جس کی لاٹھی اس کی بھینس (پہلاحصہ)

جاوید قاضی  جمعـء 9 جنوری 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آئین کا اکیسواں ترمیمی بل پاس ہونے کے چار گھنٹے بعد قانون بھی ہوگیا اور اس کا اطلاق بھی۔ بہت ہی مختلف ترمیم جس نے آئین کے ہر کونے و گوشے کو چھیڑا ہے۔ لیکن نافذ العمل صرف وہاں ہوگی اور پھر خودبخود تحلیل ہوجائے گی۔ اس طرح بھی باقی ماندہ کی ہوئی ترمیموں سے بہت ہی مختلف۔ اس طرح بھی آٹھویں ترمیم یا سترہویں ترمیم جوکہ Retrospective تھیں، یعنی پچھلے کیے ہوئے غیر آئینی اقدام کو Immunity دوسرے الفاظ میں تحفظ فراہم کرتی تھیں۔

اکیسویں ترمیم میں دو سال کے لیے مخصوص مقصد کے لیے Prospective یا آنے والے دو سال کے لیے فوجی کورٹوں کا ہونا آئینی قرار دے دیا۔ ہم میں ہی رہتے ہیں یہ دہشت گرد، ہمارے جیسے ہی چہرے ہیں ان دہشت گردوں کے۔ ہماری طرح مسجدوں میں آتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور ان ہی مسجدوں کو، اسکولوں کو، دھماکے سے اڑا دیتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ان کو تربیت دیتے ہیں، ان کے دماغوں پر قابو پالیتے ہیں۔ اب ہر اس امن پسند شہری کا بھی اس لسٹ میں تفتیش کے لیے آنا ہوسکتا ہے جوکہ ملوث نہیں ہے لیکن اس کی شکل دہشت گرد سے ملتی ہے اور وہ دہشت گرد اس کے اڑوس پڑوس یا اس کے گھر میں رہتا ہے۔

آئین کا 239(5) کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے کی ہوئی کسی بھی آئینی ترمیم کو کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا 1973 کا آئین جو تحریری ہے وہ سپریم نہیں بلکہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ یہ اصول برطانیہ میں بھی آج کل رائج الوقت نہیں جہاں آئین تحریری نہیں ہے۔ ہم اگر اس بات کو مان لیں کہ 239(5) صحیح ہے تو اس کا مطلب آئین میں کی ہوئی ترامیم کا Judicial Review نہیں ہوسکتا۔ اور اگر یہ سچ ہے تو آئین کا بنیادی اصول یعنی Trichotomy of Power وہیں بھسم ہوجاتا ہے۔ اختیارات میں تقسیم نہیں ہے یعنی تین بنیادی ستون عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ میں برابری نہیں ہے۔ یہاں نہیں بلکہ یہ کام اندرا گاندھی نے بھی کیا تھا کہ آئین میں کی ہوئی ترامیم کو کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کیشونندا کیس میں کورٹ نے آئین میں کی ہوئی ایسی ترمیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے تصادم میں قرار دے دیا اور اس کو Strike Down کردیا۔

لیکن 239(5) کو Malafide بھی نہیں کہا جائے گا۔ جسٹس کورٹ میں ’’ارشد محمود کیس‘‘ ہے (PLD 1965 SC 527) میں واضح کرگئے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کی ہوئی ایسی ترمیم کو Malafide نہیں کہا جائے گا، پارلیمنٹ کے کسی قدم کو بھی بدنیتی نہیں کہا جائے گا۔ ہم چلتے ہیں دو سو سال دور جب ولیم ماربری نامی شخص نے Writ of Mandomnas براہ راست سپریم کورٹ سے ان کے Judiciary Act 1789 کے سیکشن 13 کے ذریعے مانگی تھی۔ کورٹ نے نہیں دی اور اس قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا اس لیے کہ یہ قانون کورٹ سے Judicial Review کا بنیادی اختیار چھین رہا تھا۔

اگر ہم آرٹیکل 239(5) کو مان لیں تو اس کا مطلب ہے پارلیمنٹ کچھ بھی کرسکتی ہے، وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مسخ تو اپنی جگہ بلکہ آئین ختم بھی کرسکتی ہے۔ اگر ہم کورٹ سے Judicial Review کا اختیار لے لیں گے تو پھر عدلیہ کی آزادی والا بنیادی اصول وہیں بھسم ہوکے گر جاتا ہے۔ لہٰذا 239(5) کو کورٹ نہیں مانتی۔ کیوں کہ اسے خود 1973 کا آئین نہیں مانتا اور 239(5) کو اگر مانا جائے تو پھر ایسے بہت سے آرٹیکل ہیں جو خود آئین کی روح سے متصادم ہیں۔ اسے کورٹ کبھی خاطر میں نہیں لایا کیونکہ پھر پورا آئینی ڈھانچہ گر جاتا ہے، جیساکہ یہ مفروضہ آرٹیکل Supra 2(A) Constitutional ہے۔

جو میری نظر سے اکیسویں ترمیم گزری ہے وہ آرٹیکل 175(3) کی گئی ہے۔ اس کلاز (3) آرٹیکل 175 کے تحت عدلیہ اور ایگزیکٹو کی حد میں آہستہ آہستہ تفریق کی جائے گی اور بالآخر کورٹ نے اپنی جدوجہد سے اپنے Judicial Activism سے حاصل کی وہ مجسٹریٹ پاور ہے جو کہ جوڈیشل پاور ہوتا تھا وہ ڈسٹرکٹ کے ججوں کے پاس واپس چلا گیا اور کمشنروں وغیرہ کے پاس نہیں رہا تھا۔ لیکن اکیسویں ترمیم کورٹ کا یہ اختیار، آرمی ایکٹ 1952، پاکستان ایئرفورس ایکٹ 1953، پاکستان نیوی آرڈیننس1961 اور تحفظ پاکستان ایکٹ2014 کے تحت بنائی ہوئی کورٹوں کو Immunity دیتی ہے، یعنی Separation of Power یعنی Trichotomy of Power (عدلیہ کی آزادی) والا اصول ان کورٹوں پر اطلاق نہیں رکھتا۔ یعنی نہ صرف کوئی فوجی افسر بلکہ سول افسر جیساکہ پولیس وغیرہ بھی ایسی عدالتوں میں جج بنیں گے اور ان عدالتوں میں ان لوگوں پر کیس چلائے جائیں گے جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں۔

ساتھ ساتھ آئین کے Schedule 1 میں یہ ساری کورٹس بھی ڈال دی گئی ہیں اور اس طرح آرٹیکل آٹھ کے تحت ملے ہوئے عام شہری کے حقوق ایسے اشخاص پر لاگو نہیں ہوں گے تو یوں کہیے کہ آرٹیکل 199(1) کے تحت ایسے حقوق کی خلاف ورزی پر ایسے اشخاص ہائی کورٹس میں پٹیشن داخل نہیں کرسکتے۔

میاں صاحب اور زرداری صاحب ہیں اکیسویں ترمیم کے روح رواں ۔ وہ کیوں کر راضی ہوئے۔ کیونکہ بنیادی حقوق سے ایسے لوگوں کو نکالنا، جن پر Investigation بھی پوری نہ ہو۔ Prosecution نے بھی اپنا کیس نہ بنایا ہو۔ محض ملزم کہنے سے ہی ایسا شخص اپنے بنیادی حقوق گنوا بیٹھے، یہ تو اس اصول کے بھی خلاف ہے کہ

Accused is innocent till is proven guilty

ملزم ہوتے ہی شخص مجرم ہوجائے تو پھر باقی کچھ بچتا نہیں ہے۔ شیخ لیاقت حسین کیس میں میاں صاحب 1998 میں جو فوجی عدالتیں لائے تھے وہ آئین میں ترمیم کر کے نہیں بلکہ سادہ قانون پاس کر کے لائے تھے ۔ کورٹ کو بہت ہی آسانی ہوئی کیونکہ وہ ایسے قانون کو آئین کے تناظر میں دیکھ رہی تھی۔ اب کورٹ کے لیے ایسا نہیں ہے۔ اس بار آئین میں ترمیم کرکے ایسا کچھ کیا جا رہا ہے۔ تو اب کورٹ کے لیے آئین معاونت نہیں کرتا بلکہ وہ اصول معاونت کرتا ہے جس کو ہم بنیادی ڈھانچہ Basic Structure کہتے ہیں۔ یعنی وہ ترمیم جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہیں ہو وہ ترمیم پارلیمنٹ بھی نہیں کرسکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔