نئے سال کی سوغاتیں

انتظار حسین  پير 5 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

 

لیجیے نیا سال شروع ہو گیا۔ پھر کیا ہوا۔کوئی فرق پڑا۔ فرق کیا پڑنا تھا۔ بقول غالب ع

پھر وہی زندگی ہماری ہے

سارا ہنگامہ رات کی رات کا تھا۔ اسے جھٹ پٹے کا وقت کہہ لیجیے۔پرانے سال کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اسے جلدی سے وداع کرو۔ بارہ بجے اس رات کی وہ گھڑی ہے جب نیا سال ہمارے بیچ آن براجے گا اور ہم پچھلے کالم میں بتا ہی چکے ہیں کہ اب ہمارے حساب سے شہر میں سال کی آخری شام ایک تقریب سے منسوب ہو چکی ہے۔ اسی شام ادب کے رسیا کس ذوق و شوق سے علی آڈیٹوریم پہنچتے ہیں اور کس طرح ضیا محی الدین دوڑ کر اسٹیج پر آتے ہیں

۔ قطار اندر قطار بیٹھے ہوئے سامعین کو آداب کرتے ہیں اور پھر شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر برس نئے سرے سے اردو ادب کے بحر ذخار میں غوطہ زنی کرتے ہیں، نظم و نثر کے کچھ ہیرے موتی چنتے ہیں اور اپنا یہ انتخاب ان سارے لہجوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے مخصوص لہجہ میں پیش کرتے ہیں۔ جسے recitation کہتے ہیں یا قرأت وہ اپنی جگہ ایک فن ہے۔ ایک ہنر جس سے پڑھی جانے والی تحریر کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

خیر ان کا یہ ہنر تو ہوا۔ مگر ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کی خاطر جو وہ پرانے اور نئے اردو ادب کی شناوری کرتے ہیں وہ بس سال کی ایک شام میں یا یوں کہہ لیجیے کہ سال کے سال جھٹ پٹے میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ اس کا حامل ان کے قلم تک رسائی نہیں پاتا۔ لکھتے ہیں انگریزی میں۔ انھیں کیا کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ اتنی شناوری کے بعد کیا مضائقہ ہے کہ سطح قرطاس پر بھی کچھ گل پھول کھلائے جائیں۔ ابھی پچھلے سال دو سال کے بیچ ان کی خود نوشت بزبان انگریزی شایع ہوئی تھی۔ اسے پڑھتے ہوئے ہم کتنے مقامات پر ٹھٹھکے اور سوچا کہ اگر اردو میں ان کا قلم رواں ہوتا تو وہ یہ سماں وہاں کیسے باندھتے۔

مثلاً ایک باب میں انھوں نے اپنی پھوپیوں تائیوں کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ باتیں کرتی ہیں کس طرح وہاں پنجابی اور فارسی کا گھال میل نظر آتا ہے۔ یہ بیان اردو میں ہوتا تو کچھ اور ہی سماں ہوتا۔ یا قصور کے بازار کا جو انھوں نے نقشہ کھینچا ہے اور سبزی ترکاریوں کے بیان میں جو گلکاریاں کی ہیں وہ اردو میں کرتے تو نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ ویسے کیا عجیب ہے کہ چلتے چلتے کسی وقت اردو میں قلم رواں ہو جائے۔

ہاں تو وہ شام گزر گئی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اب کوئی نیا دن چڑھے گا مگر جو دن چڑھا اس کے سارے لچھن وہی تھے جو پچھلے برس کے دنوں کے تھے۔

ہاں کچھ نئی مطبوعات موصول ہوئیں۔کتابوں کے ایک بنڈل سے کتابوں کے ساتھ ایک کیلنڈر بھی برآمد ہوا۔ اب کیلنڈر میں بھی تو جدتیں دکھائی جانے لگی ہیں۔ یہ جو مختلف علمی ادبی ادارے ہیں وہ اب کیلنڈر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس میں تاریخوں پر تھوڑا سا علم و ادب بھی چھڑک دیتے ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے جو ہمیں نئی مطبوعات کی سوغات موصول ہوئی اس میں ایک کیلنڈر بھی تھا۔ یہ خالی کیلنڈر نہیں ہے بلکہ غزل کیلنڈر ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں اور ہر مہینے میں انتیس، تیس یا اکتیس دن ہوتے ہیں۔ یہاں ہر دن ایک غزل کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ اور خالی غزل نہیں۔ غزل کے ساتھ ایک حسینہ کی تصویر بھی۔

سال کے جتنے مہینے، مہینے کی جتنی تاریخیں ان کے ساتھ نتھی ایک ایک غزل۔ ایک سال میں کتنے شاعروں کو نبٹا دیا۔ اور اس طرح نبٹایا کہ ،،ہر غزل کو ایک خوبصورت پیٹنگ سے مزین کیا گیا ہے،،۔ مطلب یہ کہ غزل سے قاری کی تشفی نہ ہو تو وہ تصویر دیکھ کر دل بہلائے۔ آغاز تو اچھا ہے۔ آتش کی غزل سے آغاز ہوتا ہے ؎

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

مگر یہ توقع نہ رکھیں کہ ہر مہینے کی ہر تاریخ پر ایسی ہی کوئی منتخب غزل پڑھنے کو ملے گی۔ بس جیسے سال میں اچھے برے سب طرح کے دن آتے ہیں اسی حساب سے اچھی بری ہر رنگ کی غزل یہاں پڑھنے کو ملے گی۔ اچھے مال کے ساتھ تھوڑا یا بہت بھرتی کا مال بھی سہی۔

کسی زمانے میں سال بھر میں جو غزلیں نظمیں لکھی گئیں اور رسالوں میں شایع ہوئیں ان میں سے چھانٹ کر غزلیں نظمیں ایک مجموعہ کی صورت پیش کی جاتی تھیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے سوچا کہ کیوں نہ ایک پنتھ دو کاج والا نسخہ استعمال کیا جائے۔ کیلنڈر شایع کر رہے ہیں اسی کے ذیل میں شاعروں کا حساب بھی بیباق کر دیا جائے اور اس طرح کہ کچھ شاعر تو اپنے زور پر اس کیلنڈر میں شامل ہوئے۔ کچھ شاعروں کو ادارے نے سہارا دیا اور کیلنڈر میں انھیں ساتھ عزت کے شامل کر لیا۔

ایک دوا ساز ادارے نے پچھلے برسوں میں یہ جدت دکھائی کہ کیلنڈر کو موضوعاتی کیلنڈر کا نام دیا اور اس میں شاعری، مصوری کے ساتھ نثری مضامین بھی شامل کیے۔ کچھ اخلاقی مضامین۔ کچھ کلام پاک سے استفادہ کر کے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں۔

بارہ برس تک ایسے کیلنڈر چھاپ کر ایسے سارے کیلنڈروں کو ایک مجموعہ کی شکل دے کر موضوعاتی کیلنڈرز کے عنوان سے بڑے سائز کی ایک پوری کتاب چھاپ دی۔ کیلنڈر تو سال کے بعد ردی کا مال بن جاتا ہے لیکن اس نے ایسا اہتمام کیا ہے کہ 9کیلنڈروں کے اس مجموعہ کو آپ اپنی کتابوں کی الماری میں سجا کر رکھنے پر مجبور ہوں گے۔

مطلب یہ ہے کہ کیلنڈروں کی یکسانیت سے تنگ آکر جدت پسند اداروں نے سوچا کہ کیلنڈر کو اتنا جاذب نظر بنا دو کہ سال گزرنے کے بعد بھی وہ یاروں کا حرز جاں بنا رہے اور کمپنی کی مشہوری ہوتی رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔