پاکستان میں جوٹ کی کاشت؛ روشن حقائق اور سنہرے امکانات

کاشف حسین  اتوار 11 جنوری 2015
جوٹ کی فصل کی مقامی کاشت کروڑوں ڈالر اضافی آمدنی کا باعث بنے گی، ماہرین فوٹو : فائل

جوٹ کی فصل کی مقامی کاشت کروڑوں ڈالر اضافی آمدنی کا باعث بنے گی، ماہرین فوٹو : فائل

پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے خاتمے کے لیے حکومتی سرپرستی میں کئی صنعتیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، جن میں سے ایک جوٹ کی صنعت بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جوٹ کی فصل کی مقامی کاشت کروڑوں ڈالر اضافی آمدنی کا باعث بنے گی، جب کہ ملک میں ماحول، روزگار، توانائی، صحت اور زرعی اجناس کے تحفظ کے چیلینجز سے نبردآزما ہونے میں بھی مدد ملے گی۔

یہ صنعت 1966 میں حکومتی ایماء پر قائم کی گئی تھی، تاکہ ملک میں زرعی اجناس کے ذخیرے کی ضروریات کو پورا کیاجاسکے۔ جوٹ کی فصل مشرقی پاکستان میں ہوتی تھی، جہاں اس کی مصنوعات کی متعدد فیکٹریاں قائم تھیں۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد پاکستان میں قائم 12جوٹ ملو ں کو خام مال کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور ہر سال پیدا ہونے والی بڑی فصلوں کو محفوظ کرنے کے لیے جوٹ کی صنعت اسٹریٹیجک اہمیت اختیار کرگئی۔ چناں چہ پاکستان میں جوٹ کی کاشت کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کے سرمائے سے مشرقی پاکستان میں لگائی گئی بہت سی فیکٹریاں اور کارخانے سقوط ڈھاکا کے وقت ضبط کرلیے گئے تھے۔

اس لحاظ سے پاکستان میں جوٹ کی صنعت کی نئے سرے سے بنیاد رکھی گئی اور بنگلادیش اور بھارت سے ہی خام جوٹ درآمد کرکے پاکستان میں جوٹ کے تھیلے تیار کیے جاتے رہے۔ تاہم پاکستان میں جوٹ کی کاشت کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں جوٹ کی کاشت کا آغاز کیا گیا۔ 80کی دہائی میں 1323ہیکٹر رقبے پر جوٹ کاشت کی جاتی رہی۔ تاہم وقت کے ساتھ یہ رقبہ کم ہوتے ہوتے 200ایکڑ تک محدود ہوگیا۔ اس وقت پنجاب کے کچھ علاقوں بالخصوص مظفر گڑھ میں دریائے چناب کے کنارے کاشت کے علاقوں میں جوٹ انتہائی محدود پیمانے پر کاشت کی جارہی ہے۔ پاکستان میں کاشت کی جانے والی جوٹ کا معیار نہ صرف بنگلادیش اور بھارت کا ہم پلہ ہے بل کہ یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کے قابل ہے۔

دنیا میں جوٹ پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں بھارت، بنگلادیش، چین، میانمار، نیپال، تائیوان، تھائی لینڈ، ویتنام، کمبوڈیا اور برازیل شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی جوٹ کام یابی سے کاشت کی گئی، لیکن کاشت کاروں میں جوٹ کی پیداوار سے متعلق آگہی میں کمی، کاشت بالخصوص جوٹ کو پانی میں طویل عرصہ بھگوکر چھال کو تنے سے الگ کرنے کے صبر آزما مراحل کی وجہ سے یہ رجحان فروغ نہ پاسکا، لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ دیگر فصلوں گندم، چاول، کپاس، گنے کے مقابلے میں جوٹ کی کاشت لاگت میں آسان ہے اور جوٹ کی فصل کو دیکھ بھال کی بھی اتنی زیادہ ضرورت نہیں جوٹ کو دیگر فصلوں کی کاشت کے بعد زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بطور ’’کتر‘‘ بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

٭جوٹ کس طرح کاشت کی جاتی ہے؟
جوٹ قدرتی فائبر کی نسل کے پودوں میں شامل ہے، جن میں کپاس اور السی کا پودا (فلیکس) بھی شامل ہیں۔ جوٹ کو گولڈن فائبر بھی کہا جاتا ہے، جو سوکھنے کے بعد سنہرا، گندمی اور بھورا رنگ اختیار کرتی ہے۔ جوٹ کے ریشے کی چمک اور رنگت کے لحاظ ہی سے جوٹ کی قیمت کا تعین ہوتا ہے فی الوقت جوٹ کی قیمت درجہ بندی کے لحاظ سے 45ہزار روپے سے 85 ہزار روپے تک بتائی جاتی ہے۔ نیچرل فائبر ہونے کی وجہ سے ماحول دوست اور غذائی اشیا بالخصوص بیج دار فصلوں کو طویل عرصے تک موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جوٹ کا استعمال صدیوں سے رائج رہا ہے۔

جوٹ کے پودے سرکنڈوں اور گنے کی طرح چھے سے آٹھ فٹ اونچے ہوتے ہیں عموماً سال میں ایک فصل کاشت ہوتی ہے، جو 12ہفتوں میں تیار ہوتی ہے۔ جوٹ کی فصل دیگر چھوٹی فصلوں کے ساتھ بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ جوٹ کی فصل کو کاٹنے کے بعد گٹھوں کی شکل میں باندھ کر پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ عمل 12سے 15روز تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران جوٹ قدرتی بیکٹریائی عمل سے گزرتی ہے، جسے انگریزی میں ریٹنگ کہتے ہیں۔ ریٹنگ کا عمل جتنا بہتر ہوگا جوٹ کا معیار بھی اتنا ہی اچھا ہوگا ریٹنگ کے عمل کے بعد جوٹ کی چھال تنے سے الگ کی جاتی ہے اور چھال کو سکھایا جاتا ہے۔ جوٹ کی کاشت کے دوران فصل کو کسی قسم کی کیمیاوی کھاد کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی زرعی ادویات کے بڑے پیمانے پر استعمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اس لیے اس فصل کی پیداواری لاگت دیگر فصلوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ریٹنگ کے عمل کے بعد حاصل ہونے والی خام جوٹ ملوں کو بھیج دی جاتی ہے، جس سے جوٹ کا ریشہ، دھاگا اور آخر میں بنائی کرکے جوٹ کا کپڑا اور اس سے تھیلے و دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ مظفر گڑھ میں جوٹ کاشت کرنے والے کاشت کاروں نے بتایا کہ بنگلادیش کے مقابلے میں پاکستان میں زرعی شعبے میں یومیہ مزدوری اور اجرت کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے جوٹ کی پیداوار کو ریٹنگ کے عمل سے گزارنے کے بعد چھال الگ کرنے اور سُکھانے کے عمل پر اُٹھنے والی مزدوری کی لاگت مجموعی فصل کی لاگت کا 70فی صد ہے۔ اس لیے کاشت کاروں میں جوٹ کی پیداوار کا رجحان زور نہیں پکڑ سکا، جب کہ جوٹ کی کاشت کی ترغیب دینے والی آل پاکستان جوٹ ملز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ ایک ایکڑ پر ایک ٹن جوٹ کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے، جس کی قیمت 45 ہزار سے85 ہزار روپے تک ہے۔

بڑے پیمانے پر جوٹ کاشت ہونے سے ملک میں ایک جانب مقامی طلب پوری کرنے کے لیے جوٹ مہیا ہوگی، جس سے خام جوٹ کی درآمد پر خر چ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی وہیں جوٹ ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمایا جاسکے گا۔ جوٹ کی صنعت میں لیبر کی بڑے پیمانے پر کھپت ہے۔ عموماً ایک جوٹ مل میں ڈھائی سے تین ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ جوٹ کے بیگز کی تیاری کا کام مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس لیے لیبر بھی تین شفٹوں میں کام کرتی ہے۔ پاکستان میں جوٹ کی کاشت کے موزوں علاقے دریاؤں کے کنارے ہیں، جب کہ مارچ سے مئی کا وقت کاشت اور مئی سے جون کا موسم بیج حاصل کرنے کے لیے موزوں ہیں۔

دنیا بھر میں غذائی اجناس کو جوٹ کے ماحول دوست بیگز میں محفوظ کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے ۔ یورپ امریکا، بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں غذائی اجناس کو محفوظ رکھنے کے لیے جوٹ کے بیگز کا استعمال لازمی قرار دیا جاچکا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی جوٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی سطح پر اس کے استعمال کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے 2009کو نیچرل فائبر کا سال قرار دیا اور اس سال دنیا میں جوٹ سمیت دیگر نیچرل فائبرز کے استعمال کو عام کرنے کے لیے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ ساتھ ہی حکومتوں کو نیچرل فائبر انڈسٹریز کی مشکلات کے حل کے لیے پالیسیاں وضع کرنے کی ترغیب دی گئی۔

عالمی رجحان کے برعکس پاکستان میں جوٹ انڈسٹری زوال کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ گذشتہ تین دہائیوں سے جوٹ کی جگہ پولی پراپلین کے تھیلوں کا استعمال ہے۔ جوٹ انڈسٹری کے مطابق حکومتی سطح پر اس رجحان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے فوڈ ڈپارٹمنٹ ہر سال جوٹ کی جگہ پولی پراپلین کے تھیلوں کا استعمال بڑھارہے ہیں۔ پنجاب فوڈ ڈپارٹمینٹ کے جوٹ کے تھیلوں کی سالانہ خریداری 60 فی صد جب کہ سندھ کی 40 فی صد تک پولی پراپلین پر منتقل ہوچکی ہے۔ پولی پراپلین کے تھیلے غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے طبی لحاظ سے غیرموزوں ہیں اور ماحولیات کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں سمیت خطے کے بیشتر ممالک نے بھی غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے پولی پراپلین کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی عاید کررکھی ہے۔ مغربی ملکوں میں جوٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے، لیکن پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

پولی پراپلین کے مقابلے میں جوٹ کے تھیلوں کی عمر کہیں زیادہ ہے اور یہ تھیلے ماحول دوست بھی ہیں۔ جوٹ کے تھیلے متعدد مرتبہ استعمال ہونے کے بعد گل سڑ کر زمین کا حصہ بن جاتے ہیں اور قدرتی طور پر زمین کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں اور زمین سے مضر اجزا کو ختم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ جوٹ کے تھیلوں میں رکھی گئی غذائی اجناس طویل عرصے تک محفوظ رہتی ہیں۔ بالخصوص جوٹ کے تھیلوں میں موجود اجناس اور بیجوں کا آکسیڈیشن کا عمل جاری رہتا ہے، جس سے ان بیجوں کی غذائیت اور بارآواری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پولی پراپلین کے تھیلوں میں رکھے گئے اجناس اور بیجوں کا معیار آکسیڈیشن نہ ہونے اور پولی پراپلین کے ساتھ کیمیائی عمل کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے، بل کہ عالمی سطح پر کی جانے والی تحقیقات میں اس کے انسانی صحت پر بھی مضر اثرات ثابت ہوئے ہیں۔

عالمی سطح پر پولی پراپلین بیگ کا استعمال ٹرانسپورٹیشن کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ گندم یا دیگر غذائی اجناس کے لیے مضر رساں ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا، کیوںکہ محدود وقت کے بعد اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک اسکالر کی حالیہ تحقیق کے مطابق جوٹ بیگز پولی پراپلین تھیلوں کے مقابلے میں غذائی ذخیرے کے لیے زیادہ سود مند ہیں۔ اس سے غذائی اجناس کا معیار برقرار رہتا ہے۔ گندم کے تھیلوں میں اگر ہوا کا گزر نہ ہو تو گندم کا معیار برقرار نہیں رہ سکتا، جب کہ جوٹ بیگ کے برعکس پولی پراپلین پلاسٹک کے تھیلوں میں ہوا کا بالکل گزر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جوٹ بیگ غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے قدرتی ذریعہ ہے۔ گندم پنجاب، اپر سندھ اور سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے، جہاں درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ اور ہوا میں نمی کا تناسب 75 فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گندم کے اجزاء ذخیرے کے دوران حرارت خارج کرتے ہیں اور ان میں تنفس کا عمل پایا جاتا ہے۔ یہ اجزاء کاربن ڈائی آکسائڈ اور نمی خارج کرتے ہیں۔ اگر نمی کے اثرات فوری خارج نہ کیے جائیں تو گندم خراب ہوجاتی ہے اور اس میں پھپھوند لگ جاتی ہے۔ پولی پراپلین پلاسٹک کے بیگ میں ہوا کا گزر ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان تھیلوں میں گندم کے ذخیروں سے فصل کو نقصان اور خرابی کی سطح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں گندم اور دیگر غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے جوٹ کے تھیلوں کو موزوں قرار دیا گیا ہے۔ جوٹ کے تھیلوں میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ وہ اجناس اور دیگر غذائی اشیاء کے ذخیرے کو زیادہ عرصے تک اور ہر ماحول میں محفوظ اور معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔

اس حقیقت کو پڑوسی ملکوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور وہاں جوٹ کے تھیلوں کو قانون سازی کے ذریعے لازمی پیکیجنگ میٹیریل قرار دیا گیا ہے جب کہ غذائی اجناس کے لیے جوٹ کا استعمال لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نہ صرف یونائٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کو نظر انداز کررہی ہے، جو اجناس کے ذخیرے کے لیے پلاسٹک بیگ پر پابندی کا مطالبہ کرتا ہے بل کہ عوام کی صحت کے لیے بھی خطرات کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک نے غیرغذائی اشیاء کے لیے بھی ان کا استعمال محدود کردیا ہے۔ اس لیے ان کی تیاری ان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کا کوئی جواز ممکن نہیں ہے۔

٭جوٹ کی پیداوار:
عالمی سطح پر جوٹ کی پیداوار کا اندازہ 30لاکھ ٹن سالانہ لگایا گیا ہے، جس میں بھارت کا حصہ 45 فی صد ہے۔ بھارت نہ صرف جوٹ پیدا کرنے والے ملکوں میں نمایاں ہے بل کہ کھپت کے لحاظ سے بھی بھارت دنیا میں جوٹ کا استعمال کنندہ بڑا ملک ہے۔ دنیا میں بنگلادیش جوٹ برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جب کہ پاکستان جوٹ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست رہا ہے۔ تاہم اب چین اور بھارت دنیا میں خام جوٹ درآمد کرنے والے بڑے ملک بن چکے ہیں۔ سال 2012-13 میں بھارت میں جوٹ کی پیداوار 1.67ملین ٹن، بنگلادیش میں 1.36ملین ٹن رہی ۔ پاکستان میں 60اور 70کی دہائی تک 12جوٹ ملیں کام کررہی تھیں، جن میں سے بیشتر بند ہوچکی ہیں۔

اس وقت نجی شعبے میں پانچ جوٹ ملز کام کررہی ہیں، جن کی مجموعی گنجائش 125,000 ٹن سالانہ ہے، جب کہ موجودہ پیداوار 0,000 10 ٹن سالانہ ہے۔ اس صنعت سے براہ راست 25 ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے، جب کہ بالواسطہ طور پر ایک لاکھ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ یہ انڈسٹری 10 کروڑ ڈالر کی درآمدی بدل (امپورٹ سبسٹی ٹیوشن) فراہم کرتی ہے، جب کہ ٹیکسز، ڈیوٹیوں اور دیگر مدات میں 80کروڑ روپے سالانہ قومی خزانے میں جمع کراتی ہے۔ دنیا بھر میں جوٹ کو قدرتی فائبر ہونے کی وجہ سے زرعی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے اس کے استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے 180 ملین تھیلوں کی ہر سال ضرورت ہوتی ہے۔

ان میں سے 60 ملین مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں، جب کہ باقی طلب پرانے جوٹ بیگ سے پوری کی جاتی ہے جو کئی مرتبہ استعمال کے بعد بھی قابل استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوٹ صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس صنعت کا شمار پاکستان کی ان صنعتوں میں ہوتا ہے جو عوام کو سب سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

٭جوٹ صحت کا ضامن:
پلاسٹک یا پولی پراپلین بیگ سخت موسم میں اکڑ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے ذرات غذائی اجناس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گندم کے دانوں میں شامل ہوکر معدے میں جانے کا باعث بنتے ہیں اور اس صورت میں ہیپاٹائٹس، دستوں کی بیماری، اور پیٹ کی بیماریوں سمیت بہت سے دیگر امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہم انہیں جلاکر ضائع کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے، کیوں کہ یہ یقینی طور پر فضا کو آلودہ کر دیتے ہیں اور سینے اور سانس سے متعلق امراض کی وجہ بن جاتے ہیں۔

٭جوٹ سے توانائی کی بچت:
پلاسٹک بیگز کی تیاری اب زیادہ بچت کا باعث نہیں ہوتی، کیوں کہ ایک ٹن پلاسٹک بیگز کی تیاری پر تقریباً4,000ڈالر لاگت آتی ہے۔ اس کی پیداوار سے پلاسٹک بیگ وینڈرز کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے قدیم ایندھن کی فراہمی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ چین نے پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی لگانے سے قبل ایندھن کے 37ملین سے زیادہ ڈرم ضائع کیے، جب کہ بہت سے ممالک ان بیگز پر پابندی لگانے کے اقدام کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ اس میں کام یابی بھی حاصل کر چکے ہیں۔

پلاسٹک بیگز کی تیار ی کا عمل بھی نقصان دہ ہے۔ کارکنوں کو resin نامی مواد بہت سی شافٹس اور ٹنلز میں رکھنا ہوتا ہے، جنہیں 1,000ڈگری سے بھی زاید حرارت پہنچائی جاتی ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر انتہائی گرمی ہوتی ہے، لہٰذا جن مشینوں اور پلی پر کارکنوں کو کام کرنا ہوتا ہے، وہ ہیٹ پروف ہوتی ہیں اور کارکن خود اس سخت گرمی سے بچتے ہوئے اس پورے سسٹم کو آپریٹ کرتے ہیں۔ اس عمل میں تیل کے ہزاروں ڈرم استعمال ہوتے ہیں جو ہمارے ایندھن کے قیمتی ذخیروں کو ضائع کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر پلاسٹک بیگز کو پیداواری لاگت سے کہیں کم پر فروخت کردیا جاتا ہے۔

٭جوٹ سے ماحولیات کا تحفظ:
پلاسٹک بیگز کا استعمال نہ صرف سمندری حیات کے لیے خطرناک ہے، بل کہ ماحول اور انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ استعمال شدہ بیگز کو کسی بھی جگہ ٹھکانے لگانا یا جلانا بھی بہت مشکل ہے؛ اگر ہم استعمال شدہ بیگز کسی کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیں گے تو یہ فضا کو آلودہ کردیں گے اور پانی کے ذخیروں کو بھی گندا کریں گے۔ نکاسی آب کی نالیاں بھی پولی تھین بیگز پھنس جانے کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں۔ پلاسٹک بیگز دو بڑے طریقوں سے زمین کو آلودہ کرتے ہیں۔

بہت سے پلاسٹک بیگز مٹی کے گڑھوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں، جو وہیں پر رہ جاتے ہیں اور کم از کم 1,000سال تک مٹی کو آلودہ کرتے اور خطرناک گیس پیدا کرتے ہیں۔ اس عمل کو فوٹو ڈی گریڈنگ کہتے ہیں۔ فوٹو ڈی گریڈ کے دوران، خارج ہونے والی خطرناک گیس زمین میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور ہمارے تازہ پانی کے قیمتی ذخیروں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ اس دوران وہ فضا میں میتھین خارج کرتے ہوئے ہماری اوزون لیئر کو نقصان پہنچاتی ہے۔ میتھین دہ دوسرا بڑا محلول ہے جو گلوبل وارمنگ کی وجہ بنتا ہے۔ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال شدہ پلاسٹک بیگز سے خارج ہونے والی میتھین کو آلودہ کرتی ہے۔

٭ملکی برآمدات میں اضافہ:
جوٹ کی ویلیو ایڈڈ برآمدات میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔ جوٹ کی برآمدات میں اضافے کے لیے جوٹ انڈسٹری کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ 14 ملین ڈالر کو بڑھایا جاسکے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے زرعی اجناس کے ذخیرے کے لیے نقصان دہ پیکیجنگ میٹیریل پولی پراپلین کی بجائے جوٹ کے استعمال کی منصوبہ بندی سے جوٹ کی پیداوار اور مصنوعات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ زرعی اجناس کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے ۔

 

حکومتی اقدام سے ملک خام مال کے لیے خود انحصاری حاصل کرنے کے ساتھ برآمدات کے نئے مواقع بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جوٹ کی باقاعدہ مقامی پیداوار نہ صرف عالمی تجارت کے مسائل کو ختم کرنے میں مدد دے گی بل کہ اس فصل کے خام مال کی درآمد پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے گا فی الوقت خام مال پڑوسی ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کئی ممالک بشمول بھارت اور بنگلادیش نے زرعی اجناس اور گندم کے ذخیرے کے لیے صرف جوٹ کو پیکیجنگ میٹیریل کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ اسی طرح بنگلادیش میں غذائی خوراک کی خود انحصاری کے لیے بھی جوٹ کے استعمال کو لازمی قرار دے کر ہدف حاصل کیا گیا۔ بھارت اور بنگلادیش دنیا میں سب سے زیادہ جوٹ پیدا کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی زمین جوٹ کے لیے قابل کاشت ہونے کے باوجود اس کی کاشت کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔

کام یابی کے ساتھ جوٹ کی ملک میں بڑے پیمانے پر پیداوار سے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ نظریہ غلط تھا کہ جوٹ کی کاشت صرف چند ملکوں ہی میں کی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت جوٹ انڈسٹری کو تیکنیکی انفرااسٹرکچر کی معاونت فراہم کرے اور جوٹ کی پیداوار کے لیے طویل المدت پالیسی اور راہ نمائی فراہم کرے تو جوٹ کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات سے پاکستان درآمدی بل میں کمی کے ساتھ ساتھ قابل قدر زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔