(پاکستان ایک نظر میں) - یہ قوم ہر اچھے کام کو سراہتی ہے

فہیم پٹیل  منگل 6 جنوری 2015
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس نے بھی ملک و قوم کے لیے اچھا کام کیا ہے، اِس قوم نے اُسے ہمیشہ پلکوں پر بٹھایا ہے۔ جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ یہ قوم خود بھی اچھی ہے اور یہاں کی اکثریت اچھے کاموں کو سراہتی بھی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

یہ ایک حقیقت ہے کہ جس نے بھی ملک و قوم کے لیے اچھا کام کیا ہے، اِس قوم نے اُسے ہمیشہ پلکوں پر بٹھایا ہے۔ جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ یہ قوم خود بھی اچھی ہے اور یہاں کی اکثریت اچھے کاموں کو سراہتی بھی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

یہ پاکستان ہے، وہ پاکستان جہاں ہر طرف پریشانی، مسائل اورتباہی نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ آئیے جواب ڈھونڈتے ہیں۔ 

آج بھی اِس وطن میں رہنے والوں کی اکثریت اچھے کاموں کو پسند کرتی ہے۔ یہ قوم قدر کرتی ہے اُن تمام لوگوں کی جو اِس مٹی کی خوشبو کو ترو تازہ کرنے کےلیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اور اِس کے برعکس یہ قوم اُس ایک ایک شخص سے نفرت کرتی ہے جو وطن کے نام و وجود کو بگاڑنے میں اپنی صلاحیتیں کھپارہا ہے۔

یہاں ہرگز ہوائی باتیں کرنے کا موڈ نہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ حقیقت بھی ایسی کے انکار مشکل نہیں کہ کچھ مثالیں یہاں دینا چاہتا ہوں۔ابھی کل ہی کی بات ہے۔ لاہور کے رہنے والے یادعلی میڈیا پر چھائے رہے۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ یادعلی اپنی فیملی کے ہمراہ موٹر وے سے گزرہے تھے کہ اُن کی نظر ایک بے قابو ٹریلر پر پڑی، یہاں اہم بات بے قابو ٹریلر نہیں ہے بلکہ اہم بات تو یہ ہے کہ اِس بے قابو ٹریلر کو قابو کرنے کےلیے اندر ڈرائیور موجود نہیں تھا۔ مگر یادعلی نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور پھر جان پر کھیل گیا اور اطلاع آئی کے بہادر سپوت نے ٹریلر کو کسی بڑی تباہی سے بچالیا۔ یاد رہے کہ یہ سب اُس وقت ہوا جب یادعلی کو اُن کی بیگم اور بچے مسلسل ایسا کرنے سے روک رہے تھے۔

لیکن بہادر شخص نے یہ کارنامہ سرانجام دیا اور پورے ملک میں اپنا نام بنالیا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ یادعلی کا مقصد یہاں ہر گز نام بنانا نہیں ہوگا کہ شاید ہی کوئی احمق شخص ہوگا جو نام حاصل کرنے کےلیے جان پر کھیل سکتا ہے۔

اب چلتے ہیں 3 دن پہلے، کیا میں اور آپ یادعلی کو جانتے تھے، نہیں، بلکل بھی نہیں۔ مگر ایک اچھے کام نے اُسے پورے ملک کی شناخت بنادیا۔ یہ قصہ محض یادعلی تک محدود نہیں ہے۔ آج اعتزاز احسن کی برسی ہے۔  یہاں میں پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن کی بات نہیں بلکہ بات تو یہاں قوم کے بہادر سپوت اعتزاز احسن کی ہورہی ہے جس نے درجنوں بچوں کی جان بچانے کے لیے خود کی جانب قربان کردی۔  ہنگو پاکستان کے ایک انتہائی چھوٹا سے شہر ہے، وہاں کون رہتا ہے؟ شاید ہمیں اِس سے کوئی سروکار ہی نہیں لیکن ہم اعتزاز احسن کو جانتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیونکہ اُس نے قوم کے لیے ایک اچھا کام کیا ہے۔ اور اِس طرح کےاچھے کام کرنے والوں کی ہمارے پاس ایک طویل فہرست ہے جن کو یہ قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

اور یہ ایک حقیقت ہے  کہ جس نے بھی ملک و قوم کے لیے اچھا کام کیا ہے، اِس قوم نے اُسے ہمیشہ پلکوں پر بٹھایا ہے۔ جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ یہ قوم خود بھی اچھی ہے اور اچھے کاموں کو بھی سراہتی ہے۔ اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اہمیت ہمیشہ اکثریت کی ہوتی ہے۔ اور الحمد اللہ یہاں اکثریت اچھے لوگوں کی ہے مگر!

مگر افسوس یہ کہ اِس کو چلانے والے کبھی اچھے ملے ہی نہیں۔ قیام پاکستان کو اب 68 برس ہونے کو ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کبھی ہمیں اور آپ کو ایماندار اور دیانتدار قیادت نصیب ہوئی؟ پھر چاہے وہ فوجی ہو یا سویلین۔ کیا کبھی ہمیں ایسا لیڈر ملا جو بیچ عوام میں آنے کی جسارت کرے اور عوام سے پوچھے کہ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں؟ اور جواب نفی میں ملے تو اُس وقت تک چین سے نا بیٹھے جب تک پریشانی دور نہ ہوجائے۔ کیا کبھی آپ کو اور ہمیں ایسا حکمراں نصیب ہوا جو محلات میں رہنے کے بجائے عام سے گھر میں رہنا پسند کرتا ہو؟ کیا آپ کو اور ہمیں ایسا حکمراں نصیب ہوا جس پر کرپشن کے داغ نہ ہوں؟ کیا آپ کو اور ہمیں کوئی ایسا حکمراں ملا جو خود ملازمت کرکے اپنا پیٹ پالتا ہو؟ کیا آپ کو اور ہمیں ایسا کوئی حکمراں ملا جس کے بچے سرکاری اُسکولوں میں تعلیم اور سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہوں؟

شاید نہیں! لیکن کیوں؟ جب یہ قوم اچھا کام کرنے والوں کو پسند کرتی ہے تو پھر یہاں کہ حکمراں اچھا کام کرنا کیوں پسند نہیں کرتے؟ یہ ایک انتہائی بنیادی سوال ہے؟  لیکن شاید اِس کا جواب حکمرانوں کو بھی معلوم نہیں کہ اقتدار اور مال و زر کے آگے سوچنے  سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑجاتی ہے ۔ لیکن اعتراض تو ہمیں خود پر بھی اُٹھانا چاہیے کہ ہم ہی تو ہیں جو اِسی ٹولے کو بار بار برداشت کرتے ہیں اور پھر اُف تک نہیں کرتے۔ اور نتیجاً پریشانی، مسائل اورتباہی نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر شاید اب سوال کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی حد تک جواب مل گیا ہوگا!

< نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔