بنگلہ دیش کو ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے

کلدیپ نائر  جمعرات 8 جنوری 2015

ڈھاکہ میں چند روز قبل تشدد کے واقعات کا رونما ہونا قابل فہم ہے کیونکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء نے شہر بند کرنے کی ایک کال دے رکھی تھی ‘یہ ان کا گزشتہ برس 5 جنوری کو ہونے والے انتخابات کے خلاف احتجاج تھا جس میں شیخ حسینہ نے ایک ووٹ بھی کاسٹ ہونے سے پہلے ہی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ لیکن اس کی زیادہ ذمے داری خود بیگم خالدہ ضیا پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے پولنگ کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ان کو شک تھا کہ انتخابات جعلی ہونگے لہذا حصہ لینا فضول ہے۔

لیکن بیگم خالدہ ضیاء کا خیال درست نہ نکلا کیونکہ ان کے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات منعقد ہوئے اور وسیع تناظر میں یہ آزاد اور منصفانہ تھے۔ جنرل ارشاد کی جاتیہ پارٹی نے انتخاب لڑا اور اس کے چند ارکان پارلیمنٹ میں پہنچ گئے جو آج پارلیمنٹ میں حکومت کی بڑی اپوزیشن ہے۔ اور یہ کہنا کہ شیخ حسینہ بہت خود سر ہیں کوئی نئی بات نہیں لیکن بیگم خالدہ ضیاء نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے شیخ حسینہ کے جبر و استبداد کو قانونی شکل دلوا دی ہے۔

شیخ حسینہ کی حکومت فرد واحد کی حکمرانی ہے حتٰی کہ عدلیہ بھی کوئی ایسا فیصلہ سنانے سے گریز کرتی ہے جس سے موصوفہ کی ناراضی کا اندیشہ ہو۔ اور جہاں تک افسر شاہی کا تعلق ہے تو وہ محض ربڑ کی مہر بن چکے ہیں یعنی جہاں چاہو ٹھپہ لگوا دو۔اب بیگم خالدہ ضیاء نے الزام لگایا ہے کہ انھیں ساری رات پارٹی آفس میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو۔ پولیس نے خود اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے سیکیورٹی بڑھا دی تھی اور بیگم خالدہ ضیا کو ان کے گھر لے جانا چاہتے لیکن بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے وہ کہیں اور جانا چاہتی ہوں تا کہ اپنے الیکشن بائیکاٹ کی پہلی سالگرہ پر دی جانے والی احتجاج کی کال پر عمل درآمد کرا سکیں۔ بنگلہ دیش نے ہزاروں لوگوں کا خون دیکر آزادی حاصل کی ہے اور اب تک اس ملک کو پُر امن ہو جانا چاہیے تھا۔

لیکن جیسا کہ آزاد کرائے جانے والے دوسرے ممالک میں بھی ہوا ہے کہ فریڈم فائٹر خود آپس میں لڑائی شروع کر دیتے ہیں تا کہ اپنی بالادستی منوا سکیں۔ اس اعتبار سے بنگلہ دیش بھی کوئی مختلف ملک نہیں۔جو بات زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے حالانکہ آزادی کی جدوجہد کرنیوالوں اور جمہوریت کے محافظوں کو قیام بنگلہ دیش کے موقع پر جو وراثت ملی تھی اسے رائیگاں کر دیا گیا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے وہ زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے حصول میں وہ کسی رکاوٹ کو قبول نہیں کرتے۔ بنگلہ دیش بھی ایسی ہی کیفیات کا شکار ہے۔

ایک مرتبہ فوج نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور اس پر حکمرانی کرنے کی کوشش کی لیکن فوج نے دیکھ لیا کہ بنگلہ دیشی عوام اپنے اوپر خود حکومت کرنا پسند کرتے ہیں خواہ اس میں انھیں کتنی ہی مشکل کا سامنا کیوں نہ ہو اور وہ کتنی ہی غلطیاں کیوں نہ کریں۔ لہٰذا فوج اپنی انگلیاں دوبارہ جلانا نہیں چاہتی۔ دونوں بیگمات‘ شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء مسلسل لڑے جا رہی ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے ان کی اس لڑائی کی وجہ سے ملک کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ بہر حال عوام نے یہ سیکھ لیا ہے کہ دونوں بیگمات کی طرف سے ہڑتال یا پہیہ جام کی کال کو نظرانداز کر دیا جائے تا کہ روز مرہ کی زندگی متاثر نہ ہو۔ یہاں یہ امر قابل ستائش ہے کہ بنگلہ دیش کی شرح نمو گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل %6 سالانہ پر مستحکم ہے۔

البتہ پرامن طور پر حکمرانی کا طریقہ کیا ہے؟ نئی دہلی حکومت جس نے بنگلہ دیش کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دی وہ اب بھی ایک کردار ادا کر سکتی ہے لیکن وہ شیخ حسینہ کی حمایت کر رہی ہے کیونکہ اس خاتون کو سیکولر سمجھا جاتا ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء نے جماعت اسلامی کے ساتھ الحاق کر کے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے کیونکہ جماعت کو بنیاد پرست سمجھا جاتا ہے جس نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی اور پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اسلام آباد اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کا انحصار جن انتہا پسند عناصر پر ہے ان کی اب بنگلہ دیش میں کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بنگلہ دیش ایک سیکولر جمہوری ریاست ہے۔

اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ جس نے کہ پاکستان بنایا اس کی بنیاد مشرقی بنگال میں ہی رکھی گئی تھی جو بعد ازاں مشرقی پاکستان کہلایا۔ کیونکہ رہنا اس علاقے کی خاصیت تھی۔ آج بھی یہاں لوگ بڑی بھاری تعداد میں مذہبی بن رہے ہیں لیکن عملاً آزاد خیال (لبرل) ہی ہیں۔ تقریباً دس لاکھ ہندو ابھی تک وہاں رہتے ہیں اور اپنی  مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جس میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی۔پاکستان اگرچہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے لیکن ماضی کی تلخ یادیں اب بھی موجود ہیں۔تحریک آزادی کے دوران بنگلہ دیش کے چنیدہ نوجوانوں کا صفایا کر دیا گیا تھا۔

گیری جی باس کی کتاب The Blood Telegram—India’s Secret War in East Pakistan,(خون آلود ٹیلی گرام… مشرقی پاکستان میں بھارت کی خفیہ جنگ) میں ان واقعات کی تصدیق موجود ہے لیکن اس کتاب میں جو انکشاف کیا گیا ہے وہ دراصل بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کے بارے میں غلط خبریں ہیں جن کی امریکی سفارت خانے کے اسٹاف نے تصدیق نہیں کی۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات کی رپورٹنگ میں حد سے زیادہ جانبداری سے کام لیا گیا تھا۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہوا کیونکہ اس کا تقریباً تمام تر انحصار غیر ملکی امداد پر ہے۔ امریکا کی زیر نگرانی ایک کنسورشیئم قائم ہے جو ڈھاکہ میں زرمبادلہ کا کام کرتا ہے اور بنگلہ دیش کے ’ٹکہ‘ (روپیہ) کو بھاری تعداد میں غیرملکی کرنسی میں تبدیل کرتا ہے۔ جب تک بنگلہ دیش کے لیڈر اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے تو ان کا انحصار غیر ملکی امداد پر ہی رہے گا اور بیرونی طاقتیں بھی ظاہر ہے کہ اپنی قیمت وصول کرتی رہیں گی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔