میری ماں، میری محبوب

سجاد احمد  ہفتہ 10 جنوری 2015
 ماں مجھے کہنا ہےکہ تم میرا سب سے بڑا سرمایہ ہو، اۤج ہر کوئی اپنی دولت ، جائداد پر فخر کرتا ہے تو ماں مجھے یہ کہنا ہے کہ مجھے تم پر فخر ہے۔۔۔
اور کچھ روز بوجھ اٹھا لو بیٹے
چل دیئے ہم تو میسر نہیں ہونے والے. فوٹو: اے ایف پی

ماں مجھے کہنا ہےکہ تم میرا سب سے بڑا سرمایہ ہو، اۤج ہر کوئی اپنی دولت ، جائداد پر فخر کرتا ہے تو ماں مجھے یہ کہنا ہے کہ مجھے تم پر فخر ہے۔۔۔ اور کچھ روز بوجھ اٹھا لو بیٹے چل دیئے ہم تو میسر نہیں ہونے والے. فوٹو: اے ایف پی

اگر ایک عام شکل و صورت کی عورت میری محبوب ہو سکتی ہے تووہ عظیم ہستی جس کو ماں کہتے ہیں جو ہماری پیدائش میں خدا کی سانجھےدار ہے ، وہ میری محبوب کیوں نہیں ہو سکتی؟ جس کے خشک لبوں پر جمی ہوئی مسکراہٹ نے مجھے نفرتوں میں بھی زندہ رہنے کا حوصلہ بخشا،  جس کی بجھتی ہوئی انکھوں کے آئینے میں اپنے جھریوں سے بھرے چہرے کو دیکھا تو وہی د س سال کا بچہ دکھائی دیا، وہ ہستی جو اپنی یاداشت کھو بیٹھے مگر جب اس کے سامنے اس کے بیٹے آئیں تو وہ جھٹ سے انہیں پہچان لے اور گلے سے لگا لے ۔۔ تو ایسی بے لوث ہستی میری محبوب کیوں نہیں ہو سکتی؟؟؟

خدا نے یہ صفت دنیا کی ہر عورت کو بخشی ہے

کہ وہ پاگل بھی ہو جائے تو بیٹے یاد رہتے ہیں۔۔

جب میں تاریخ کے پنوں میں ماں کی ممتا کو تلاش کرنے لگا تو گاؤں کی ایک ویران جھونپڑی میں بستر پر کھانستی ہوئی لاغر ماں میری آنکھوں کے سامنے آ گئی جس کا کمسن بیٹا جب ایک رات بارش میں بھیگتے ہوئے بلی کے بچے کو گھر لے آیا اور جب اسے بھوک لگی تو ماں نے اپنے حصے کا دودھ جو اس نے دوا کے ساتھ پینا تھا ، اس بلی کے بچے کو پلا دیا اور ساری رات کھانستی رہی اور اپنے بیٹے کو پیار بھری نظروں سے اس بلی کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتی رہی اور خوش ہوتی رہی۔۔

میں نے آج چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظِ ماں رہنے دیا

ماں اس سے پہلے کے دیر ہو جائے اور تمھارا ساتھ مجھے میسر نا رہے مجھے تم سے کچھ کہنا ھے۔۔

ماں مجھے یاد ہے جب پہلی بار تم نے مجھے مارا تھا اور بہت غصے میں تھیں مجھے پتہ ہے ساری رات تم روتی رہی تھی۔ ہاں ماں مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں فیل ہوا تھا  تو ابو کی مار کے ڈر سے کانپ رہا تھا تو تم نے مجھےان کے گھر آنے سےپہلے ہی سلا دیا تھا اور ابو دیر تک تم سے جھگڑتے رہے تھے۔

ماں تمہیں یاد ہے جب جائداد کا بٹوارا ہو رہا تھا تو ہر کسی کو اس کا حصہ مل رہا تھا،میرے  بڑے بھائی کے حصے میں دکان آئی تھی وہ شہر چلا گیا ، بڑی بہن نے زمین بیچ کر شوہر کے ساتھ شہر میں مکان لے لیا،  تم  اور میں گاؤں میں اکیلے رہ گئے تھے تو میں نے پوچھا تھا کہ ماں ’میرے حصے میں کیا آیا ہے؟‘ تو تم نے کہا تھا کہ ’بیٹے تم گھر میں سب سے چھوٹے ہو اس لیے تمہارے حصے ماں آئی ہے‘۔

ماں مجھے کہنا ہےکہ تم میرا سب سے بڑا سرمایہ ہو، اۤج ہر کوئی اپنی دولت ، جائداد پر فخر کرتا ہے تو ماں مجھے یہ کہنا ہے کہ مجھے تم پر فخر ہے۔۔۔

اور کچھ روز بوجھ اٹھا لو بیٹے

چل دیئے ہم تو میسر نہیں ہونے والے

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سجاد احمد

سجاد احمد

محمد علی جناح یونیورسٹی سے بائیوانفارمیٹکس میں ڈگری حاصل کی ہے اردو ادب سے میرا گہرا رشتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی اور معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں اور ایک ناول ’’جنوں کی دنیا‘‘ زیر تکمیل ہے۔ آپ بلاگر کو فیس بک پر اور ٹوئٹر پر www.facebook.com/sajjad4sam پر سرچ کرسکتے ہیں۔ @sajjad4sam

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔