زائد کاروباری لاگت

ایم آئی خلیل  جمعـء 9 جنوری 2015

مختلف رپورٹوں اور جائزوں میں اس بات کا اظہارکیا جاتا رہا ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں کاروباری لاگت زیادہ ہے۔ بلکہ بعض مصنوعات کی تیاری میں دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ ہے۔ جس کے باعث ملکی مصنوعات کا عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

2014 کی نسبت 2015میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث مختلف ممالک اپنی مصنوعات کی قیمتوں کو مزید کم کرکے پیش کریں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 50 فیصد سے بھی زائد کم ہوچکی ہیں۔گزشتہ دنوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید کم ہوکر 47 ڈالر فی بیرل تک آگئی ہیں۔ اس سے ایک طرف یورپ کو اپنی معاشی ترقی میں مزید اضافہ کرنے کا موقع ملے گا۔ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ترقی کے راستوں میں اضافہ ہوگا۔ ان ملکوں کی معیشت و صنعت کی ترقی کے باعث روزگار میں اضافہ ہوگا۔ عالمی منڈی سرد بازاری سے نکل کر گرم بازاری کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے موقعے پر مختلف ممالک اس تگ و دو میں ہیں کہ اپنے ملکوں کی کاروباری لاگت کو کم سے کم کیا جائے۔

تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث کئی تیل برآمد کرنے والے ممالک کا بجٹ شدید متاثر ہونے والا ہے۔ جس کے بارے میں وہ شدید تشویش میں بھی مبتلا ہیں۔ جب کہ کئی ممالک ایسے ہیں جو اپنے ریزروز کی بنیاد پر اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ قیمت میں مزید کمی کے جھٹکے کو برداشت کرلیں گے۔ جب کہ عالمی سیاست و معیشت کے کھلاڑی اپنے مطلوبہ نتائج کے انتظار میں ہیں۔ امریکا روس کی کشیدگی اور روس یورپ کے تعلقات میں سردمہری نے بھی تیل کی قیمت کو گرانے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

کیونکہ روسی معیشت کو یوکرائن میں مداخلت کی قیمت اپنی معیشت کو پست کرنے کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو زیادہ عرصے تک روا نہیں رکھا جاسکتا ہے، لیکن اس سے قبل ہی دنیا بھر کے معاشی پالیسی سازوں نے اپنے ملکوں کے لیے ایسی معاشی منصوبہ بندی کرلی ہے کہ جس کے باعث تیل کی قیمتوں میں کمی کو صنعتکاروں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ جس کے مثبت اثرات عالمی منڈی پر مرتب ہوں گے۔ عالمی درآمدات اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ مختلف ملکوں کے افراط زر میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ اشیائے استعمال کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔

پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ ملک میں آٹے کی قیمت میں قدرے کمی کے باوجود روٹی کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے کیونکہ تندور والوں کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمت میں اضافہ ہوچکا ہے لہٰذا بل کی مالیت بڑھ گئی ہے جس کے باعث روٹی کی لاگت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا روٹی کی قیمت بڑھادی گئی۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ممکنہ اضافے کے باعث جیساکہ بتایا جا رہا ہے کہ گیس کی قیمت میں 10 تا 64 فی صد تک اضافہ کردیا جائے گا۔ ایسی صورت میں اگر اس ماہ گیس کی قیمت مزید بڑھ جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ روٹی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔

پاکستان میں گندم کی پیداوار میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ سال 2014 میں گندم کی کل پیداوار 2 کروڑ56 لاکھ ٹن تک تھی۔ جب کہ حکومت کی طرف سے گندم کی قیمت 12 سو سے بڑھا کر 1300 روپے من کردی گئی ہے۔ چند ماہ بعد گندم کی نئی فصل بھی آنے والی ہے اگر نہری پانی کی قلت نہ ہوئی اور بارانی علاقوں میں بارش بھی ہوگئی تو ایسی صورت میں گندم کی پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن گندم کی فراوانی اور آٹے کی قیمت میں قدرے کمی کے باوجود روٹی کی قیمت میں اس لیے اضافہ ہو رہا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھ گئی ہے کیونکہ گیس کے بڑھتے ہوئے بل کے باعث صارفین پریشان ہیں۔ حالیہ دنوں میں صرف روٹی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر اشیا کی قیمتیں بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔ دال کی قیمت میں 10 سے 30روپے فی کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

ملک بھر کے تاجروں اور صنعتکاروں نے گیس کے نرخوں میں ممکنہ اضافے کی شدید مخالفت کی ہے۔ نمائندہ تنظیموں اور افراد نے ممکنہ اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کاروباری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس اضافے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی ماند پڑیں گی بلکہ برآمد کنندگان کی مسابقتی برتری بھی ہاتھ سے چلی جائے گی۔ اگر معاشی سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ تاجر رہنماؤں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے کے باعث کاروباری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا جس سے عالمی مارکیٹوں میں پاکستانی برآمد کنندگان کی مسابقتی بدتری یقینی طور پر ختم ہوجائے گی۔ مختلف افراد کے بیان میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گیس کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں خصوصاً ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے شعبے کی پیداواری لاگت میں حد سے زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔

گزشتہ ایک عشرے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جب پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے علاوہ دہشت گردی اور مہنگائی کے باعث اشیا کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ جس کے باعث ملکی مصنوعات جہاں ایک طرف ملک میں مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں بھی اس کی قیمت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ جس سے ملکی برآمدات کا حجم بھی گھٹتا چلا جاتا ہے تو صنعتکار ایسی صورت میں جب صورتحال ان کے قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور اس بات کا بھی خدشہ رہتا ہے کہ بجلی گیس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا تو ایسی صورت میں بہت سے کارخانہ دار بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔

حکومت کو اس سلسلے میں تدارک کے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی لیکن اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود جب کہ گیس کے نرخ بڑھنے سے معیشت کے مختلف اہم شعبوں خصوصاً ٹیکسٹائل ، لیدر، لوہا، اسٹیل، کنفیکشنری بیوریج سمیت گیس پر انحصار کرنے والی صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ ہوگا۔ اس سال کے اوائل میں ہی جی ایس ٹی پلس کے نفاذ سے اس بات کی امید ہوچلی تھی کہ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

لیکن ایسا ہونا بھی ممکن نہ رہا۔ کیونکہ دیگر کئی وجوہات کی بنا پر برآمدات میں نمایاں اضافہ نہ ہوسکا۔ تاجر تنظیموں کا خیال ہے کہ پاکستان میں اگر گیس ٹیرف میں اضافہ ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں زائد کاروباری لاگت کے باعث پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش اور سری لنکا ودیگر ملکوں کی مصنوعات کی طلب بڑھے گی۔ زائد کاروباری لاگت کے باعث پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے مواقع کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا۔ کیونکہ زائد کاروباری لاگت کے باعث یورپی ممالک کی جانب سے طلب میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکا اور برآمدات میں بھرپور اضافے کی توقع بھی پوری نہ ہوسکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔