21ویں آئینی ترمیم۔۔۔۔۔ فوجی عدالتوں کا قیام!!

احسن کامرے  جمعـء 9 جنوری 2015
آئینی، قانونی و عسکری ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

آئینی، قانونی و عسکری ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

6جنوری کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے ایک ہی روز میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کی اور کسی بھی رکن نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔

آئین میں اس ترمیم کا مقصد دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی اورفوجی عدالتوں میں ان پر مقدمات چلانے کے لیے ان عدالتوں کو آئینی حیثیت دینا ہے ۔ اس ترمیم کے تحت فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والے، اغواء برائے تاوان کے مجرم، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مالی معاونت کرنے والے، مذہب اور فرقے کے نام پرہتھیار اٹھانے والے، کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین، سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے اور دھماکہ خیز مواد رکھنے یا اسے کہیں لے جانے میں ملوث افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکے گا۔

اس آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی ایسی غیر معمولی صورتحال ہے جو پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کی متقاضی ہے۔ ’’21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایس ایم ظفر (سابق وفاقی وزیر قانون)

16دسمبر کا واقعہ ڈیفائننگ مومنٹ بن گیا ، اس میں تشدد کی انتہا ہوگئی،بچوںکو بے دردی سے قتل کیا گیا اور دہشت گردوں نے یہ کوشش کی کہ کوئی زندہ بچ کے نہ جائے۔ جب یہ صورتحال دیکھی تو سب نے کہا کہ دہشت گردی کی انتہا ہوگئی ہے اور جب معاملات ایسے ہوجائیں تو پھر اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے اپنی ایک ذمہ داری اگرچہ بہت دیر سے پوری کی لیکن اس سانحہ کے بعد اس نے بالآخر یہ نتیجہ نکال ہی لیا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔

گویا سوچ میں ایک بہت بڑی تبدیلی آگئی اور اسی کے نتیجے میں پارلیمان نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہمیں اس سلسلے میں خود ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے جس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ ضرب عضب سے نتائج کا پتہ چل رہا تھا کہ آئندہ کیا صورتحال ہوگی، چنانچہ یہاں پارلیمنٹ پر یہ فرض آتا تھا اور انہوں نے اسے نبھاتے ہوئے اکیسویں ترمیم کا قانون بنا دیا جس سے فوجی عدالتوں کے ذریعے سے ’’سپیڈی ٹرائل‘‘ ہوسکے گا ۔ اب ہمیں بھی بطور قوم اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو ایک آئینی دور سے نکال کر جنگ کے دور میں لانا ہوگا اور دہشت گردی کو اپنا مخالف سمجھ کر اس کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔

میرے نزدیک اب جب یہ فیصلے ہوگئے اور حکومت نے نیشنل سکیورٹی پالیسی بنالی تو اب اسے چاہیے کہ پورے عزم کے ساتھ اپنے کام پر گامزن ہوجائے۔ کیونکہ جنگ ہمیشہ ایک ایسے عزم اور ارادے سے جیتی جاتی ہے جس میں کوئی خم نہ آئے اور جس کے بارے میں یقین محکم ہو کہ ہم نے جو کیا ہے وہ درست ہے ۔ ہمارے کچھ پارلیمنٹیرین نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر یہ اظہار کیا کہ ہم نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا ، ہم نے مجبوراََ ووٹ ڈالا ہے اور کڑوی گولی لی ہے۔

میرے نزدیک جب تک انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا تھا تب تک تووہ ایسا کہہ لیتے لیکن جب انہوں نے ووٹ ڈال دیا تو اس پلڑے میں خود کو پالیا تو اب اس میں اگر مگر اور کیڑے نکالنے کا وقت نہیں رہ گیا۔اب وہ پوری تندہی اور مضبوطی کے ساتھ چلیں اور ایسے مشورے دیں جس سے یہ معاملہ آگے بڑھ سکے۔ اس وقت یہ دوسوچوں کا ٹکرائو ہوا، ایک سوچ یہ کہ ہماری قوم کو اس چیز کی ضرورت ہے اور دوسری سوچ یہ کہ آئین کو اس کی ضرورت ہے ۔ بہت سے لوگوں نے قوم کی بقا ء ، ملکی سالمیت اور ضروت کی سوچ کو زیادہ اہم سمجھا ۔ لہٰذا میری یہ رائے ہے کہ اسے ضمیر کا بوجھ نہ سمجھا جائے۔

ملک و قوم کو اس کی ضرورت ہے لہٰذاآپ اسے اپنی سوچ کا حصہ بنا لیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ان ہی کی رائے درست تھی جوکہتے تھے کہ آئین مضبوط ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس رائے کو سامنے رکھتے ہوئے درمیانی اور صحیح راستہ اختیار کیا گیا کیونکہ ہمیشہ درمیانی راستہ ہی بہتر ہوتا ہے اور اس معاملے میں یہ درمیانی راستہ نکالا گیا کہ یہ ترمیم صرف دو سال کے لیے کی گئی۔ یہ آئینی ترمیم اور قانون مستقل نہیں بنایا گیا، میرے نزدیک یہ دانشمندی کی نشانی ہے اور ایک صحیح قدم ہے ۔ لہٰذاایک صحیح قدم اٹھانے کے بعد اس پر قائم رہنا زیادہ ضروری ہے۔

ہمیں چاہیے کہ اب ارادہ باندہ لیں کیونکہ جنگ میں جانے کے بعد شکست کا کوئی پہلو نہیں ہوتا، شکست ہمارے ملک میں اب سخت نقصان کا باعث بن سکتی ہے اور اب تو سوائے کامیابی حاصل کرنے کے کوئی دوسر اراستہ نہیں رہ گیا۔میرے نزدیک اس سب میں فوج کو یقیناسہولت ملے گی کہ وہ ان دو سالوں میں دہشت گردی کو قابو کرسکے اور یہ دورانیہ دہشت گردی میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ترمیم یا فوجی عدالتوں کا قیام آخری فیصلہ نہیں ہے،اس میں سول حکومت کو پوری طرح شامل ہونا ہوگا۔

یہ جنگ عسکری قوت اور سول حکومت نے مل کر جیتنی ہے اور اگر جیت گئے تو اس کا سہرا دونوں کے سر ہوگا۔ حکومت کو اس دوران میں اپنے آپ کو تیار کرنے کا موقع ملا ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ اس عرصے میں نظام عدل کو درست کرے، ججوں اور گواہوں کو سکیورٹی دے اوراس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔ اس کے علاوہ فرانزک معاملات کوبھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک یہ دو سال معاملات کو درست کرنے کے لیے ملے ہیں۔

حکومت کواس معاملے کو ’’سلور بلٹ‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے اور اسے اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گئی۔ حکومت کو تعلیم ، صحت اور بیروزگاری کو دور کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے اورالیکشن سے پہلے قوم سے جو وعدے کیے تھے ان دوسالوں میں انہیں پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت ہمارا نوجوان تبدیلی کے لیے تیار ہے ، حکومت کو چاہیے کہ ان کے لیے اقدامات کرے اور انہیں تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت کو گڈگورننس کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اسے چاہیے کہ جلد فیصلے کرنے کی عادت ڈالے۔

اس کے علاوہ حکومت پوری قوم کو دہشت گردی کے بارے میں آگاہ کرے اور اسے یہ بتایا جائے کہ اس سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے کیونکہ اب قوم کو اس میں اپناکردار ادا کرناہوگا۔ دہشت گرد تو مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں انہیں ان سزائوں سے فرق نہیں پڑتا لیکن اس میں کمی ضرور آئے گی اور اس وقت فوجی عدالتوں کی ضرورت بھی ہے۔ امریکہ میں جب سول وار شروع ہوگئی توابراہیم لنکن نے آئین کے کچھ حصوں کو ایگزیکٹو آرڈر سے معطل کردیا اور اس میں کانگریس کو بھی شامل نہیں کیا۔

جب لوگوں نے شور مچایا تو انہوں نے کہا کہ میرے لیے میرا ملک اہمیت رکھتا ہے، حالت جنگ میں میرے پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے اور مجھے اپنے قوانین بنانے ہیں ۔9/11کے بعد امریکہ نے گوانتا نومو بے جیسے متعددٹارچر بیس بنائے اور وہاں جن دہشت گردوں کو رکھا گیا انہیں ان کے رشتہ داروں ، وکلاء سے ملنے کی بھی اجازت نہیںتھی اورنہ ہی انہیں عدالت تک رسائی حاصل تھی۔اس سب سے پہلے ان کے صدر نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں آگئے ہیں اور ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنی ہے اور پھر ان کی قوم نے بہت سارے ضرورت کے معاملات کو تسلیم کیا۔

برطانیہ نے بھی ایسا ہی کام کیا، پھربھارت نے بھی کچھ اسی قسم کے قوانین بنائے اور پوری قوم ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ لہٰذا اب ہماری پوری قوم کو اپنا ذہن تبدیل کرنا ہوگا۔ ایسے حالات میں آئین کی بالادستی یا ملکی سلامتی میں سے ایک سوچ کو چننا ہوتا ہے اور ان پر سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک موجودہ صورتحال میں پارلیمنٹ اور حکومت نے درست قدم اٹھایا ہے اورجو تبدیلی آئین میں کی گئی ہے وہ عارضی ہے لہٰذا اس عارضی تبدیلی کا پورا فائدہ اٹھائیں، اس میں کیڑے نہ نکالیں اور اس صبح کا انتظار کریں جب دوسال بعد ہم یہ اطمینان سے کہہ سکیں گے کہ اب ہم بہتر حالات اور بہتر پاکستان میں آگئے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (تجزیہ نگار)

دہشت گردی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے ہمیں عرصہ دراز سے اس کا سامنا ہے، 2007ء میں بے نظیر بھٹو شہید ہوئیںاور اس کے علاوہ بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آئے۔ دہشت گردی انتہاپسندی سے جنم لیتی ہے ، جب معاشرے میں کسی بھی وجہ سے انتہا پسندانہ سوچ فروغ پائے تو اس کا ردعمل دہشت گردی کی صورت میں بھی نکلتا ہے ۔ ہمارے ملک میں تین قسم کی انتہا پسندی نظر آتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ فاٹا میں پاکستانی طالبان ہیں، دوسرا فرقہ ورانہ گروپ جن کا تعلق پنجاب سے ہے،جن میں پنجابی طالبان کا ذکر آتا ہے اور تیسرے ناراض قبائل ہیں جن پر بمباری کی گئی اور انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔

یہ تین اقسام ہیں جن کی بعد میں مختلف اشکال بھی سامنے آئیں ۔ اب اصل چیز یہ ہے کہ اسے حل کیسے کرنا ہے ۔ اس کے لیے بات چیت کی کوشش بھی کی گئی اورپہلے جو ’’ اے پی سی‘‘ بلائی گئی تھی اس میں بھی یہ بات کی گئی کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں ۔ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور یہ دیکھا گیا کہ وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں ، وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے ، جھنڈے کونہیں مانتے اور نہ ہی پاکستانی قوانین کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے بات چیت کرنا بے معنی ہے۔ لیکن جو چیز بحیثیت پاکستانی ہمیں پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت نے اس مسئلے میں اس سنجیدگی کیا مظاہرہ نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔

اسلام آباد کی ایک سرکاری مسجد کے امام دہشت گردوںکا ساتھ دیں یا یہ واضح ہو کہ ان کے تعلقات وہاں ملتے ہیں تو اب بھی وہ صاحب وہاںموجود ہوں تو یہ کس کی کمزوری ہے اور یہ کیا ہورہا ہے ۔ میرے نزدیک دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے اور جن وجوہات کی بناء پر فوجی عدالتوں کی ضرورت پیش آئی یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے ۔ اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کاادارہ بھی بنایا گیا لیکن اس نے کوئی کام ہی نہیں کیا اورنہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی۔ میرے نزدیک پارلیمنٹ کو مضبوط ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کے اندر ہی تمام معاملات پر بحث ہونی چاہیے۔

’’اے پی سی‘‘ کی بجائے سیاستدانوں کو اسمبلی میں جاکر اسمبلیاں مضبوط کرنی چاہئیں ۔ ہمارے ملک میں کالعدم تنظیمیں اپنے نام تبدیل کر کے مختلف شہروں میں جلسے کرتی ہیںمگر سب خاموش ہیں۔ جب ان گروپوں کوبننے دیا جائے گا، ان سے نرمی برتی جائے گی اور سیاسی مقاصد کے لیے ان کا ساتھ دیا جائے گاتو پھر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں دہشت گردوں کو اپنا دشمن سمجھنا ہوگا۔ میرے نزدیک فوج کا ایک مخصوص کردار ہے اور ہم اس ساری چیز کوصرف فوجی طاقت سے نہیں دبا سکتے۔

فاٹا میں فوج نے اپنے کردار ادا کردیا ہے اس کے بعد سول حکومت کو وہاں ادارے بنانے ہیں، وہاں ترقیاتی منصوبے کرنے ہیں اور ان لوگوں کو پاکستانی معاشرے کا حصہ بنانا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ملک میں جتنے بھی فرقہ وارانہ گروپ ہیں ان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، اس کے لیے بڑے صوبوں کو کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جب تک یہاں اس سوچ کا خاتمہ نہیں ہوگا تو فاٹا اور دیگر علاقوں میں جتنی مرضی کارروائیاں کرلیں انتہاپسندی اور دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ فوج اس سب میں اپنا کردار ادا کررہی ہے لیکن ہمیں اس سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

اس کے لیے نصاب میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے اور اب یہ سول حکومت اور سیاسی قیادت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کرے۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، انتہا پسندی پر بھی توجہ ہے لیکن دوسرا یہ ہے کہ ہمیں اپنے اداروںکو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر اسمبلی میں جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا جب اداروں کا تقدس پامال کیا جائے گا اورخلا پیدا کی جائے گی تو دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔

اگرہم نے اب دہشت گردی پر قابو پالیا توہمارے معاشرے میں توازن برقرار ہوجائے گا اور پھر ملکی ترقی و دیگر کاموں کی طرف ہماری توجہ مرکوز ہوجائے گی۔ حال ہی میں جن مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے یہ وہ مجرم ہیں جنہیں فوجی عدالتوں نے پھانسی دی۔ لہٰذا اب ہماری حکومت کو بھی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔لیکن اگر یہ ڈرتے رہیں گے اور ان مجرموں کو پھانسی نہیں دیں گے تو پھر دس ’’اے پی سی‘‘ بھی بلا لیں مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز فوج کررہی ہے اور سیاسی قیادت اس میں اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔

اب اگر حکومت آگے بڑھ کر قیادت کرے گی اور ان قوانین پر عملدرآمد ہوگا تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب تک سیاسی قیادت آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کرے گی فائدہ نہیں ہوگا۔ ابھی ترمیم میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ سارے قوانین تو پہلے سے موجود ہیں ، صرف فوجی عدالتوں کا قیام ہی ایک نئی بات ہے لہٰذا اصل چیز قوانین پر عملدرآمد ہے اس کے بغیر نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

محمد رمضان چوہدری (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)

ہم چونکہ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جس کا ایک متفقہ آئین ہے اور جس کی ایک خاص روح ہے اور اسے ہم پارلیمانی جمہوری آئین کہتے ہیں۔پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ اس کے تین ستون ہیں۔ یہ ہمارے آئین کی خوبصورتی ہے اور اس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔ تمام عدالتیں، سپیشل کورٹس، انتظامیہ کا کردار، پارلیمنٹ، سینٹ، صوبائی اسمبلیاں، گورنر اور تمام حکومتی مشینری کے حوالے سے آئین میں ہدایات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فوج کے اختیارات، ان کی تعیناتی اور فوج کس کے ماتحت کام کرے گی یہ سب آئین میں موجود ہے۔ ہمارے ہاں سول جج، مجسٹریٹ، ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور ٹربیونلز ہیں۔

لہٰذا ان میں ایسی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ فوجی عدالتیں قائم کی جائیں جنہیں ایسے عدالتی اختیارات حاصل ہوں جس طرح کے دیگر عدالتوں کے پاس ہیں۔ قتل کے مقدمات، اقدام قتل کے مقدمات اور دہشت گردی کے مقدمات توعدالتیں پہلے بھی سنتی ہیں۔ دہشت گردی ایکٹ کے مطابق عدالتیں کام کررہی ہیں اور پھر یہ پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کے مطابق بھی صوبوں میں عدالتیں قائم ہوگئی ہیں اور ان عدالتوں میں یقینا ملکی سلامتی کے مخالف کام کرنے والوں کے مقدمات جائیں گے لہٰذاجب تمام عدالتیں موجود ہیں تو فوجی عدالتوں کو قائم کرنا اوراسمبلی میں ترمیم منظور کروانا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔

پہلے آئین میں اس کی گنجائش نہیں تھی مگر اب پیدا کی گئی ہے ۔ ہماری وکلاء برادری نے اصولی طور پر فوجی عدالتوں کو اور سپیشل عدالتوں کو جس طرح نواز شریف نے بنائی تھیں اور اسی سے ہی انہیں سزا ہوئی، کبھی تسلیم نہیں کیا۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی ابھی باقی ہے ، ہماری توقع ہے کہ اس میں کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو آئین کے متصادم ہو۔ اگر ایسا ہوگا تو ہمارے پاس یہ حق ہے کہ ہم اس کو عدالت میں چیلنج کریں اور عدالتیں بھی اس پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک جمہوری معاشرے میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں ہے اور اب دنیا بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھے گی۔ بہتر یہ ہوتا کہ موجودہ قوانین میں تبدیلی لا کر، اس مرحلے کو بہتر بنا دیا جاتا تو دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔اگر یہ قوانین بہتر کردیے جاتے تو موجودہ قوانین اور موجودہ عدالتی نظام کے ذریعے بھی دہشت گردوں کو سزا دی جاسکتی تھی اور اگر موجودہ عدالتی نظام کے اندر سزائیں ملتی تو کل کو کوئی انگلی بھی نہ اٹھا سکتا۔ اب پارلیمنٹ نے اس کو ایک آئینی کور دے دیا ہے،اسے آئین کے دائرے میں لے آئی ہے تو اب ہم اسے بادل نخواستہ تسلیم کریں گے کیونکہ ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام سے یہ پہلو ضرور نکلتا ہے کہ کیا موجودہ عدالتی نظام مکمل طور پر ناکارہ ہوگیا؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس کی بھی اصلاح کرنا ہوگی تاکہ آئندہ ایسی عدالتوں کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے سے لوگوں کے تحفظات دور کیے جائیں اور یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی، ان عدالتوں کوسیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور اس کے علاوہ اب حکومت کو دہشت گردی کی وضاحت بھی کرنی چاہیے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے اور لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ سب نے یہ سمجھتے ہوئے اس فیصلے کو تسلیم کیا ہے کہ اب اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے لہٰذا بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اورہمیں یقین ہے کہ ان عدالتوں میں کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ مجرموں کے لیے ایک اپیل کا حق ضرور دینا چاہیے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم نے پورے طریقے سے انصاف کیا ہے۔

میرے نزدیک ڈیٹرنس کے طور پریہ عدالتیں قائم کی جارہی ہیں، جو خودکش حملہ آور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آتا ہے اسے ان عدالتوں کا کیا خوف، وہ تو پہلے ہی گھر سے مرنے نکلا ہے۔ لیکن یہ ایک ڈیٹرینس ہے، جو لوگ اس میں کم ملوث ہیں وہ رک جائیں گے اور اس میں بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ لوگوں کو فوری انصاف ملے گا۔

یہ عدالتیں بنانے میں ہماری حکومتوں کا کردار بھی ہے کیونکہ عدالتی حکم کے باوجودسات سال سے کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی،لہٰذا جب اس طرح سے عدالتوں کا مذاق اڑایا جائے گا تو مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ میرے نزدیک قانون سازی میں بھی تبدیلی کرنی چاہیے، جیل میں ٹرائل ہونا چاہیے، شہادت کے قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ اقبال جرم اگر پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے سامنے بھی ہو تو اسے تسلیم کیا جائے۔ اب چونکہ عدالتیں مخصوص بنی ہیں تو ان قوانین کو بھی ان حالات میں کچھ عرصے کے لیے مخصوص کردینا چاہیے۔

ان عدالتوں کو پوری قوم نے تسلیم کرلیا ہے، اسے آئینی شکل بھی دے دی گئی ہے تو اب یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ ان عدالتوں کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ عدالتیں ہمارے موقف کے خلاف بنی ہیں لیکن پارلیمنٹ اور سینٹ نے اسے آئین کاحصہ بنا دیا ہے لہٰذا اب اسے غیر آئینی کہنا غلط ہوگا، اب سب کو اسے قبول کرنا پڑے گا تاہم سب کے تحفظات ضرور دور کیے جانے چاہئیں۔

بریگیڈیئر(ر) محمد یوسف (عسکری تجزیہ نگار)

اگر ہماری نیت صاف ہو اور ہمارے حکمران اور باقی ادارے بھی نیک نیتی کے ساتھ اللہ کو حاضر ناظر جان کر امن و امان قائم کرنے کی کوشش کریں تو ہم دہشت گردی سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کی ضرورت فوری انصاف ہے ،صرف اسی صورت میں ہی ملک سے بدامنی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہی ایک واحد طریقہ ہے جسے ساری دنیا نے اپنایا ۔ کسی مجرم کو جب یہ معلوم ہوگا کہ جرم کرنے پر اسے فوری سزا ہوگی تو وہ جرم کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اس طرح امن قائم ہوجائے گا۔

سنگاپور کی مثال لیں تو وہاں تین دہائیوں سے بھی زیادہ مدت سے امن و امان کی صورتحال خراب تھی۔ وہاں کے سربراہ مسٹر لی نے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کو ختم کرنے کے لیے اپنی فوج کو فری ہینڈ دیا اور ان کی فوج نے امن و امان کی حالت بہتر کردی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جب دہشت گرد ریاست کو کمزور سمجھنا شروع کردیں گے تو ریاست کس طرح سے قائم رہ سکتی ہے ۔ اس وقت فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں، حکمرانوں کو فوج پر اعتماد ہونا چاہیے کیونکہ یہ فوج اسی ملک کی ہے اور آرمی چیف کو بھی یہ احساس ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ دی جائے۔

میرے نزدیک فوجی عدالتوں سے ملک مضبوط ہوگا اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے عام آدمی کے مسائل پر توجہ نہیں دی، سب نے اس ملک کو برباد کیا اور اپنے اپنے طریقے سے ادارے تباہ کیے۔ ہماری پولیس اور عدلیہ بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ میرے نزدیک اس وقت پاکستان فوج ایک واحد ادارہ ہے جو ان اندھیروں میں روشنی کی امید ہے لیکن ہمارے حکمران اس ادارے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ایک کافر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا ہمیں ملکی سلامتی کے لیے انصاف کی فراہمی کویقینی بنانا ہوگا۔ بچپن سے ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک نازک موڑپر کھڑا ہے لیکن میرے نزدیک اس وقت پاکستان نازک پر موڑ نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، اگر ہم مسائل حل کر لیں گے تو واپس خوشحالی کے سفر پر چل نکلیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا دشمن ہمیں برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اور بارڈر پر بھارت کی اشتعال انگیزی اس کی مثال ہے۔

میری خواہش ہے کہ سب سیاستدان اپنی ذاتی انا چھوڑ کر ملک کے لیے سوچیں اور مل بیٹھ کر ملکی سلامتی کے لیے اقدامات کریں کیونکہ اس میں ہی ہماری بقاء ہے ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ملک ہوگا تو سب کچھ ہوگا اور یہ ادارے بھی ہوں گے۔ اس وقت ہمارے پاک فوج کے جوان ملک کی حفاظت کے لیے دن رات اپنی قیمتی جانیں قربان کررہے ہیں، ہمیں ان کی قربانیوں کا احساس کرنا چاہیے اور اس ادارے پر اعتماد کرنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف ایک دیانتدار، باکردار اور اچھی سوچ کے حامل انسان ہیں۔

میرے نزدیک یہ اللہ کی طرف سے فوج اور اس ملک کیلئے انعام ہے کہ وہ پاک آرمی کے چیف ہیں۔ اس وقت وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہیں، باقی لوگوں کو بھی چاہیے کہ اپنی انا چھوڑیں اور ملکی سلامتی کے لیے متحد ہوجائیں اور نیک نیتی سے فوج کا ساتھ دیں ۔ اس وقت پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے لہٰذا اب ایک ہی راستہ ہے کہ سب مل کر اس ملک کو دہشت گردی سے چھٹکارہ دلوائیں ورنہ ہمارے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان ملک کے ساتھ ہمدردی نہیں کررہے کیونکہ اگر مولانا اس ملک کے ہمدرد ہوتے تو وہ اس جنگ میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے کیونکہ طالبان اور بہت سے لوگ ان کے شاگرد ہیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ میں اور نواز شریف سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ اس کے علاوہ رضاربانی کو جمہوری حکومتوں میں کرپشن نظر نہیں آتی، گزشتہ سات سالوں سے ایک بھی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی، عام آدمی کا مسئلہ جمہوریت نہیں بلکہ بے روزگاری اور غربت ہے۔ ان لوگوںکواحتساب سے ڈر لگتا ہے، قوم ان کے احتساب کا تقاضا کرتی ہے اور میرے نزدیک کرپٹ حکمرانوں کا احتساب صرف فوج ہی کرسکتی ہے۔

جنرل(ر) پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں ملک کو برباد کردیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ ان سیاسی جماعتوں سے الگ رہ کر کرپٹ لوگوں کا احتساب کرتے اور اس ملک کو کرپشن سے پاک کرتے اور پھر قوم انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھتی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب فوجی حکمران آتے ہیں تو انہیں جمہوریت کا شوق ہوتا ہے اور جب جمہوری حکومت آتی ہے تو وہ اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس وقت اگر ہمیں اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں پولیس کو بہتر بنانا ہوگا اور اس محکمے کو سہولیات دینا ہوگی۔ تمام تھانے اپنے اپنے علاقے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں 20کروڑ عوام کی انٹیلی جنس نہیں کرسکتیں۔ اس کے علاوہ ہمارے وکلاء کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کریں ،کسی مجرم کا ساتھ مت دیں اور اسے بچانے کی کوشش نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔