اتحاد و اتفاق کی کمی کے سبب پاکستان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آ سکا

سلیم خالق  اتوار 4 جنوری 2015
شعیب ملک کی ایکسپریس کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق سے خصوصی بات چیت فوٹو : فائل

شعیب ملک کی ایکسپریس کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق سے خصوصی بات چیت فوٹو : فائل

انتہائی باصلاحیت کرکٹر ہونے کے باوجود شعیب ملک کا کیریئر 1999ء میں آغاز سے اب تک اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔

آل راؤنڈر نے کبھی بڑی مشکل سے اسکواڈ میں جگہ بنائی تو کبھی کپتانی کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا، ورلڈکپ2007 میں گرین شرٹس کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کمان سنبھالی لیکن 2 سال میں ہی حکام کا دل بھر گیا اور انھیں نئے سرے سے اپنے مستقبل کے پلان تشکیل دینا پڑے، پاکستان میں ہر میگا ایونٹ کے بعد چند افراد پر شکستوں کا ملبہ ڈال کر اپنی جان چھڑانے کی روایت عام رہی ہے، بنگلہ دیش میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم نے قوم کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلا، بیشتر کرکٹرز اس تباہی میں برابر کے ذمہ دار تھے لیکن باہر بٹھائے جانے والوں میں سب سے پہلا نام شعیب ملک کا تھا۔

آل راؤنڈر نے اس فیصلے کو دل کا روگ بنانے کے بجائے دنیا بھر کی لیگز میں اپنی صلاحیتوں کے اظہارکا راستہ اپنایا، ورلڈکپ کی تیاریوں میں مصروف قومی ٹیم کو اس وقت پلیئرزکی کمی کا سامنا ہے، سعید اجمل اور محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی کے سبب اچھے اسپننگ آل راؤنڈر کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے،ان فارم شعیب ملک بھی سلیکٹرز کی نظروں میں ہیں، ایک ماہ بعد اپنی 33ویں سالگرہ منانے کے منتظر سابق کپتان کے لیے میگا ایونٹ سے کم بیک آسان سفر نہیں ہوگا، البتہ وہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار نظر آتے ہیں، شعیب ملک کے ساتھ ایک نشست کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ سمیت بعض کرکٹرز ایسے ہیں جو اچانک کسی آئی سی سی ایونٹ سے قبل سامنے آ کر قومی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں، ان دنوں پھر آپ کو ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں،اس چیلنج کے لیے کیاآپ تیار ہیں؟
شعیب ملک:  بالکل تیار ہوں لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ پلیئر کو اعتماد بھی دینا چاہیے، جب آپ کو اندازہ ہو کہ مینجمنٹ سپورٹ کررہی ہے تو پوری توجہ کھیل پر مرکوز رکھتے ہیں،دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں بڑے ایونٹس خاص طور پر ورلڈ کپ میں ایسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو آزمایا جاتا ہے جو پریشر برداشت کرسکتے ہوں، ہر ٹیم بھر پور تیاری اور فتح کا عزم لیے میدان میں اترتی ہے، اس لیے سینئرز کا تجربہ اور اعتماد زیادہ اہم قرار پاتا ہے، ٹائٹل جیتنے کے لیے 1،2 میچز نہیں پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانا پڑتی ہے۔

جو پلیئرز تسلسل کے ساتھ پرفارم کرسکیں وہی منتخب کیے جاتے ہیں، میں نے دنیا بھر میں کھیلی جانے والی لیگز میں اچھی فارم اور فٹنس کا مظاہرہ کیا، ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی اچھی کارکردگی رہی، پینٹنگولر کپ میں بھی بہتر کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہوا، اسی لیے ٹیم میں واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ البتہ اس کا افسوس ہے کہ ابھی بات چلی ہی تھی کہ تنقید شروع ہوگئی، ساری چیزیں دیکھ کر دل میں آیا کہ ورلڈکپ نہیں کھیلنا چاہیے، بڑے ایونٹ کا خوف یا پرفارمنس خراب ہونے کا خدشہ نہیں تھا، ملک نے مجھے بہت کچھ دیا اس کیلیے جان بھی حاضر ہے لیکن ان آؤٹ ہونے سے اپنی والدہ کا بھی خیال آتا ہے جو اس صورتحال پر خاصی مایوس ہوتی ہیں۔

ایکسپریس:  آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد آپ ٹیم سے باہر ہوئے اس کا زخم تو اب بھی تازہ ہوگا؟
شعیب ملک:  میں کیوں ڈراپ ہوا یہ بات تاحال سمجھ نہیں پایا، میں اس پر بیحد دلبرداشتہ تھا، کسی کا بیٹنگ آرڈر تو کسی کا عہدہ تبدیل ہوا، کوئی کوچ سے منیجر بن گیا لیکن میں ٹیم سے ہی باہر ہوگیا حالانکہ اچھی پرفارمنس تو احمد شہزاد اور عمر اکمل کے سوا کسی کی بھی نہیں تھی لیکن نزلہ صرف مجھ پر گرا، یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ میں کس نمبر پر کھیلا، کتنی بار ناٹ آؤٹ رہا،اننگز میں میرا مختصر کردار بھی کس نوعیت کا تھا، میچ کی صورتحال کیا تھی۔

جن دونوں بیٹسمینوں نے رنز کیے ان میں بھی ایک کے ساتھ بڑی شراکت بنی تھی، ہمارے ہاں سلیکشن کا معیار بدلنے کی ضرورت ہے، یہاں دیکھتے ہیں کہ فلاں کے اتنے رنز اور وکٹیں ہیں، یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ کس نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیجا جاتا رہا اور اس وقت وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا تھا، کتنے اوورز کھیلنے کے لیے باقی تھے، سلیکشن کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کس ملک کی کنڈیشنز میں کیسے پلیئرز زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

ایکسپریس: ورلڈ ٹیٹوئنٹی کے 4 میچز میں آپ کے 52 رنز تھے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صلاحیتوں کا درست استعمال نہیں کیا گیا؟
شعیب ملک: جو بھی بیٹنگ آرڈر یا میچ کے حالات تھے اس کے مطابق مینجمنٹ کی حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے کم ہی مواقع ملتے رہے،آسٹریلیا سے میچ میں صرف 3گیندیں کھیلیں اور ناٹ آؤٹ واپس آیا، بھارت کے خلاف بیشتر وکٹیں گرچکی تھیں، میری اور عمر اکمل کی شراکت کی وجہ سے 130 رنز اسکور بورڈ پر درج ہوئے، احمد شہزاد نے 100 کیا تو اس میں میری بھی قربانی شامل تھی۔

میں بہت ساری رننگ کرنے کے بجائے اپنی نصف سنچری مکمل کرنے پر توجہ دے سکتا تھا لیکن کوئی خودغرضی نہیں دکھائی، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں نچلے نمبروں پر بھیج کر کارکردگی کا معیار چیک نہیں کیا جا سکتا، کسی بھی ورلڈ کلاس پلیئر کو کم بیک کے موقع پر ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے کہیں تو وہ سوچ میں پڑجائے گا کیونکہ اننگز مستحکم کرنے کے لیے گیندیں اور وقت دونوں نہیں ہوتے، ساتھ ہی ناکامی کا لیبل آپ کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ لیگز اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بولنگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن انٹرنیشنل میچز میں ایک آدھ اوور تک ہی محدود رکھا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے، کیا کپتان کو اعتماد نہیں ہوتا؟
شعیب ملک: اعتماد نہ ہو تو بھی اگر چاہیں تو چند چیزیں حوصلہ بلند کرنے کے لیے بھی کی جاتی ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر دوسرے پلیئرز بھی اس نوعیت کی بولنگ کررہے ہیں تو ایک پر اعتماد کیوں نہیں کیا جا سکتا، پرانی باتوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں، میں لفظی محاذ کھولنے کے بجائے بیٹ اور بال سے پرفارمنس کے ذریعے میدانوں میں اپنا وجود منوانا چاہتا ہوں، قومی ٹیم سے باہر رہنے کے دور میں بھی کرکٹ ہی میری سب سے بڑی سرگرمی رہی، پرفارمنس کسی بھی سطح پر ہو میرے لیے بڑے اطمینان کی بات ہوتی ہے۔

ایکسپریس: ماضی میں جو لوگ آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، اب بھی ٹیم کی کمان انہی ہاتھوں میں ہے،واپسی کی صورت میں کیا یہ خلیج دور ہوپائے گی؟
شعیب ملک: ماضی میں جو بھی کہا اس پر اب بھی قائم ہوں، یہ میری یا ان کی نہیں پاکستان کی ٹیم ہے جس کے لیے اتحاد و اتفاق ضروری ہے، شاید اسی چیز کے فقدان کی وجہ سے ہماری کارکردگی میں تسلسل نہیں آ سکا، اگر ٹیم ون یونٹ بن کر کھیلے تو نتائج میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

میرے خیال میں چھوٹے موٹے اختلافات ذاتی سطح پر ہی رہ جانے چاہئیں، سب کے مزاج ایک جیسے نہیں ہوتے، 15 کھلاڑی اسکواڈ میں شامل ہوں تو ان میں سے چند ہی زیادہ ذہنی ہم آہنگی کے قابل ہوتے ہیں، دوسروں کی کسی اور سے زیادہ قربت ہوسکتی ہے، بہرحال یہ کوئی مسائل نہیں، جب آپ میدان میں ہیں تو سب کو اپنی اور ملک کی عزت و وقار کے لیے پرفارم کرنا ہوتا ہے،ایک ٹیم کے طور پر زیادہ اتفاق ہو تو کارکردگی میں بہتری ضرور آتی ہے، اگر کسی کھلاڑی کی پرفارمنس نہیں تو کوئی بھی اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔

ایکسپریس: مصباح الحق سے بھی آپ کے تعلقات اتنے خوشگوار نہیں لگتے؟
شعیب ملک:  ایسی بات نہیں ہے، درحقیقت مصباح الحق کو قومی ٹیم میں واپس لانے والا میں ہی تھا، ہمیں ذات سے بالاتر ہوکر مضبوط رہنے کی ضرورت ہے، پاکستان جیتے گا تو سب کی عزت ہوگی، مصباح کسی کھلاڑی کے لیے فائٹ نہیں کرتے، انھیں اپنے اسکواڈ کو فائٹر بنانے کے لیے بات منوانے کی کوشش کرنا چاہیے، میں یہ نہیں کہتا کہ محاذ کھڑا کردیا جائے،دلیل سے بھی بات منوائی جاسکتی ہے کیونکہ سلیکٹر ہوں یا کوچ سب پاکستان کے لیے فتح کی تلاش میں ہی ہوتے ہیں۔

ایکسپریس: غیر ملکی لیگز میں آپ تیسرے نمبر پر بھی پُراعتماد بیٹنگ کرتے نظر آئے، پورے 4 اوورز بھی کیے تو کیا باہر کے لوگ آپ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں؟
شعیب ملک:  لگتا تو ایسا ہی ہے، وہ کبھی آپ کو ٹیم سے باہر ہونے کا احساس نہیں دلاتے اور اعتماد دیتے رہتے ہیں، دنیا کا کوئی کھلاڑی ہر میچ میں عمدہ پرفارم نہیں کر سکتا تاہم صلاحیتوں پر اعتماد ختم نہیں ہوجاتا، غیر ملکی لیگز میں کپتان و مینجمنٹ صبر سے بہتر نتائج کا انتظار کرتے ہیں،اس وجہ سے اگلے ہی دن کھلاڑی نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے بہتر پرفارم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے،کرکٹر کے جوہر کو پرکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے، 1،2 میچ خراب رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صلاحیت ہی ختم ہوگئی، پاکستان کرکٹ میں بھی اس سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، چیمپئنز لیگ میں زیادہ رنز نہیں کرسکا، مینجمنٹ کے ارکان اگلے ہی میچ میں میرے گرد گھوم رہے تھے کہ تم اس بار کچھ خاص کرکے دکھا سکتے ہو۔

تم میں یہ صلاحیت موجود ہے، اس حوصلہ افزائی کے بعد آپ بے خوف ہوکر نئے دن نئی پرفارمنس کے لیے میدان میں اترتے ہیں، پرفارمنس خراب ہو اور اوپر سے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کردی جائے کہ تمہارے ساتھ یہ ہونے والا ہے تو مضبوط انسان بھی ڈگمگا جائے گا۔ اس صورتحال میں پلیئرز کو ڈالنا مناسب نہیں ہوتا، نوجوان کرکٹرز کی گرومنگ کے لیے یہ بات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، منفی ماحول کی وجہ سے کئی باصلاحیت ینگسٹرز بھی اس سطح کے کرکٹر نہیں بن سکے جس کے وہ مستحق ہیں، عمر اکمل 100 میچز کھیل چکے لیکن ذمہ داری اٹھانے کا چیلنج ہی نہیں ملتا، جب آخر میں بیٹنگ کے لیے آئے اورتھوڑے اوورز ہی باقی ہوں تو وہ جلد بازی تو کرے گا، بیٹسمین کا نمبر طے ہو تو اسے اندازہ ہوگا کہ اننگز آگے کیسے بڑھانی اور ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

ایکسپریس:  چیف سلیکٹر معین خان اور آپ کا پی آئی اے میں بھی ساتھ رہا،ان سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟
شعیب ملک:  معین خان فائٹر کرکٹر رہے اور دنیا کے کونے کونے میں کرکٹ کھیل چکے ہیں، چیف سلیکٹر ایسا ہی ہونا چاہیے جو ہر ملک کی کنڈیشنز سے واقف اور ان کے مطابق ٹیم کا انتخاب کرسکے،کوئی بھی سلیکشن کمیٹی ہو اسے بھی اپنی مدت کا پہلے سے معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بجائے ٹیم کی کارکردگی کے لیے فکر مند رہے، پالیسیز میں تسلسل کے لیے ہر کسی کو مناسب مواقع دینا ہوں گے۔

ایکسپریس: آپ ورلڈکپ2007ء میں ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد بطور کپتان سامنے آئے، اب رواں سال میگا ایونٹ کے بعد ایک بار پھر کھلاڑیوں کو گروم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے؟
شعیب ملک:  کرکٹ بورڈ ایسا فیصلہ کرے تو میری خواہش ہوگی کہ کھلاڑیوں کے لیے کچھ کروں لیکن ایک بات واضح کردوں کہ میرا کپتان بننا ضروری نہیں، ایک کھلاڑی کے طور پر نوجوانوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اننگز کیسے آگے بڑھائی جاتی ہے، میچ کی صورتحال میں کس طرح پرفارم کرنا ہے، کپتان کے طور پر معاملات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے نظر رکھنا کتنا ضروری ہے، کن حالات میں کیسے بولرزکو آزمانا چاہیے،میں پینٹنگولر کپ میں خیبرپختونخواکی طرف سے کھیل رہا ہوں، اس میں کئی نوجوان پلیئرز شامل ہیں، کوشش کررہا ہوں کہ اپنا تجربہ ان میں منتقل کردوں۔

ایکسپریس:  آپ 2009ء تک کپتان رہے،اس موقع پر مینجمنٹ کی رپورٹ تھی کہ الگ تھلگ رہنے والے ایک قائد ہیں، کیا اسی وجہ سے آپ کی قیادت ختم ہوئی؟
شعیب ملک:  ویسٹ انڈیز سے 3 میچز جیتے تو ان کی رپورٹ تھی کہ سب سے اچھا کپتان اور کھلاڑیوں سے مل جل کر رہتا ہے، میں نہیں سمجھ پایا کہ 3 ماہ میں ہی کیسے میری فطرت تبدیل ہوگئی، ہاں کبھی کبھی مجھے خود سے بات کرنا ہوتی ہے، کتابیں پڑھنا، اپنی ذات کو بھی تھوڑا وقت دینا الگ تھلگ رہنا نہیں ہوتا، میدان میں تو کوئی بھی گونگا کپتان بن کر نہیں رہتا، تمام معاملات پر نظر رکھنی اور بات بھی کرنا پڑتی ہے، دیکھنا چاہیے کہ کرکٹ کہاں جارہی ہے۔

میں گراؤنڈ میں ہوں تو فائٹ کرتا ہوں، کسی کھلاڑی سے دوستی ہو یا نہیں غلطی پر بطور کپتان میرا سب سے سلوک ایک جیسا ہوگا، یہ نہیں کہ ایک کو ڈانٹ پلا دی دوسرے کی بڑی غلطی پر بھی کچھ نہ کہا، میں کسی کی بے جا حمایت کے حق میں نہیں ہوتا، میڈیا اور سابق کرکٹرز بھی کم ہی میری سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ میں ان کو فون نہیں کرتا، ماضی کے اسٹارز سے میں بہت کچھ سیکھتا اور انھیں اپنا بڑا بھائی سمجھتا ہوں، ان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ میری ملک کے لیے خدمات ہیں، میں پاکستان کا ہی ایک کرکٹر ہوں، اگر میرے کھیلنے سے قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے تو ذاتی سوچ یا مفاد کو سامنے نہیں رکھا جائے، ہماری ساری فکرمندی ملک کے لیے ہونی چاہیے۔

ایکسپریس:  ان دنوں آئی سی سی نے آف اسپنرز کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، آپ کو کبھی ایسا تو نہیں لگتا کہ ایکشن پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟
شعیب ملک:  میں نے کیریئر شروع کیا تو مسائل تھے، انگلینڈ میں 2001ء میں کالر بون فریکچر ہوئی تو اس کے بعد سے کندھے میں تکلیف تھی، 2005ء میں کہنی کی سرجری کرائی تو بازو کا خم ٹھیک ہوگیا، کندھے پر کافی محنت کی، بولنگ ایکشن میں اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایکسپریس:  ورلڈ کپ میں ٹیم سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
شعیب ملک:  نوجوان کرکٹرز میں بڑی صلاحیتیں ہیں، اچھا کمبی نیشن بنایا جا سکتا ہے، سعید اجمل کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن بڑا نقصان محمد حفیظ کا ہوا ہے جن کی بولنگ خاصی مفید ثابت ہوتی، میری دعا ہے کہ آل راؤنڈر کا ایکشن جلد کلیئر اور پاکستان کا اسکواڈ متوازن ہو۔

ایکسپریس: چیف کوچ وقار یونس سے کبھی بات ہوتی ہے، کیسے مراسم ہیں؟
شعیب ملک:  کہیں ملاقات ہو تو بات ہوجاتی ہے مگر ویسے کوئی رابطہ نہیں ہے، سینئر ہونے کے ناطے وہ بڑے بھائیوں کی طرح ہیں، ٹیم میں رکھیں یا نہیں میں سب کی بڑی عزت کرتا ہوں، کرکٹ کیریئر آج نہیں تو کل ختم ہوجائے گا، بڑوں بلکہ چھوٹوں کو بھی عزت دینا چاہیے۔
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔