ڈیڈلاک کا شکار امریکا!

رضا ہاشمی  جمعـء 9 جنوری 2015
امریکا میں طاقت کا توازن بگڑچکا ۔۔۔۔ جس کے پاس اکثریت ہے وہ اپوزیشن میں اور جو اقلیت میں ہے وہ حکومت کے مزے لے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اوبامہ اب کتنے فعال رہیں گے؟ کیا اِس طرح امریکی نظام ڈیڈلاک کا شکار نہیں ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر ملک کا نظام کیسے چل پائے گا؟ فوٹو: فائل

امریکا میں طاقت کا توازن بگڑچکا ۔۔۔۔ جس کے پاس اکثریت ہے وہ اپوزیشن میں اور جو اقلیت میں ہے وہ حکومت کے مزے لے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اوبامہ اب کتنے فعال رہیں گے؟ کیا اِس طرح امریکی نظام ڈیڈلاک کا شکار نہیں ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر ملک کا نظام کیسے چل پائے گا؟ فوٹو: فائل

امریکہ میں ایک اہم ڈیویلپمنٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق امریکی اپوزیشن جماعت ریپبلیکنز نے کانگریس کے دونوں ایوانوں یعنی سینٹ اور ایوان نمائیندگان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔

وسط مدتی انتخاب کے بعد ریپبلکنز نےکانگریس میں واضح اکثریت حاصل کی ہے اور اب سینت کے کُل 435 ارکان میں سے 246 ریپبلکنز کے پاس ہیں جب کہ سینٹ میں انکی تعداد 100 میں سے 55 ہے۔ اب جبکہ طاقت کا توازن تبدیل ہوا ہے اور اوبامہ انتظامیہ کا کچھ بڑے معاملات پر ریپبلکنز کے ساتھ تنازعہ موجود ہے۔ اس صورتحال پرنئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے کہ اس سیٹ اپ میں صدر اوبامہ جو کہ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ کتنے فعال ہوں گے؟ سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آیا امریکی قانون سازوں اور انتظامیہ کے درمیان اب ڈیڈلاک پیدا نہیں ہوگا؟ اور اگر ہوگا تو پھر ملک کا نظام کیسے چل پائے گا؟ کیونکہ ریپبلکنز سینیٹ  کے قائد، مچ میکونل اوبامہ انتظامیہ کو مشکل میں ڈالنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اور یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا صدر اوبامہ کے پاس کوئی ایسا راستہ ہے کہ جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے اقتدار کے بقیہ سال ایک مفلوج صدر کے طور پر نہ گزاریں؟

اس پورے معاملے پر تجزیہ نگاروں کی مختلف رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اوبامہ کے بازو کٹ چکے ہیں اوراب انکے بیشتر فیصلے ریپبلکنز کے دباؤ میں ہوں گے اور شائد اب وہ سب کچھ نہ کرسکیں جس کے منصوبے انہوں نے بنا رکھے تھے۔ مگر میرے خیال میں صحیح اندازے کے لیئے اس صورتحال کی مکمل تصویر دیکھنا لازمی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ باراک اوبامہ کا دورِ اقتدار کے دو سال باقی ہیں ۔ ان دو سالوں کو ریپبلکنز جن کو کانگریس میں برتری حاصل ہے وہ انکے کے لیئے مشکل ترین بنانے کے لیئے تلے رہیں گے۔  اوبامہ ہیلتھ کئیر، اوبامہ امیگریشن ریفارمز اور اس وقت اسٹون آئل پائپ لائن کو منظور نہ کرنے  پر ریپبلکنز لازماً اوبامہ کی مخالفت کریں گے۔ اسکے علاوہ سالانہ بجٹ کی منظوری بھی اوبامہ کے لئے درد سر ثابت ہوگی۔ مگر میرے خیال میں، اوبامہ اس ساری صورتحال کے باوجود محفوظ ہیں۔

ہم سنہ 2013 کے آخر میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ ریپبلکنز نے بجٹ بل کانگریس سے پاس ہونے میں رکاوٹیں حائل کیں تھی جس کے باعث امریکہ اکنامک شٹ ڈاون سے گزرا۔ مگر پھر اوبامہ انظامیہ کو نہ صرف بجٹ پاس کروانے میں کامیاب ہوئی بلکہ ملکی اقتصادی عمل میں رخنہ ڈالنے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک ریپبلکنز پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی۔ اُس وقت کے تمام سروے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوامی سطح پر شٹ ڈاؤن کا ذمہ دارریپبلکنز کو سمجھا گیا۔ اوراس بات کو خود کسی حد تک ریپبلکن رہنماؤں نے بھی تسلیم کیا۔ جہاں تک رہ گئی بات قانون سازی کی بات تو امریکی طرز حکومت چونکہ صدراتی ہے اس میں شخصی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسلیئے ہر صدرکی طرح  اوبامہ کے پاس کسی بھی بل کو ویٹو کرنے کا آئینی حق موجود ہے۔ یہ امریکی صدر کا آئینی حق ہے جس کے ذریعے وہ کانگریس کی طرف سے آنے والی کسی بھی قانون سازی کو رد کر سکتے ہیں۔ کسی بھی بل پر صدارتی  ویٹو کو منسوخ کرنے کے لئے کانگریس میں کم از کم دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ بات  قابل غور ہے  کہ صدر اوبامہ نے واشگاف الفاظ میں امیگریشن اصلاحات کی مخالفت پر اپنا ویٹو کا حق استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔  کیونکہ امریکی صدر جانتے ہیں کہ ریپبلکنز کی اکثریت ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس دوتہائی نہیں اس لیئے وہ اپنا ویٹو کا حق استعمال کرنے میں پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ویٹو استعمال کرنے کی صدارتی تنبہیہ کانگریس کی قانون سازی پر اثرانداز ہوتی ہے اور بہت حد تک معاملات پر لے دے ہو جاتی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت ریپبلکنز کسی بھی قسم کی سیاسی ہزیمت اٹھانا نہیں چاہیں گے اور معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ شٹ ڈاؤن جیسا تجربہ نہیں دہرانا چاہیں گے  سو اس سارے پس منظر میں صدر اوباما ہمیں محفوظ نظر آتے ہیں ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔