فواد عالم کو میوزیم میں ہی رکھ دیں

سلیم خالق  جمعـء 9 جنوری 2015
skhaliq@express.com.pk

[email protected]

قارئین جس طرح آپ یہ سرخی پڑھ کر حیران ہوئے میری بھی یہی حالت ہوئی جب ایک کرکٹ شائق نے مجھ سے کہا کہ ’’فواد عالم کو میوزیم میں ہی رکھ دیں‘‘۔ میں نے حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا تو وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’دیکھیں ناں چیئرمین پی سی بی شہریارخان نے فواد کو بہترین کرکٹر کہا، چیف سلیکٹر معین خان نے بھی پریس کانفرنس میں بہت اچھے کھلاڑی اور فائٹر کا لقب دیا، دونوں ہی انھیں ملک کا اثاثہ قرار دیتے ہیں مگر قومی ٹیم میں نہیں لیا جاتا، اب ایسے اثاثے کو تو محفوظ کر کے میوزیم میں ہی رکھ دینا چاہیے‘‘

میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا اور پھر سر جھکا کر آگے بڑھ گیا، اس شخص نے ہمارے سلیکشن کے طریقہ کار اور قول و فعل میں تضاد کو صرف ایک طنز میں بیان کردیا تھا، حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک میں ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اورد کھانے  کے اور‘‘ والی بات ہے،میڈیا پر کرکٹ حکام ایسا ظاہرکرتے ہیں جیسے ان سے سچا اور ملک سے مخلص شخص کوئی اور نہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

ورلڈکپ سلیکشن میں چیف سلیکٹر معین خان نے یہ دعویٰ کیا کہ ذاتی پسند یا ناپسند کو ترجیح نہیں دی گئی، چلیں ان کی حد تک یہ بات مان لیتے ہیں مگر کوچ وقار یونس نے کم از کم ایسا نہیں کیا، نجانے انھیں فواد عالم سے کیا عناد ہے کہ عہدہ سنبھالتے ہی ان کے پیچھے پڑ گئے تھے، نوجوان بیٹسمین صرف تین میچز میں ناکام رہے تو ان کی ایشیا کپ میں تمام تر کارکردگی بھلا دی گئی،حالانکہ ہمارے ملک میں تو ایک سنچری پر پلیئرز پورے سال کرکٹ کھیل جاتے ہیں۔

کپتان مصباح الحق بھی فواد کو پسند نہیں کرتے، جب سے چیئرمین نے انھیں مستقبل میں کپتانی کا امیدوار قرار دیا ٹیم سے ہی چھٹی ہوگئی، یہاں ڈومیسٹک کرکٹ کی بات ہوتی ہے، سلیکٹرز کئی روز نیشنل اسٹیڈیم کے پُرآسائش چیئرمین باکس میں بیٹھ کر پینٹنگولر کپ میچز سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر انھیں 3میچز میں 71 کی اوسط سے فواد کے 158رنز نظر نہیں آئے، سہیل خان نے قائد اعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ وکٹیں لیں مگر ورلڈکپ کے 30 پلیئرز میں شامل نہ کیا گیا، اب اچانک 15میں انٹری ہوگئی۔

اتنی بڑی غلطی پر سلیکشن کمیٹی سے بازپرس ہونی چاہیے کہ سہیل کا عمدہ کھیل پہلے کیوں نظر نہ آیا،وقار یونس خود اتنے بڑے بولر تھے کہ کوئی انھیں ڈراپ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا، اس لیے انھیں اس کرب کا اندازہ نہیں جس کا سامنا کسی اہل نوجوان کھلاڑی کو منتخب نہ ہونے پر کرنا پڑتا ہے، نجانے کیوں وہ ناکام کھلاڑیوں کی شمولیت کیلیے زور لگاتے رہتے ہیں،ناصر جمشید اور وہاب ریاض کیلیے اس باربھی سلیکشن میٹنگ میں انھوں نے خوب شور مچایا، پیسر کی حد تک تو وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہی ہوگئے۔

حالانکہ وہاب نے جاری پینٹنگولر کپ کے 2میچز میں 108رنز دے کر 3 وکٹیں لی ہیں،47 ون ڈے میچز میں وہ32 کی اوسط سے61کھلاڑیوں ہی آؤٹ کرسکے ہیں، امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے وہاب کا نجانے کون سا ٹیلنٹ ہے جو صرف کوچ اور سلیکٹرز کو ہی نظر آتا ہے، ہم تو ریکارڈز کی بات کرتے ہیں جس کے مطابق انھوں نے پاکستان کیلیے آخری 6ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں اتنی ہی وکٹیں تقریباً47کی ایوریج سے لی ہیں، اس سے قبل ایک میچ میں4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تو65رنز دے دیے اور سری لنکا نے 310کا مجموعہ پایا۔ دیکھتے ہیں اب وہ ورلڈکپ میں کیا کرتے ہیں۔

سلیکٹرز نے تین میچز میں اتنی ہی ففٹیز بنانے والے شعیب ملک کو سلیکٹ نہیں کیا یا یہ کہنا چاہیے کہ وہ خود ہی منتخب نہیں ہوئے، ورنہ جو کھلاڑی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنا چاہتا ہو اچانک سلیکٹرز کیخلاف لفظی جنگ شروع نہیں کرتا، ایسا لگتا ہے کہ شعیب کے ذہن میں کچھ اور ہی پلان ہیں، شاید وہ ورلڈکپ کے بعد بطور کپتان واپسی کے خواب دیکھ رہے ہیں، سلیکٹرز نے کامران اکمل کو ٹیم میں شامل نہ کر کے اچھا فیصلہ کیا مگر ساتھ ان کے بھائی عمر کو ناقص پرفارمنس کے باوجود منتخب بھی کر لیا، وہ ریزرو وکٹ کیپر بھی ہوں گے، انھیں چانس دے کر محمد رضوان کے ساتھ ناانصافی کی گئی، اگر ایسا ہوتا رہا تو نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں پسینے بہانے کا کیا فائدہ؟

پاکستانی اسکواڈ کے 9،10 پلیئرز تو آٹومیٹک چوائس ہیں، کوئی عام شائق بھی انھیں منتخب کرلے،5،6 پلیئرز کی سلیکشن کیلیے 6 سلیکٹرز نے اتنے دن لگا دیے، اوسط ایک سلیکٹر ایک پلیئر آیا، دلچسپ بات یہ ہے اس کیلیے انھیں لاکھوں روپے بھی ملے، ایک ایسا ملک جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم بی اے بھی بے روزگار ہیں وہاں کچھ نہ کرنے پر بعض لوگوں کو اتنی ادائیگی لمحہ فکریہ ہے،سابق کرکٹرز ہر جگہ ملک کی خدمت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، ایسے میں انھیں سال میں 4،5بار تو ٹیمیں چننی ہوں گی لہذا اعزازی طور پر کام کرنا چاہیے، موجودہ سلیکٹرز میں سے بھی کوئی بے روزگار نہیں، سب کسی نہ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، اپنا بزنس بھی ہے اور کرکٹ سے بھاری رقم بھی کما چکے، اب ملک کو کچھ لوٹانے کا وقت ہے، تنخواہ دار سلیکٹرز کا تجربہ پاکستان جیسے غریب ملک میں کام نہیں کر سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔