بچوں سے زیادتی اور معاشرہ (حصہ اول)

قادر خان  جمعرات 8 جنوری 2015
qakhs1@gmail.com

[email protected]

بچوں وبچیوں کے ساتھ زیادتی وہراساں کرنے کے مسلسل واقعات معاشرے کی اخلاقی انحطاط پذیری کی جانب نشان دہی کرتے ہیں ۔ سب سے بڑ ا ظلم یہ ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد اذیت ناک موت سے بھی ہمکنارکر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جس سے انسانیت شرما جائے۔

حالیہ واقعات میں لاہور کے سات سالہ بچے کو مسجد میں زیادتی کے بعد پھانسی دیکر قتل کر دیا گیا۔ جب کہ اس سے قبل ایک لڑکی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اس کا باپ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا کرتا تھا جس کے بعد وہ تنگ آ کر مدرسے میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ جب کہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر کچھ عناصر نے مدارس کے خلاف ایسا پروپیگنڈا شروع کیا کہ جیسے پاکستان کے تمام دینی مدارس، مسجد ضرار ہیں  اور انھیں گرا دینا چاہیے۔ برطانیہ کے اخبار ’دی میل‘ میں ایک خبر  شایع ہوئی ہے کہ  برطانیہ میں 177 ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی مجرموں کے لحاظ سے پہلے دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

برطانیہ میں 12000مجرموں میں  سے 424 کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جب کہ غیر ملکی مجرموں میں775 قاتل،587 عصمت دری اور 155 بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرم اور 15 سزا یافتہ دہشت گرد ہیں۔ ہوم آفس نے پہلی بار ایسی فہرست جاری کی جس میں دنیا بھر سے برطانیہ میں موجود جرائم پیشہ افراد کے جرم اور ان کی قومیت کی بتائی گئی ۔ مجموعی مجرموں میں سے ہر دس میں ایک قاتل یا جنسی زیادتی میں ملوث ہے۔برطانیہ میں ہر 20 بچوں میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے ان بچوں کو عموما شراب اور نشے کی مدد سے پہلے اپنی طرف راغب کیا جاتا ہے اور پھر زیادتی کی جاتی ہے۔ برطانیہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں شدت پائی جاتی ہے۔

برطانوی قانون سازوں نے اپنے ملک میں بچوں کی حمایت کے حقوق کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانیہ کے دو رفاہی اداروں Ilzzy’s Promise اور Break The Silenceنے اپنی حالیہ رپورٹوں میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی اوران کے ساتھ ظلم کی رپورٹ جاری کی۔ برطانیہ جیسے ملک میں بڑھتے واقعات کی بنیادی وجہ قانون کی کمزوری بتائی گئی کہ بچوں کی حمایت سے متعلق قوانین کے کمزور ہونے کی وجہ سے بچوں پر ڈھائے جانے والے بہت سے مظالم اور جرائم کی تفتیش نہیں ہوتی ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے ایک ایسی رپورٹ بھی شایع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس نے ایک کارروائی کرکے ایسی دستاویزات حاصل کی تھیں جن کے مطابق اس گھناؤنے اقدام میں اس ملک کی بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث تھیں۔ مذہبی اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں فرد کا انفرادی قصور ہوتا ہے جیسے مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔

لیکن حیرانی ہوتی ہے جب کوئی مذہبی وابستگی رکھنے والی شخصیات ایسے قبیح فعل پر نرم رویہ اختیار کر لیں۔ جیسے کیتھولک چرچ کی طرف سے ہم جنسی رویوں اور حمل کو ساقط یا روکنے کے حوالے سے جو نکتہ نظر رکھا گیا  وہ اقوام متحدہ کی جانب سے تنقید کی زد میں آیا اور اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال نے  ویٹیکنسے ایک بار پھر کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے پادریوں کے بارے میں شواہد اکھٹے کا بند عمل دوبارہ شروع کیا جائے اور ذمے دار پادریوں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال کی سربراہ کرسٹن سینڈبرگ کا کہنا تھا کہ بچوں کے استحصال میں ملوث پادریوں کے بارے میں سخت رویہ اپنانے کا ویٹیکن سے کئی بار کہا گیا ہے لیکن کوئی مناسب ایکشن ابھی تک سامنے نہیں آ سکا اور یہ بچوں کے حقوق کے بارے میں 1989ء میں منظور ہونے والے عالمی کنویشن کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جب کہ دوسری جانب ویٹیکن نے ایک بیان جاری کیا تھا  کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو روکنے کے حوالے سے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا جا چکا ہے  سابقہ پوپ نینی ڈکٹ شانزدہم نے 2005ء سے لے کر 2013ء کے درمیان متعدد بار بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر معذرت پیش کی تھیں۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے اطفال کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق سابقہ پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم نے تقریبا 400 پادریوں کو ان الزمات کی روشنی میں فارغ کر دیا تھا۔ موجودہ پوپ فرانسس نے بھی اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ہم اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو تعلیم و شعور کی کمی کے باوجود تعلیمی درس گاہوں میں بچوں کے ساتھ جنسی واقعات کم ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے، چونکہ پاکستان ایک مسلم ملک کی حیثیت سے ایک شناخت رکھتا ہے اور یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم  ہے اس لیے یہاں اس قسم کے قبیح واقعات معاشرے کے ہر فرد کو دہلا دیتے ہیں، جب کہ جنسی زیادتی کے واقعات پاکستان نژاد کیمونٹی سے بھی منظر عام پر آئے ہیں، ہم عام طور پر مغرب کو تعلیم یافتہ اور باشعور سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ مغربی ماحول میں ایسے واقعات تواتر سے ہوتے ہیں اور بعض واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے، ایک عالمی شہرت یافتہ باکسر نے حالیہ انکشاف کیا تھا کہ اس کے ساتھ بھی بچپن میں جنسی زیادتی کی گئی تھی، لیکن اس نے اس واقعے کو چھپایا۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مشرقی ماحول میں، خاص طور پر پاکستان  میں خاندانوں کے باہمی جڑے معاشرے کے باوجود ایسے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں ؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکمران، والدین، مذہبی رہنما، قانون کے رکھوالے اور معاشرہ۔سینٹرل ایشیا آن لائن نے چند ماہ قبل شدت پسندوں کے جنسی حملوں کے حوالے سے انکشاف کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی اور افغان حکام کو دیگر عسکریت پسند گروپوں میں اس طرح کی زیادتیوں کے واقعات کا پتہ چلا ۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد کے بتایا کہ1990ء کے عشرے میں طالبان پر الزام لگتا تھا کہ وہ لڑکوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ اس عمل کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ پاک  افغان قبائلی پٹی میں جاری جنگ میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پرفیسر اعجاز خان نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ معاشرے میں  جرائم سرایت کر جانے کا نتیجہ ہے کہ مذہبی شدت پسند مذہب کے نام پر کھیل رہے تھے اور اس طرح کے قبیح افعال میں بھی ملوث تھے ۔‘‘

افغان قومی نظامت برائے سلامتی کی جانب سے مبینہ زیادتیوں کے واقعات کی تفصیلات جاری کی گئیں، جس پر پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد  کے مطابق ایسا تصور کہ یہ مسئلہ سالوں پرانا ہے اور نوجوانوں کی جنسی زیادتی کے ایک دیرینہ مسئلہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی مذمت نہ جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے ساتھ یہ تصور کافی عام ہے۔            (جاری ہے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔