چھڑا چھانٹ لڑکا لڑکی والوں کے لیے زیادہ باعث کشش ہوتا ہے۔ کیونکہ لڑکے کے والدین اگر زندہ ہوں تو بہو بیگم اور ان کی والدہ کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں میاں صاحب کو اپنے والدین کی یاد نہ آ جائے۔ حالانکہ فی زمانہ یہ ڈر بے بنیاد ہے۔ جب بیٹا کسی طلسم کے حصار میں ہو اور سحر زدہ ہو تو اسے سوائے بیوی کے کسی کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ خواہ ماں باپ کی آنکھیں ’’دیدہ یعقوب‘‘ بن جائیں۔ لیکن یہ خاتون کسی بھی طرح والدین کی موجودگی کا رسک لینے کو تیار نہ تھیں۔ بیٹی کا رجحان بھی اسی لڑکے کی طرف تھا۔ کیونکہ پہلا والا ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتا تھا اور ساتھ ہی شام کو نہ صرف ٹیوشن کرتا تھا، بلکہ کمپیوٹر وغیرہ کا کام بھی جانتا تھا۔ آمدنی معقول تھی لیکن والدین اور پانچ بہنیں؟ بہرحال رشتہ منظور ہوا، منگنی ہوئی، تصاویر بنیں، پھر دو ہفتے بعد لڑکے نے لڑکی سے فون پہ رابطہ کر کے بلایا۔ وہ والدہ کو بغیر بتائے ملنے چلی گئی۔

دو چار ملاقاتوں کے بعد جو ایک ہوٹل میں ہوئی تھیں۔ اس نے ایک دن گھر لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اعتماد کی فضا قائم ہو چکی تھی۔ لہٰذا وہ بل اتردد ساتھ چلی گئی۔ لڑکی کے احتجاج پر نوجوان نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ ’’اب کیا ہے، ہماری منگنی ہو چکی ہے دو ماہ بعد شادی ہے۔‘‘ اور بس! تباہی مقدر ہو چکی تھی چند ملاقاتوں کے بعد ہولناک حقیقت سامنے آنے کا والدہ کو علم ہوا، تو انھوں نے پہلے تو بیٹی کو خوب مارا پیٹا۔ اور پھر لڑکے کی بہن سے رابطہ کیا تو فون ’’سوئچ آف‘‘ تھا۔ وہ لڑکی کو لے کر گھر گئیں تو وہاں بھی تالا پڑا تھا۔ جس بینک کا نام لیا تھا وہاں اس نام کا کوئی نوجوان نہیں تھا۔ آگے آپ خود سمجھ لیں کہ میرے قلم میں یارا نہیں کہ سب احوال بتا سکوں۔

بس آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ آنکھیں کھلی رکھیے۔ شادیوں کے چکر میں لڑکیوں کو اتنی آزادی نہ دیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائیں۔ ایک درخواست والدین سے بھی ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش چھوڑ دیں۔شریف خاندان کا محنتی تعلیم یافتہ نوجوان، جو جائز طریقے سے روزی کما رہا ہے۔ اسے ترجیح دیجیے۔ سائبر کرائم کی ذمے دار 80 فیصد خواتین ہیں۔ کیونکہ اگر وہ دولت کے پیچھے نہ بھاگیں تو بہت سی بن بیاہی لڑکیاں اب تک کئی کئی بچوں کی ماں بن چکی ہوتیں۔ کسی کے ماں باپ کی موت کی دعا مانگنے سے پہلے اپنے بارے میں بھی سوچ لیجیے۔ مکافات عمل بھی ہے اور روز قیامت بھی ہے۔ جب اس خالق کائنات کے سامنے سب کے بھید کھلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔