کیا کھویا؟ کیا پایا؟

مقتدا منصور  منگل 6 جنوری 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہر سال کی طرح 2014 بھی گزر گیا ۔ مگر یہ سال جاتے ہوئے اپنے پیچھے سوختہ لاشیں، خون میں لتھڑی مفلوج زندگیاں اور تباہی کی ان گنت کہانیاں اور وحشتیں چھوڑ گیا ۔ اس برس پشاور سانحہ کی صورت ایسے زخم بھی لگے، جو شاید کئی دہائیوں بعد بھی نہ بھر پائیں ۔

سیاسی میدان میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے طویل دھرنے دیے ۔ بھارت اور افغانستان میں نئے انتخابات  ہوئے اور نئی حکومتیں قائم ہوئیں ۔ نیٹو افواج کا افغانستان میں 13 برس سے جاری آپریشن بھی اسی برس مکمل ہوا اور ان کا انخلا شروع ہوا ۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ۔ جنرل راحیل شریف نے امریکا کا دو ہفتے کا دورہ کیا جس سے پاکستان کی عسکری قیادت اور پینٹاگون میں بہتر تعلقات کا تاثر ملا ۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گئے سال بحیثیت مجموعی کیا کھویا؟ اور کیا پایا؟

سب سے پہلے دہشت گردی پر بات کیے لیتے ہیں ۔ 2014 دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا۔ جنوری سے مارچ تک کی پہلی سہ ماہی کے دوران دہشت گردی کے کل 4 واقعات ہوئے ۔ پہلا واقعہ سال کے پہلے روز یعنی یکم جنوری کو پیش آیا ، جب ایران سے زائرین کو واپس لانے والی بس کو کوئٹہ کے نزدیک نشانہ بنایا گیا جس میں 50 زائرین شہید ہوئے ۔ 9 جنوری کو ہنگو میں ایک 14 سال نوجوان لڑکا اعتزاز حسن اپنے اسکول کو دہشت گردی سے بچانے کی کوشش میں شہید ہوا ۔ اگلے روز کراچی میں CID کے سپریٹنڈنٹ چوہدری اسلم دہشت گردوں کے حملے میں جاں بحق ہوئے ۔ یکم مارچ کو قبائلی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں 11 افراد لقمہ اجل بنے ۔

دوسری سہ ماہی کے دوران دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے، جس میں کوئٹہ میں ایک بار پھر زائرین کی بس پر حملہ ہوا اور 24 افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس کے علاوہ 8 جون کو کراچی ائیرپورٹ اور 15 اگست کو کوئٹہ کی PAF بیس پر حملہ ہوا ۔

جب کہ ستمبر سے دسمبر کے دوران 5 دہشت گرد واقعات ہوئے ۔ جن میں سب سے سفاکانہ واقعہ 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی اسکول میں ہوا ، جس میں 132 بچوں سمیت 141 افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے ۔ جب کہ درجنوں بچے زخمی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اسی طرح 2 نومبر کو واہگہ بارڈر پر پریڈ کے بعد خودکش حملہ ہوا، جس میں 60 افراد جاں بحق اور 110 زخمی ہوئے ۔ 15 جون سے پاک فوج شدت پسند عناصر کے خلاف ضرب عضب آپریشن میں مصروف ہے، جس کا دائرہ کار سانحہ پشاور کے بعد بڑھائے جانے کی توقع کی جارہی ہے ۔

سانحہ پشاور کے فوراً بعد حکومت، سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کی مشترکہ میٹنگ میں 18 نکاتی ایکشن پلان منظور کیا۔ جس میں سب سے کلیدی نکتہ فوری سماعت کی فوجی عدالتوں کا قیام ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر نکات جن میں سزائے موت کی بحالی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن وغیرہ تجویز کیے گئے ہیں ۔ مشترکہ میٹنگ میں سبھی جماعتوں نے منظورکردہ نکات پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن بعد میں کچھ جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے آئیڈیے سے اختلاف کیا۔

حکومت فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دینے کی غرض سے 21 ویں آئینی ترمیم لانے کی خواہشمند ہے، جب کہ پیپلز پارٹی سمیت بعض اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ آئین میں ترمیم کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اس اظہاریے کے تحریر کیے جانے تک یہ ڈیڈلاک برقرار تھا ۔بعد کی اطلاع کے مطابق  فوجی عدالتوں کے  قیام کیلیے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ۔

جہاں تک سیاسی صورتحال کا تعلق ہے تو گزشتہ پورا سال سیاسی افراتفری کا شکار رہا اور کوئی اچھے نقوش چھوڑ کر نہیں گیا ۔ ایک طرف حکومت نے اپنی روایتی نااہلی اور ہٹ دھرمی کی روش کو برقرار رکھا، جس کے کئی مظاہر سامنے آئے، خاص طور پر جون 2014 میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14 افراد کے قتل اور پھر فیصل آباد میں PTI کے جلسے کے موقع پر حکمران جماعت کے کارکنوں کی اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن کی ہلاکت نے سیاسی ماحول کی تلخیوں میں مزید اضافہ کیا، جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف بھی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی  ۔ اس نے انتخابی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے اور دباؤ بڑھانے کے بجائے وزیراعظم کے استعفے جیسے غیر منطقی مطالبات کرکے اپنی تحریک کو بند گلی میں پہنچا دیا  ۔ فریقین کے انھی غیر سنجیدہ رویوں کے باعث سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہوا، جو سانحہ پشاور کی وجہ سے ختم ہوا ۔

سیاسی صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت پیپلز پارٹی جو 2013 کے عام انتخابات میں اپنی خراب کارکردگی کے سبب سکڑ کر سندھ تک محدود ہوگئی تھی ۔ سندھ میں ساڑھے چھ برس کے دوران بدترین حکمرانی کی نئی مثال قائم کی ہے، خاص طور پر تھر میں بچوں کی اموات نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی خراب کارکردگی کے بارے میں کئی سوالات اٹھا دیے ہیں ۔ اس کے علاوہ باہمی اختلافات اور گروہ بندیاں اس جماعت کی رہی سہی پوزیشن کو تباہ کرنے کا باعث بنی ہوئی ہیں ۔

30 دسمبر کو پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اپنے قبیلے کے سردار بن گئے ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جو 1967 میں ایک روشن خیال لبرل جمہوری سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی اور جس کا ابتدائی منشور مڈل اور ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی خواہشات کا ترجمان تھا، وہ جماعت، جس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں بحیثیت وزیراعظم پاکستان ملک بھر سے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، ٹھیک 40 برس بعد ان کے داماد نے سر پر ’’سرداری کی پگ‘‘ سجا کر  پارٹی کے سیاسی نظریات سے انحراف کردیا ۔ پیپلز پارٹی جو اپنے قیام کے وقت ایک لبرل، سیکولر اور روشن خیال جماعت کا تشخص رکھتی تھی، پہلے جاگیرداروں کے چنگل میں پھنسی اور اب قبائلیت کیطرف چلی گئی ۔

جہاں تک خطے کی سیاست کا تعلق ہے تو بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں BJP بھاری اکثریت لے کر کامیاب ہوگئی ۔ گجرات کے سابق وزیراعلیٰ نریندر مودی کی قیادت میں مضبوط حکومت قائم کرلی، جس کے تیور روز اول ہی سے خاصے جارحانہ ہیں ۔ حالانکہ میاں نواز شریف نے رسم حلف برداری میں شرکت کرکے تعلقات میں بحالی کا عندیہ دیا تھا ۔ دوسری طرف افغانستان میں ہونے والے انتخابات دھاندلی کے الزامات کے باعث متنازع ہوگئے تھے ۔

مگر امریکی مداخلت کے بعد حکومت سازی کا ایک فارمولہ طے پایا، جس کے تحت اشرف غنی ملک کے صدر اور عبداللہ عبداللہ ملک کے CE مقرر ہوئے ۔ افغانستان نے صدارتی طرز حکمرانی سے پارلیمانی نظام کی طرف بڑھنے کی پہلی کوشش کی ہے ۔ اشرف غنی کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ حامد کرزئی کے مقابلے میں زیادہ دور اندیش اور معاملہ فہم ہیں اور پاکستان کے ساتھ مضبوط اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے بھی خواہاں ہیں ۔

2014 کی آخری سہ ماہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکا کا 15 روزہ دورہ کیا ۔ جس میں ان کی امریکی عسکری قیادت کے علاوہ اہم حکومتی شخصیات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ۔ اس دورے نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی کے بادلوں کو چھٹنے میں مدد دی ۔ اس دورے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے چھٹی کے دن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کھلوا کر جنرل راحیل سے ملاقات کی ۔ اس دورے کے پاکستان کے علاوہ خطے کی مجموعی صورتحال پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کے غالب امکانات ہیں ۔

افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اہم کردار ملنے کی توقع کی جارہی ہے ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت پاکستان کو افغانستان میں ملنے والے نئے کردار سے ناخوش ہے اور نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنی پوری توجہ مغربی سرحد پر مرکوز کرے۔ ان حلقوں کے خیال میں کنٹرول لائن پر پیدا ہونے والی کشیدگی اسی سوچ کا مظہر ہے، لیکن وقت اور حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے جہاں پاک بھارت تعلقات میں بہتری ضروری ہے، وہیں امریکا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون اور ورکنگ ریلیشن شپ بھی ناگزیر ہوچکی ہے ۔

2014 میں ہونے والے واقعات اور سانحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں حکومت، حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو فعالیت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ میرٹ اور احتساب کے کلچر کو فروغ دینا ہے اور دہشت گردی سمیت ہر غیر جمہوری اقدام کے خلاف سینہ سپر ہونا ہے ۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ 2015 پاکستان کی سلامتی، بقا اور جمہوری اقدار کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں کرنے کا سال ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔