معاشی ترقی کے لیے وسائل

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 8 جنوری 2015
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے وسائل کی شدید ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی ملک وسائل کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اس حقیقت کے پس منظر میں وزیر اعظم کا ارشاد سو فیصد درست ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسائل کیسے پیدا کیے جائیں؟ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ عوام پر بھاری ٹیکس لگا ئے جائیں، لیکن عوام پہلے ہی ٹیکسوں تلے دبے ہوئے ہیں۔

وسائل کے حصول کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیا جائے، لیکن مشکل یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کڑی شرائط اور بھاری سود کے بغیر قرض نہیں دیتے اگر قرض لیا گیا تو ہر حال میں ان کی شرائط پوری کرنا پڑتی ہیں۔ شرائط پوری کی جاتی ہیں تو عوام کی گردنوں پر موجود کسا ہوا پھندا اور کس جاتا ہے۔ ابھی وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تھی اگرچہ یہ قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہونے والی تیل کی قیمتوں سے کم تھیں لیکن قیمتوں میں یہ معمولی کمی بھی غالباً عالمی مالیاتی اداروں اور ملکی سرمایہ داروں کو پسند نہ تھی سو  وزیر اعظم کو پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا کر قیمتوں میں کمی کے فراخدلانہ اقدام کا ازالہ کرنا پڑا۔

کیا ہم عوام پر ٹیکسوں میں اضافے یا عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل سے ہی ملکی معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے جن اقدامات کی ضرورت ہے کیا ہم ایسے اقدامات کر سکتے ہیں؟ مثلاً قومی بجٹ سے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے لیے اربوں روپے مختص کرتے ہیں، کیا یہ اربوں روپے واقعی ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے جاتے ہیں؟ عام تاثر یہ ہے کہ قومی بجٹ اور غیر ملکی قرضوں سے جو اربوں روپوں کے وسائل حاصل کیے جاتے ہیں اس کا بڑا حصہ حکمران ایلیٹ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے ۔

ہمارا حکمران طبقہ ترقی کے حوالے سے ملائشیا، انڈونیشیا، ترکی وغیرہ کی مثالیں دیتا ہے لیکن یہ سمجھنے یا سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ان ملکوں میں پاکستان کے مقابلے میں کرپشن کی کیا صورتحال ہے اور ترقیاتی کام کس منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ معیشت رائج ہے ان ملکوں میں کرپشن اقتدار کا ایک ناگزیر حصہ بنی ہوئی ہے لیکن کرپشن کی بھی ایک حد ہوتی ہے ہمارے یہاں اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ بڑی بڑی سڑکیں، بڑے بڑے پروجیکٹ پیپر تو بن جاتے ہیں اور ان پیپر پروجیکٹس کے لیے منظور کی جانے والی اربوں کی رقم بھی خرچ ہو جاتی ہے لیکن کوئی سڑک، کوئی پروجیکٹ زمین پر نظر نہیں آتا۔

وزیر اعظم جس خلوص سے ملکی ترقی اور معیشت کے استحکام کے لیے فکرمند ہیں اس کے لیے قوم شکر گزار ہے لیکن مسئلہ وسائل یعنی دولت کی فراہمی کا ہے۔ سو اس حوالے سے ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت پر بھروسہ کیا جائے اور اسے ان مہاپرشوں کی تحویل سے نکالا جائے جو اس کھربوں کی قومی دولت پر ناجائز قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری قومی دولت سے 200 ارب ڈالر باہر کے ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

ہمارے محترم حکمران کہتے رہتے ہیں کہ باہر کے ملکوں میں رکھے 200 ارب ڈالر ہم واپس لائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے عشروں سے باہر کے ملکوں میں رکھی یہ بھاری رقم اب تک واپس نہیں لائی جا سکی۔ یہ رقم کن لوگوں کے قبضے میں ہے۔ کیا یہ قابض لوگ حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں کہ حکومت ان کی حلق میں ہاتھ ڈال کر یہ بھاری قومی دولت واپس نہیں لا سکتی؟

اسی طرح دو کھرب سے زیادہ رقم ملک کے نامور شرفا نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لی لیکن یہ قرض واپس کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ کوئی رومانی داستان ہے نہ مفروضہ یہ ایک ایسی شرمناک حقیقت ہے جو برسوں سے ہماری عدلیہ کی میزوں پر واپسی کی منتظر پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم کیا بینکوں سے لے کر ہڑپ کیے جانے والے دو کھرب کے قرضوں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے قرض دینے والے ادارے غریب لوگوں کو ایک دو لاکھ روپے قرض دیتے ہیں تو گلے میں رسی ڈال کر اس سے تین گنا زیادہ رقم وصول کر لیتے ہیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کاروں کی خریداری کے لیے ہمارے معزز بینکوں نے قرضہ اسکیم شروع کی تھی۔ کار کی خریداری کے لیے مڈل کلاس کے لوگوں نے بینکوں سے قرض لیے اور ادا بھی کرتے رہے لیکن جو لوگ قرض کی قسطیں بروقت ادا نہیں کر پائے ان سے قرض کی وصولی کے لیے بینکوں نے باضابطہ ایک  فورس تیار کی جو ان مڈل کلاس کے چھوٹے چھوٹے قرض بروقت یا پابندی کے ساتھ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان شریف لوگوں کے گھروں پر جا کر انھیں ذلیل کرتی تھی اور گاڑیاں اٹھا کر لے جاتی تھی یہ قرضے دو چار لاکھ پر مشتمل ہوتے تھے جس کا بڑا حصہ قرضہ لینے والے ادا بھی کر دیتے تھے لیکن مکمل ادائیگی یا قسطوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کے جرم میں بینک ریکوری فورس کو شرفا کے گھروں پر بھیجتی تھی۔ کیا دو کھرب کے قرض لے کر کھا جانے والوں سے قرض کی وصولی ممکن نہیں۔

کیا بینکوں کے پاس ایسی ریکوری فورس موجود نہیں جو ان نادہندگان سے قرض کی دو کھرب کی بھاری رقم واپس لے۔ہمارے سابق چیف جسٹس  نے قرض نادہندگان سے قرض کی ڈوبی ہوئی دو کھرب کی رقم وصول کرنے کے عزم کا بار بار اظہار کیا لیکن بدقسمتی سے یہ بھاری رقم اب تک وصول نہ ہو سکی۔ اگر یہ رقم وصول ہو جائے تو وزیر اعظم کی یہ شکایت دور ہو سکتی ہے کہ ہمیں وسائل کی شدید ضرورت ہے۔ کیا وزیر اعظم دو کھرب کی رقم واپس لینے کی طاقت نہیں رکھتے؟

ہمارے سیاسی شرفا پر اربوں روپوں کی کرپشن کے کئی کیسز عشروں سے  عدالتوں اور احتسابی اداروں کی میزوں پر پڑے ہوئے ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آتی۔ اگر کرپشن کے یہ کیسز غلط ہیں تو یہ کیسز عدالتوں میں لے جانے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے اگر درست ہیں تو پھر عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کرپشن کی ان بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ اگر کوئی پولیس کا ایک سپاہی یا کسی دفتر کا ایک بابو دو چار سو یا دو چار ہزار کی رشوت لیتا ہے تو قانون اور انصاف طوفان کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں اور میڈیا میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ قانون اور انصاف کی اس کارگزاری کی خبریں آ جاتی ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپوں کی کرپشن سے بریت کی خبریں اخبارات کے کسی کونے میں دو تین سطروں میں لگتی ہیں۔

وزیر اعظم کا یہ ارشاد سر آنکھوں پر کہ معیشت کی ترقی کے لیے وسائل کی شدید ضرورت ہے لیکن وسائل کیوں مہیا نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا وسائل کا غلط استعمال ہو رہا ہے عوام امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اس کا شافی جواب دیں گے۔ اگر بینک نادہندگان اور غیر ملکی بینکوں میں موجود عوام کا 200 ارب کا سرمایہ ہی وصول کر لیا جائے تو معیشت ترقی ہی نہیں کرے گی بلکہ اس قدر مستحکم ہو گی کہ کسی کو وسائل کی کمی کی شکایت نہیں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔