قائد ہم شرمندہ ہیں

 جمعرات 8 جنوری 2015

بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کر رہیں گے پاکستان… کا نعرہ سچ ثابت ہی نہیں ہوسکتا تھا اگر آزادی کی تحریک میں قائداعظم محمد علی جناح جیسا مستقل مزاج اور پختہ فیصلہ کرنیوالا عظیم لیڈر نہ ہوتاتو شاید پاکستان کا وجود میں آنا ناممکن ہوتا ۔قائداعظم محمد علی جناح جن کی شخصیت کے متعلق اندرا گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’اگر جناح جیسا ایک لیڈر بھی کانگریس میں ہوتا تو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجود نظر نہ آتا‘‘اس عظیم قائد نے اپنی بیماری کو چاہنے والوں سے پوشیدہ رکھا اور اپنوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کی تحریک میں تن ، من اور دھن کے ساتھ جُتے رہے۔

پروردگار نے قائداعظم اور تحریک آزادی میں شامل دیگر رہنماؤں کی محنت اور  20 لاکھ مسلمانوں کی قربانی کا صلہ 14 اگست 1947کو پاکستان کی صورت میں دیا۔ بدقسمتی سے مادر وطن کے وجود میں آئے ایک سال بعد ہی بانی ِپاکستان ہم سے جُدا ہوگئے ۔میں اکثر سوچتی ہوں اگر قائداعظم چند سال مزید زندہ رہ جاتے تو شایدوطن عزیز کی یہ حالت نہ ہوتی جس صورتحال سے ہم آج نبردآزماہیں ۔پاکستانی ہونے کے ناتے میں جب مملکت پاکستان کی خون ریزگلیاں دیکھتی ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے حصول کے لیے ہمارے آباؤ اجداد  نے قربانیاں پیش کی تھیں ؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے حصول کے لیے علی گڑھ کے نوجوانوں نے انتھک محنت کی تھی؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے حصول کے لیے ماؤں،بہنوں نے اپنے سہاگ ، اپنے بھائیوں اور اپنے گودوں کے پالوں کی جان کے نذرانے پیش کیے تھے۔

حد ہے اپنی چادریں تک وطن عزیر کی حرمت کے لیے پیش کردی تھیں ۔ یہ سوچتے ہی کرب کا احساس ہوتا ہے ۔خیال آتا ہے کیا ہمارے بزرگوں کی محنت رائیگاں چلی گئی ؟یقینا ہمارے بزرگوں نے تحریک آزادی میں حصہ لے کر وطن عزیز کا حصول ہماری زندگیوں کو سہل کرنے کے لیے کیا ہوگا ۔ملک کے دگرگوں حالات دیکھ کر میں بار بار اس نقطے پر سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کیا واقعی ہمارے بزرگوں نے تحریک آزادی کا حصہ بن کر غلط فیصلہ کیا تھا جس کا جواب میرا دل ہمیشہ نفی کی صورت میں دیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر کے مجھ شرمسار کرتا ہے۔ میرا دل مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے غلط وہ نہیں غلط تم ہو۔جس طرح تم لوگوں نے اپنے ماں باپ کی جانب سے دیے گئے تحفے کی ناقدری کی، نافرمان سے نافرمان اولاد بھی اس قسم کے اقدامات نہیں کرتی ۔تم لوگوں نے سبز ہلالی پرچم کو فراموش کرکے مختلف لسانی ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگی جھنڈوں کا انتخاب کیا۔

تم لوگوں نے پاکستانی قومیت کے نعرے کو بھلا کر لسانیات کے نعروں کو اپنایا۔تم لوگوں نے اپنے بزرگوں کے پسندیدہ لیڈر قائداعظم ، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان سمیت دیگر عظیم ناموں کو بھول کر مفاد پرست اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے راہ نماؤں کا انتخاب کیا۔تم لوگوں نے اُن کی تربیت کو اپنا شعار بنانے کی کوشش کی جنھیں خود تربیت کی اشد ضرورت ہے۔تم لوگوں نے اپنے ہی آباؤ اجداد کے ساتھ بے وفاکی۔ جس کی وجہ سے آج تم اپنی ہی گلیوں میں اجنبی ہوگئے ہوئے۔ میں نے ملک کے حالات ،حکمرانوں، سیاستدانوں سے لے کر دیگر شعبے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کا جائزہ لیا تو مجھے اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہوئی ۔مجھے محسوس ہوا پاکستان میں پھیلے chaos کی ذمے دار کہیں نہ کہیں میں بھی ہوں۔ہم جوق در جوق  لیڈروں کی آواز پر لبیک کہہ کر اُن کے جلسوں میں اپنی شرکت تو یقینی بناتے ہیں جو گزرے وقتوں میں اس ملک کے لیے ناپسندیدہ الفاظ کہہ چکے ہوتے ہیں،ہم قوم پرستوں ، مفاد پرستوں اور منافقوں کی رہبری میں رہنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں ہم بھول چکے ہیں۔

اُن عظیم شخصیات کو جن کی قربانیوں کے بعد ہمیں اپنا وطن ’پاکستان‘ ملا  قوم پرستوں اور لسانیات کا پرچار کرنیوالوں کی پیروی کرتے کرتے اپنے اپنی شناخت اپنی بولی کے ذریعے سے کراتے ہیں نہیں کہلواتے تو خود کو پاکستانی نہیں کہلواتے ۔ ہم اپنی کم عقلی کی بنیاد پر انتخابات کے مراحل میں اُن لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جن میں حکمران بننے کی ذرا سی بھی capability  نہیں ہوتیں ۔بارہا آزمانے کے باوجود بھی ہمارا نقطہ انتخاب وہ ہی ریس کے دوڑائے ہوئے ناکام گھوڑے ہوتے ہیں جو’ ملک و قوم کی خدمت ‘ جیسے الفاظ کا استعمال  کر کے میدان بدعنوانی کے فاتح ہوتے ہیں ۔جن کی ناقص پالیسوں کی بدولت ہم کبھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے ہیں یاکبھی کسی اور نوعیت کی دہشتگردی کا ، اُن آزمائے ہوئے حکمرانوں کی ناقص پالیسوں کی بدولت ہی اس جدید دور میں ہمارے بچے بھوک کی کیفیت میں بِلک بِلک کے اپنی ماؤں کی آغوش میں جان دیتے ہیں، اُن کی ناقص حکمت عملی کی بدولت وطن عزیز کا کوئی گوشہ بھی پُرامن نہیں حد ہے درسگاہوں تک میں درندہ صفت انسان گھس کر ننھے ننھے بچوں کو بربریت کا نشانہ بنا لیتے ہیں اور ہمارے حکمران آل پارٹی کانفرنس  میں مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔میں نے جب واصل جہنم ہوئے اُن دہشتگردوں کی تصاویر اور اپنے حکمران کا دوران کانفرنس کھکھلاتا چہرہ دیکھا توتصویر کے ان دو رخوں میں مجھے یکسانیت محسوس ہوئی ۔

بعد ازاں میں نے اُس عظیم شخص کے تصور کی جانب نگاہ کی جو بانی ِپاکستان ہے جنھوں نے اپنے کئی سال مملکت پاکستان کے حصول میں صرف کیے جو ہمیں علیحدہ وطن دلانا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے مجھے لگا اُن کی آنکھیں خون روتی ہوئی مجھے سے شکوہ کناں ہیں ۔ وہ نگاہیں مجھ  سے ہر لمحے میں ہوتے ہوئے خسارے کا حساب مانگ رہی ہیں وہ نگاہیں مجھ سے ان الفاظ میں سراپا سوال ہیں ’ تم نے میری محنت ، میری طوفان سے نکالی ہوئی کشتی کی کیسی ناخدائی کی ؟ تم نے ایک پل کے لیے بھی فرمانبردار اولاد ہونیکا حق ادا نہیں کیا؟ تم نے ہمیشہ شکوہ کیا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا کیا کبھی سوچا کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا۔ اس ملک کو انتہا پسندی کا شکار بنانے میں تم نے بھی (انجانے میں ہی سہی) رول پلے کیا ، تم نے اُن کو اپنا قائد تسلیم کیا جن کی جڑیں تمھارا ہی گلا کاٹنے والوں سے ملتی ہیں ۔ تم نے ایک لمحے کو بھی اپنی ذمے داری کو ادا نہیں کیا۔

حد یہ ہے کہ میرے اپنے دیس میں میری اپنی رہائش گاہ نذرآتش ہوگئی اور تم میرے ساتھ پیش آنیوالے اس پُرسوز واقعے پر ایک پل کے لیے بھی سراپا احتجاج نہ ہوئے ۔ تم لوگوں نے احسان فراموشی کی اپنے محسنوں سے بغاوت کی مجھے ہر پل درد دیا ۔ میں تم لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرونگا ۔ان الفاظ کا محسوس کرنا تھا مجھے لگا جیسے میرے جسم میں جان نہیں ہے مجھے محسوس ہوا جیسے میں یہ الفاظ کہتے ہوئے رو رہی ہوں۔’’قائدؒ ہم شرمندہ ہیں‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔