سیکیورٹی اب بھی ویسی ہی ہے!

فیض اللہ خان  ہفتہ 10 جنوری 2015
پشاور سانحے کے بعد اندازہ تها کہ سیکیورٹی خاصی زیادہ ہوگی لیکن ٹیکسی ڈرائیور کے چار جملوں اور پرانے پاکستان کے عوام جیسی حرکتوں نے بتادیا کہ بهیا سب ویسے کا ویسا ہے، کچھ نہیں بدلا۔ فوٹو: فائل

پشاور سانحے کے بعد اندازہ تها کہ سیکیورٹی خاصی زیادہ ہوگی لیکن ٹیکسی ڈرائیور کے چار جملوں اور پرانے پاکستان کے عوام جیسی حرکتوں نے بتادیا کہ بهیا سب ویسے کا ویسا ہے، کچھ نہیں بدلا۔ فوٹو: فائل

ہاں  بهائی اندر جانا ہے؟؟؟ مشکوک سے حلیے کے شخص نے ہمارے قریب کهڑے ہوکر آہستہ سے کہا۔ ہم نے چونک کر اسے دیکها اور پوچها کہ کیسے لیکر جاوگے بهائی اتنی سخت سیکیورٹی ہے جبکہ ہمیں تو پیدل بهی ایئرپورٹ جانے نہیں دے رهے؟؟؟

ہم نے معصوم بن کر اس سے سوال پوچها، ٹیکسی ڈرائیور نے ہم تینوں کو اوپر سے لیکر نیچے تک دیکها اور کمال بےنیازی سے بولا 6 سو روپے دیدو، اندر پہنچانا میرے بائیں ہاتھ کا کهیل ہے، اس نے آنکھ دباتے ہوئے ہمیں ایسے کہا جیسے ہم پہلی بار کراچی آئے ہوں۔

اسمیں کوئی شک نہیں کہ عابد دو تین سال بعد کراچی آرہا تها اور ہمیں اس سے محبت بهی تهی، لیکن اب اتنی بهی نہیں تهی کہ 6 لال نوٹ اس پر قربان کردیتے، سو وقت گزاری کیلئے اس ٹیکسی ڈرائیور سے ایئرپورٹ کے فول پروف سیکیورٹی کی بابت جاننا شروع کردیا جہاں آپ عام شہری کی حیثیت سے تو ایک یا دو افراد نہیں جاسکتے، مگر 4 تا6 سو روپے ادا کرکے آپ نہایت سکون سے سارے ہائی الرٹ اور’انتہائی سخت حفاظتی انتظامات‘ کو جوتے کی نوک پر کھ کر جب اور جیسے چاہیں اس ہوائی اڈے کے انتظامات ہوا میں تحلیل کرسکتے ہیں۔

یادش بخیر یہ وہی ہوائی میدان ہے جسے گزشتہ برس طالبان نے اپنے خوفناک حملے میں ہلا کر رکھ دیا تها۔ دبئی سے آنے والی امارات کی پرواز میں کچھ تاخیر تهی اور ہم وقت گزاری کے لئے ویسے بهی تفریح کے موڈ میں تهے اس لئے مختصر وقت میں ساری ہی معلومات حاصل کرلیں۔ قافیہ شناس ڈرائیور کی بہرحال کل ملا کر سیکورٹی کی داستان اتنی سی ہے کہ اگر آپ شرافت عاجزی اور مسکین صورت بناکر اندر جانے کی اجازت مانگیں گے تو نہیں ملے گی، لیکن چند سو روپے دیکر آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو دہشتگرد کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ بتانے کی تو ہرگز ضرورت نہیں کہ ایئرپورٹ کے کرتا دهرتا اس سارے قصے سے بے خبر هونگے۔

فلائیٹ کے آنے میں وقت تها اور ہم مکمل فارغ تهے، پشاور سانحے کے بعد اندازہ تها کہ سیکیورٹی خاصی زیادہ ہوگی لیکن ٹیکسی ڈرائیور کے چار جملوں اور پرانے پاکستان کے عوام جیسی حرکتوں نے بتادیا کہ بهیا سب ویسے کا ویسا ہے، کچھ نہیں بدلا بس ایئرپورٹ و پشاور حملے کے بعد تهوڑے اضافی جذبات آگئے تهے جو ایک ایک کرکے اتر رہے ہیں۔

سچی بات یہی ہے کہ میرے واسطے یہ سب شاک کی ہی مانند تها کہ اسی دوران ایک اور ڈرائیور نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بهائی سارا جهگڑا یہاں موجود مختلف اداروں کے اختیارات کا هے، مزہ تو تب آیا جب هماری گفتگو سننے کے لئے ایک خفیہ شخص قریب آکر گفتگو سننے لگا وضع قطع سے فوری شناخت ہونے والے موٹے سے شخص سے میں نے کہا کہ بهائی سب میں منفرد نظر آرہے ہو دور کهڑے ہوکر سننے کے بجائے ہمارے ساتھ ہی شامل ہوجاو، قسم سے ہم عام شہری ہیں دہشتگردی سے دور پار کا بهی واسطہ نہیں ۔ اُس اہلکار نے آتش بار آنکهوں سے مجهے دیکها جیسے ابهی کچا چبا جائیگا اور اسکے بعد وہاں سے نکل لیا ۔

آدهے گھنٹے میں وہ سب سمجھ آچکا تها کہ جو سیکیورٹی سے متعلق دسیوں اجلاس کور کرنے کے بعد بهی سمجھ میں نہیں آیا تها، ہاں صاحب جب تک قلوب و اذهان کی صفائی نہیں ہوتی یہ سب یونہی چلتا رہے گا پورے معاشرے کی صفائی کی ضرورت هے ورنہ تو سیکیورٹی منصوبے یونہی خاک میں ملتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔