حسرت… ہم تم کو نہیں بھولے

انتظار حسین  جمعرات 8 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

مجید لاہوری کا ایک بیان ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں

’’ان کی آواز جلالی ہے۔ بات کرتے ہیں وہ یوں گرجتے ہیں کہ ہر سننے والا پکار اٹھتا ہے کہ یہ آزاد کشمیر ریڈیو کی آواز ہے۔ ان کی مونچھیں اگرچہ سردار عبدالرب نشتر کی طرح سروقد نہیں ہیں مگر ایسی ضرور ہیں کہ ان کے نیچے یہ کہہ کر بیٹھ جائے کہ یہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے۔ قد کاٹھ کے اعتبار سے شاعر کم مگر فیلڈ مارشل زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کمیونسٹ ہیں جن میں ہر وقت سرخ سویرا جھلکتا ہے اور شام کے وقت تو ان کی آنکھوں میں رنگ شفق بھی شامل ہو جاتا ہے‘‘۔

یہ نقشہ ہے مولانا چراغ حسن حسرت کا۔ ان کا ذکر کسی تقریب سے بس ایک کتاب کی تقریب سے جو مرتب کی ہے راشد اشرف نے اور اسے شائع کیا ہے بزم تخلیق ادب پاکستان‘ کراچی نے اس عنوان کے ساتھ۔

چراغ حسن حسرت… ہم تم کو نہیں بھولے
لیجیے ہمیں اس پر حسرت صاحب کے لکھے ہوئے ایک گیت کے بول یاد آ گئے۔
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے

کتاب کو مرتب کیا ہے راشد اشرف نے تو اس کتاب میں حسرت صاحب کو یاد کیا گیا ہے اس رنگ سے کہ جس جس نے جب کبھی ان کے متعلق کچھ لکھا اسے راشد اشرف نے اچک لیا اور اس یاد نامہ میں شامل کر لیا اور لکھنے والے کون کون ہیں۔ مولانا عبدالمجید سالک‘ پطرس بخاری‘ مولانا صلاح الدین احمد‘ شاہد احمد دہلوی‘ فیض‘ حکیم محمد حسن قرشی‘ کرشن چندر‘ صوفی تبسم‘ منٹو‘ حاجی لق لق‘ مولانا ظفر علی خاں۔ نام کہاں تک گنائیں ایسی شخصیتوں نے ان کے بارے میں اپنے اپنے حساب سے لکھا ہے۔ پڑھتے چلے جائیے۔ گزرا زمانہ آنکھوں میں پھر جائے گا۔ وہ زمانہ جب مولانا چراغ حسن حسرت میدان صحافت میں اپنے جوہر دکھا رہے تھے اور اپنے کالموں میں گل پھول کھلا رہے تھے۔

مولانا ظفر علی خاں کا نام آیا ہے تو ان کی یہ رائے سن لیجیے ’’جن عزیزوں کی رفاقت زمیندار کو سینائے شہرت تک لے گئی ان میں چراغ حسن حسرت سرفہرست ہیں۔ تمام ملک میں صحیح اردو نویسی کا مذاق قریب قریب ناپید ہے لیکن حسرت ان چند لکھنے والوں میں سے ایک ہیں جن کے قلم کی قیمت فخر و ناز کی پونجھی ہے‘‘۔

اب فیض صاحب کی سنو پہلے وہ فوج میں بھرتی ہوئے۔ پھر حسرت صاحب کو بھی انھوں نے یہ راہ دکھائی۔ ان کا انٹرویو ہوا۔ انگریز بریگیڈ کچھ غیر مطمئن تھا۔ اس نے فیض صاحب سے ان کے بارے میں استفسار کیا۔ فیض صاحب نے اسے یوں سمجھایا کہ ’’بس یوں سمجھ لو جیسے تم لندن ٹائمز کے ایڈیٹر سے ملے ہو۔ اردو جرنلزم میں مولانا کا یہی درجہ ہے۔ بریگیڈئیر کبھی ہمیں دیکھتا تھا اور کبھی دور افق میں لنڈن ٹائمز کے ایڈیٹر کو جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہنے لگا‘ ویل فیض تم کہتا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہتا ہو گا۔ ہم مولانا کو بھرتی کیے لیتے ہیں۔‘‘… مگر مولانا کا فوج میں جی ہی نہیں لگتا تھا‘‘۔ بالآخر وہاں سے سفارشوں کے ساتھ نکل آئے۔

پھر واپس لاہور میں۔ اور اب فیض صاحب پاکستان ٹائمز کے چیف آیڈیٹر تھے۔ اردو اخبار نکالنے کا منصوبہ بنا تو انھیں آیڈیٹر بنا کر یہاں لے آئے۔

پوچھا کہ ’’مولانا آپ کو بہت پسند تھے۔ جواب میں کہا کہ پسند وسند کی بات کم تھی۔ درحقیقت مولانا کا رتبہ علم و ادب اور صحافت میں بہت بلند ہے۔ اسی لیے ہم ان کی قدر کرتے تھے۔ امروز کو جس ٹھاٹھہ سے انھوں نے نکالا اور سنبھالا وہ ایک یاد گار کارنامہ ہے‘‘۔ پھر ٹکڑا لگایا ’’اردو صحافت میں صرف مولانا ظفر علی خاں ان سے ذرا آگے تھے۔ ورنہ آج تک اس میدان میں ان کا ہم پلہ برصغیر میں پیدا نہیں ہوا‘‘۔

صحیح کہا۔ امروز والے زمانے کے تو ہم عینی شاہد ہیں۔ اردو صحافت کی تاریخ میں اسے پہلا معیاری اخبار کہنا چاہیے۔ ان کی ادارت میں اس اخبار کا طلوع اپنی جگہ ایک صحافتی انقلاب تھا۔ اس طلوع کا فیض تھا کہ اردو صحافت زمیندار اور پرتاپ والے دور سے نکل آئی۔ سمجھ لیجیے کہ اردو اخبار بھی اب سنجیدہ صحافت کے دور میں داخل ہو گیا۔ پڑھا لکھا قاری اب انگریزی اخبار کا محتاج نہیں رہا۔ اب اردو اخبار کا بھی اعتبار قائم ہوا۔ انگریزی اخبار کی محتاجی ختم۔ اس کی ذہنی ضروریات کو ’امروز‘ خوش اسلوبی سے پوری کرتا نظر آتا تھا۔ اور جو شخص ایڈیٹر کی کرسی پر رونق افروز تھا وہ خالی صحافی تو نہیں تھا۔ وہ علمی ادبی روایت میں بھی ہیرا تھا۔ زبانداں ایسا کہ اچھے اچھے اہل زبان بھی یہاں آ کر سر خم کرتے نظر آتے تھے۔ کلاسیکی روایت میں رچے بسے تھے۔ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے ادیبوں سے کیا خوب نبٹتے تھے۔

’’مولانا‘ آپ نے طلسم ہوش ربا پڑھی ہے‘‘۔

’’نہیں مولانا۔ وہ تو نہیں پڑھی‘‘۔
’’پھر مولانا‘ آپ نے کیا پڑھا ہے‘‘۔

’امروز‘ کو ایسا اخبار بنایا کہ زبان و بیان کے لحاظ سے مستند مانا جاتا تھا۔ زبان کی کوئی غلطی کسی سے سرزد ہو جاتی تو اس کی شامت آ جاتی۔ یہ ایسی خطا تھی کہ اس پر سب آیڈیٹر معطل بھی ہو سکتا تھا۔ ہفتہ وار قسمت علمی و ادبی کی نگرانی خود کرتے تھے۔ شہر کے جانے مانے ادیبوں شاعروں کو دعوت اظہار دی جاتی تھی۔ بھرتی کا مال اس اشاعت میں مشکل ہی سے راہ پاتا تھا۔ نظم و نثر میں جو چھپتا تھا اس کا باقاعدگی سے معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ اور جو چھپتا تھا وہ یوں نہیں تھا کہ جس نے سرخ سویرا کا راگ گایا وہ لایق تحسین ٹھہرا اور امروز کے قسمت علمی و ادبی میں اس تحریر نے جگہ پائی۔ امروز بیشک لیفٹ کا اخبار تھا لیکن امروز کے ادبی اڈیشن ہی میں چھپنے کی اولین شرط یہ تھی کہ اسے ادب کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہیے۔ اور مولانا کیا ترقی پسند اور کیا رجعت پسند اور کیا جدیدیت پسند سب ہی سے بیزار تھے۔ پرانے دور کو یاد کرتے اور بڑبڑاتے حالی‘ شبلی‘ آزاد‘ مولانا ذکاء اللہ‘ مولوی چراغ علی‘ نصیر حسین خیال کیا لوگ تھے کہ گزر گئے۔ یہ آج کے ادیب‘ یہ کیا لکھ رہے ہیں۔

مولانا کے سامنے کون بولتا۔ سنتے اور چپ رہتے مگر منٹو صاحب چپ رہنے والی شے نہیں ہے۔ ایک محفل میں جس کا ذکر اپنے مضمون میں احمد ندیم قاسمی نے کیا ہے منٹو صاحب پھٹ پڑے ’مولانا‘ آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر کوئی ایسا کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد سے فسانہ آزاد کے تمام محاورے اور روز مرہ آپ کے دماغ سے نچوڑ لوں تو پتہ ہے کیا ہو گا۔ آپ ایک سیدھے سادھے تو ہاتو بن کر رہ جائیں گے۔

جواب میں مولانا گرجے ’برخوردار‘اگریہی کیمیاوی عمل میرے ہاتھ لگ جائے جس کی مدد میں تمہارے اندر سے سومرسٹ ماہم کی سب کہانیوں کے چربے نکالوں تو پتہ ہے کیا ہو گا۔ تم سیدھے علی گڑھ جاؤ گے اور سکنڈ ایئر میں داخلہ لے لو گے‘‘۔

بس محفل زعفران زار بن گئی۔ اور منٹو صاحب بیساختہ اٹھے اور مولانا کے سینے سے لپٹ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔