اسداللہ شاہ :روشن چراغ

محمد خان سیال  منگل 6 جنوری 2015

حاجی اسداللہ شاہ ولد سید حاجی ابراہیم شاہ مرحوم کوئی عام وڈیرے یا زمیندار نہ تھے، درحقیقت وہ زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے مقامی رہنما اور سماج سدھار شخصیت کے مالک بھی تھے، تحریک پاکستان میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا اور خدمات کے اعتراف میں ان کو تحریک پاکستان میڈل اور سند عطا کی گئی قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ بنانے کی مخالفت کرنے کے علاوہ انھوں نے اپنے علاقے میں تعلیم کو عام کرنے، ثقافتی اور سماجی بھلائی کے کاموں کو پھیلانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

وہ اپنے مریدوں سمیت سارے پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی عزت کیا کرتے تھے، ان کو اپنے ساتھ بٹھاتے اور ان کی ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے جو اس دور میں کسی زمیندار اور وہ بھی سید کے لیے غیر معمولی بات تھی کاش! ہمارا زمیندار طبقہ، ان کی پیروی کرتے ہوئے معیاری تعلیم کو عام کرنے اور سماجی بہبود کے کاموں کو بڑھاوا دیں۔اسداللہ شاہ کے آبا و اجداد ہرات (افغانستان) سے ہجرت کر کے سب سے پہلے سندھ کے ہالا کنڈی (موجودہ ہالا) میں آباد ہوئے انھوں نے 1916 عیسوی میں سیال آباد، تحصیل کنڈیارو، ضلع نوشہرو فیروز میں آنکھ کھولی اور 24 نومبر 1991ء میں 75 برس کی عمر میں موجودہ گاؤں حاجی ابراہیم شاہ میں رحلت فرمائی۔

مرحوم نے اپنے علاقے میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا جب کہ ان دنوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی انھوں نے 14 نومبر 1942ء کو اپنے گاؤں میں اپنے والد کے نام سے منسوب، علاقے کا پہلا پرائمری اسکول کھولا اور اسکول کی کارکردگی دیکھنے کے لیے کبھی کبھار خود بھی اسکول میں تشریف لاتے تھے ایک مرتبہ مشہور ماہر تعلیم شمس العلما ڈاکٹر محمد بن عمر داؤد پوتہ نے اس اسکول کا ذاتی طور پر دورہ کیا تھا۔

سید حاجی اسداللہ شاہ مرحوم نے، تعلیم کو عام کرنے کے لیے 14 نومبر 1942ء پر اپنے گاؤں میں علاقے کا پہلا، سید حاجی ابراہیم شاہ نامی پرائمری اسکول قائم کیا جب کہ سندھ میں اس وقت تعلیمی اداروں کا فقدان تھا اور علاقے میں دور دور تک کسی اسکول کا نام و نشان بھی نہ تھا، جس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پچاس کی وسط دہائی میں، جب میں مذکورہ پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا تو اس وقت طالب علم دس دس کلومیٹر دور پیدل چل کر تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے اسکول میں آتے تھے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر شاہ صاحب ہمارے گاؤں میں اسکول قائم نہ کرتے تو ہم جیسے لوگ کس طرح آسانی سے تعلیم حاصل کرتے؟ لہٰذا میں کم سے کم اپنے آپ کو ساری زندگی ان کا احسان مند تصور کرتا رہا ہوں۔ شاہ صاحب ممتاز صحافی، ترقی پسند، روشن خیال اور سماج سدھارک شخصیت کے مالک تھے جن کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں گاؤں اور قریبی علاقے کے لوگوں کو ملا ۔ شاہ صاحب نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا اور وہ مسلم لیگ نوابشاہ ضلع (اب بینظیر آباد) کے سپہ سالار رہے۔

نوابشاہ شہر کے مسجد روڈ پر ان کا کشادہ آفس مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا پورے ضلع میں سب سے بڑا مرکز ہوتا تھا ان کی دعوت پر بانی پاکستان محمد علی جناح نوابشاہ تشریف لائے تھے جب کہ 1987ء میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ نے پاکستان تحریک ایوارڈ اور سند، ان کو عطا کی تھی۔ شاہ صاحب، زبردستی ون یونٹ بنانے کے سخت مخالف تھے اور اس سلسلے میں ان کی جدوجہد یادگار تھی۔

وہ اتنی بھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے کہ ون یونٹ کی مخالفت کرنے پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ، محمد ایوب کھوڑو نے ان کی گرفتاری کے لیے پولیس کو سخت آرڈر جاری کیے تھے جب کہ پولیس نے، ان کو گرفتار کرنے کے لیے کئی ہفتوں تک گاؤں میں ان کی حویلی کا دن رات گھیرا ڈالا ہوا تھا مگر اسد اللہ شاہ گرفتاری سے بچنے اور ون یونٹ کے خلاف تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے برقعہ اوڑھ کر اور بیل گاڑی میں بیٹھ کر قریبی گاؤں میں اپنے خالہ زاد بھائی مکھن سہتو کے گھر پر چلے گئے جس کی کئی دنوں تک پولیس کو بھنک تک نہیں پڑی ۔

ان دنوں ایوب کھوڑو سندھ کے طاقتور حکمران یعنی وزیراعلیٰ تھے، یہاں تک کہ ون یونٹ کی مخالفت کرنے پر اس وقت کے اسپیکر سندھ اسمبلی میر غلام علی تالپور کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر بٹھا کر تھر ریگستان کے دور دراز شہر مٹھی کی ریسٹ ہاؤس میں نظربند کروا دیا تھا اور اس سے پہلے غلام علی تالپور کو اردن کے بادشاہ شاہ حسین مرحوم جو شکار کرنے کے لیے ان کے پاس ہی ٹھہرے تھے، اپنے مہمان کے قتل کی جھوٹی سازش تیار کرنے پر میزبان یعنی غلام علی تالپور کو گرفتار کرلیا تھا۔ افسوس کہ اسداللہ شاہ جیسے گمنام مرد مجاہد جس نے پاکستان تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔

ون یونٹ کے خلاف بڑی جدوجہد کی جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر پولیس ان کی گرفتاری کے لیے کئی دنوں تک ان کی حویلی کو گھیرا ڈال رکھا تھا اور جس نے تعلیم کو عام کرنے، ثقافت کو بڑھاوا دینے اور سماجی کام کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا، ان کا ذکر کہیں بھی موجود نہیں ہے ۔ شاہ صاحب کی سیاسی وابستگی ابتدا سے ہی مسلم لیگ سے رہی جس نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا لیکن بعد میں شاہ صاحب نوابشاہ شہر کے معروف سید گروپ سے آخری دم تک سیاسی طور جڑے رہے۔ شاہ صاحب کا سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید سے بھی رہے۔ شاہ صاحب 1960ء کے قریب نوابشاہ سے ہفت روز سندھی اخبار غالب نکالا کرتے تھے جس کی لوح پر مندرجہ ذیل شعر کچھ یوں لکھا ہوتا تھا:

صادق ہوں اپنے قول کا، غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

شاہ صاحب، ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اپنے والد محمد ابراہیم شاہ اور چچا نور محمد شاہ کے نام سے منسوب سہ روزہ ثقافتی میلہ گاؤں میں منعقد کیا کرتے تھے جو کئی برسوں تک مسلسل جاری رہا۔ شاہ صاحب کے بیٹے سید زین العابدین شاہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ میلہ کا ذکر دوسری اور تیسری جماعتوں کے سماجی ابھیاس (سوشل اسٹڈیز) کی درسی کتابوں میں 1985ء تک موجود رہا جو ملاکھڑو (سندھی کشتی) کے لحاظ سے شاہ لطیف کے میلے کے بعد دوسرا بڑا ملاکھڑا سمجھا جاتا تھا جس میں پہلے اور دوسرے درجے کے ملھ (پہلوان) لازمی طور سالانہ شرکت کیا کرتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ رستم سندھ شیر میر بحر مرحوم کو پہلی مرتبہ نورالدین ببر نے شکست دی اور چھوٹا بچہ ہونے کے باوجود میں نے ان کو انعام میں پیسے دیے تھے۔اس دور کے چند مشہور ملھوں کے نام تھے: شیر میر بحر (رستم سندھ)، نورالدین ببر، انب گوپانگ، انب خاصخیلی، مٹرشیدی، یکہ خاصخیلی، قلب علی جتوئی، منیر گوپانگ وغیرہ ۔ میلے میں کبھی کبھار کبڈی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے اور گاؤں میں رہنے والے، کبڈی کے ممتاز کھلاڑی دین محمد کھوکھر اب بھی وہ سہانے دن یاد کرتے ہیں ۔

میلے میں کئی نمایاں سیاسی، سماجی شخصیات اور سرکاری افسران شرکت کرتے تھے۔ ملاکھڑے کو دیکھنے کے لیے، لکڑی کی چھپر بنائے جاتے تھے جو تماش بین کے رش کی وجہ سے کئی مرتبہ ٹوٹ جاتے تھے ۔ آخرکار متبادل کے طور پر مٹی کا بنا ہوا مستطیل نما وسیع کوٹ تعمیر کیا گیا جو 12 فٹ چوڑا ہوتا تھا، جہاں لوگ آرام کے ساتھ بیٹھ کر ملاکھڑا اور دوسرے پروگرام دیکھا کرتے تھے ۔ شاہ صاحب خود بھی کلاسیکی موسیقی کے ماہر تھے اور مختلف کلاسیکی گلوگار ان کی دعوت پر گاؤں آتے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے ۔

ایک مرتبہ استاد منظور علی خان بھی گاؤں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے تشریف لائے تھے۔ شاہ صاحب کے دوستوں کی فہرست لمبی تھی جن میں قوم پرست رہنما جی ایم سید، مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، حاجی غلام شاہ (بھورل گاؤں والے)، علی احمد شاہ، سابق وزیر سید محمد علی شاہ (دربیلو) کے علاوہ سید نذر شاہ (سابق ایم پی اے) اور ان کے والد سید خیر شاہ، محمد بخش سیال (راقم الحروف کے والد)، واحد بخش سہتو، محرم علی بھٹی (مشہور صحافی)، غلام رسول جتوئی اور ان کے فرزند غلام مصطفی جتوئی (سابق وزیر اعلیٰ سندھ)، غلام قادر شاہ لکیاری (ایڈیٹر ہفت روزہ مظلوم، نوابشاہ) وغیرہ شامل تھے ۔سید حاجی ابراہیم شاہ مرحوم کے تین فرزند تھے: سید حاجی اسداللہ شاہ، ڈاکٹر سید عبدالغنی شاہ اور سید عبداللہ شاہ ۔ حاجی اسداللہ شاہ خوبصورت اور کلین شیو تھے اور انھوں نے کل چار شادیاں کیں۔سید حاجی اسداللہ شاہ کا نام ، تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لینے کے علاوہ ون یونٹ کے خلاف ان کی تاریخی جدوجہد، تعلیم، ثقافتی اور سماجی خدمات کے عوض یاد رکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔