اقلیتوں کا تحفظ اور مسائل

نسیم انجم  ہفتہ 10 جنوری 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج کل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اقلیتوں کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ نجی چینلز پر کچھ ایسے اینکر پرسن بھی نظر آتے ہیں جن کا مطالعہ، معلومات اور علم ایک محدود دائرے میں مقید ہے، بعض تو ایسے ایسے سوال  داغ دیتے ہیں کہ جن کا جواب شرعی حوالے سے ناظرین و سامعین کو بتانا بے حد ضروری ہوتا ہے۔

ٹی وی کے گرد عام لوگ نہیں خاص لوگ بھی علمی و ادبی گفتگو بے حد شوق سے سنتے ہیں اور اگر جوابات غلط دیے جائیں، ناقص معلومات فراہم کی جائیں، تب تشنگی اور غصے کی لہر گھر بھر میں دوڑ جاتی ہے اور وہ حضرت یا حضرات چیخ چیخ کر کہتے ہیں دیکھو جواب تک پورا نہیں سنایا اور بات کہیں اور گھما دی یا تو آپ سوال ہی نہ کریں اور اگر یہ غلطی کر ہی ڈالیں تو صبر و تحمل سے جواب بھی سنیں اور اپنا نکتہ نگاہ بھی بیان کریں لیکن دانائی اور سچ کی روشنی میں ہر شخص کا موقف سننا کسی کو ناگوار نہیں گزرتا ہے کہ ظاہر ہے ہر شخص اختلاف رائے رکھ سکتا ہے۔

حال ہی میں ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جو اسی موضوع پر تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ کیوں نہیں ہو رہا ہے اور اینکر نے تو یہ بھی فرمادیا کہ غالباً دس ہزار خاندان گاؤں چھوڑ کر چلے گئے، ایک مولانا صاحب نے  جو بطور مہمان  پروگرام میں شریک تھے ،جواب دیا کہ میرے  رفقا کی کوششوں سے انھیں دوبارہ ان کے گھروں میں بسا دیا ہے لیکن میزبان کو آدھی بات معلوم تھی کہ وہ اپنے گھروں سے رخصت ہوگئے ہیں۔ سچائی کی آگ میں ذرا کود کر دیکھیے کہ پاکستان میں کون مظلوم ہے؟ اقلیت یا اکثریت؟ اقلیتوں کے دکھ اور زیادتی اپنی جگہ، جو ان پر ظلم کرتے ہیں انھیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق ہرگز نہیں ہے۔ مسیحی جوڑے شمع اور شہزاد کو زندہ جلانے کے واقعے کو کوئی بھی صاحب دل اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔

بلکہ اسے ایسے ہی دکھ ہوگا اور ہوا جس طرح اپنے مسلمان بھائی پر ہونے والی زیادتیوں پر دکھ ہوتا ہے ۔چونکہ بحیثیت انسان ہر شخص برابر ہے، سب کا لہو سرخ ہے۔ سب کے جذبات و احساسات ایک سے ہیں، نعوذباللہ اگر کوئی یہ ناپاک جسارت کر بھی بیٹھے تو الزام لگانے والوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور انسانیت کا جنازہ سر بازار نکالیں اور دنیا بھر کے واحد امن پسند ’’اسلام‘‘ کو بدنام  کریں،  سزا کا اختیار ریاست کو حاصل ہے، وہ بھی اگر گواہ اور ثبوت موجود ہوں، ورنہ تو جھوٹے الزامات لگانے والے اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے۔

اس قسم کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر، جب کہ مسلمانوں کے آپس کے قتل و غارت، فتنہ و فساد، تشدد و بربریت نے لوگوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہر دن مقتل کو سجایا جاتا ہے، آرمی پبلک اسکول کے بچے اور اساتذہ تو مسلمان تھے ناں، ہندو و عیسائی، پارسی وغیرہ تو نہیں تھے اور آرمی کے اسکول میں اس قسم کا واقعہ رونما ہونا معمولی بات نہیں بلکہ دنیا بھر کی افسوس ناک خبر تھی، ہر ملک نے بلاامتیاز نسل و مذہب سوگ منایا، وہ اس لیے کہ وہ سب بھی انسان تھے۔

سب ماؤں کو اپنے لخت جگر پیارے اور جان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ کلرز کو ہی دیکھ لیں، مارنے والا بھی مسلمان اور مرنے والا بھی مسلمان، مساجد و امام بارگاہ میں بارہا حملے ہوتے رہے محفل میلاد کے جلوس اور محافل میں دھماکوں کے ذریعے علمائے  کرام کو خون میں نہلایا گیا، کوئٹہ کے حالات بھی کسے سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لواحقین نے لاشوں کے ساتھ سخت سردی میں کئی دن گزارے ہیں، ان حالات میں یہ کہنا کہ اقلیتوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کس کھاتے میں جائے گی، جو بھی صحیح اور سچا مسلمان ہے، اسے ہر انسان کے قتل اور جان و مال کے نقصان کا اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنا کہ اس کے اپنے پر ہونے والی زیادتی کا غم ہوتا ہے، ایسی سوچ رکھنے اور اس کی تشہیر کرنے والے خوا مخواہ مذہب اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے خواہاں ہیں۔

کچھ مہمانوں اور میزبانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ آخر انھیں اقلیت کیوں کہا جاتا ہے، مولانا صاحب نے بہت اچھا جواب دیا کہ ’’دوسرے ملکوں خصوصاً برطانیہ، امریکا وغیرہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں‘‘ اقلیت کوئی گالی تو نہیں ہے، اقلیت اکثریت کی ضد ہے اور دونوں کا مطلب واضح ہے۔

دین اسلام کسی بھی غیر مسلم پر ظلم و ناانصافی کرنے کا درس نہیں دیتا ہے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے احکامات موجود ہیں ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت، مذہبی آزادی، شخصی معاملات میں ایسی آزادی جو کسی کو ذہنی و جسمانی کرب نہ پہنچا سکے۔ اسلام برابری کا بھی سبق دیتا ہے، جہاں بھی مسلم و غیر مسلم یکساں ذمے داریاں ادا کرتے ہیں ان کی اجرت یکساں ہونی چاہیے اور وہی تمام سہولتیں جو مسلموں کو حاصل ہیں، لیکن ہمارے ملک کے تو ساہوکار، جاگیردار ہی اتنے حریص، لالچی اور غیر مہذب ہیں کہ وہ وقت پر اور ضرورت پر مجال ہے جو مدد کرجائیں، ہاں! بے چارے بے بس انسان پر سزا کے طور پر کتے ضرور چھڑوا دیں گے۔ وہ تمام پیشے جنھیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے ان کو اپنانے کی ممانعت ہے۔

اقلیتوں اور ان کے چاہنے والوں کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ زبردستی ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرکے شادی کروا دی جاتی ہے، ناممکن، حقائق بالکل برعکس ہیں، لڑکے لڑکی کی پسند کو جب والدین قبول نہیں کرتے ہیں تب یہ لوگ راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور کورٹ میں جاکر پسند کی شادی کرلیتے ہیں، کوئی کسی کو فرار کرکے نہیں لے جاسکتا ہے، جب تک کہ لڑکی کی اپنی مرضی شامل نہ ہو، کورٹ میں بے شمار ایسی لڑکیاں پیش ہوتی ہیں جو ببانگ دہل شادی کرنے اور اپنی مرضی سے گھر چھوڑنے کا اعتراف کرتی ہیں۔

مسلمان تو خود مذہب پر اپنی روایات اور غیرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں لڑکی نے مرضی کی شادی کا ذکر کیا وہیں اسے کاری کردیا گیا اس وقت یو۔کے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ پنجاب سے ایک خاندان جاکر دیار غیر آباد ہوگیا تھا، جب بڑی بیٹی نے ہوش  سنبھالا تو اس کی زندگی میں مغربی طرز فکر رونما ہوا، والدین نے پہلے تو بہت سمجھایا۔ لیکن جب ان کی بات کا اثر نہ ہوا، تب انھوں نے اپنی بیٹی کو بے ہوش کیا اور ایک نائیلون کے شاپر میں اسے پیک کردیا، وہ جلد ہی سانسیں رکنے کی وجہ سے زندگی سے چھٹکارہ پاگئی، والدین نے گھر میں ہی قبر کھودی اور دفن کردیا، واقعہ پرانا ہوگیا، زندگی معمول پر آگئی۔

، چھوٹی بچی نے ہوش سنبھالا ایام جوانی میں قدم رکھا تو ایک بار پھر پچھلی کہانی سامنے آگئی والدین نے بچی کو مختلف سزائیں دیں اور عبرتناک انجام سے آگاہ کیا لیکن اس وقت وہ حیران رہ گئے جب اس لڑکی نے پولیس میں جاکر رپورٹ درج کرادی اور عدالت میں سب کچھ بتادیا۔ جب پولیس نے اس جگہ کو کھودا جس جگہ کی نشاندہی لڑکی نے کی تھی، تو بڑی بیٹی کی لاش نکلی، والدین کا جو انجام ہونا تھا وہ ہی ہو۔ اگر والدین روز اول سے ہی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں تو حالات مختلف ہوں۔ پوری روٹی کھانے کی بجائے آدھی کھا لیں اور اپنے ملک میں زیست بسر کرلیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کا اولاد کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا جگہ کوئی بری نہیں ہوتی بلکہ حالات والدین کو اپنے فرائض سے غفلت کی بنا پر سنگین رخ اختیار کرلیتے ہیں۔

مسلم وغیر مسلم کی شادیاں ہندوستان میں عرصہ دراز سے ہو رہی ہیں اس کی وجہ مخلوط تعلیم اور مکمل آزادی، مخلوط تعلیم یہاں پر بھی ہے لیکن ابھی اتنے برے حالات نہیں ہوئے ہیں۔ہندوستان میں والدین یہ الزام نہیں لگاتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو ورغلا کر شادی کرلی۔ اور نہ ہی وہ مرنے مارنے پر یقین رکھتے ہیں، خود فلمی ستاروں نے مخالف مذاہب میں شادیاں کی ہیں، شاہ رخ خان اور گوری کی شادی پرانی ہوچکی ہے، جب کہ کرینہ کپور اور سیف علی خان نے حال ہی میں بیاہ رچایا ہے اور بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دوسرے مذاہب میں شادی کرنا عیب نہیں سمجھتے۔ اب اگر کسی کی معلومات ہی صفر ہوں تو اس بے چارے کو کیونکر اعتراض ہوگا ایک مسلمان کی شادی غیر مسلم سے ہرگز جائز نہیں ہے، جائز ہے تو اہل کتاب سے اور وہ بھی اگر مذہبی عقائد پر یقین رکھتا ہو۔اینکر پرسنز سے عرض اتنا کرنا ہے کہ سوال کے بعد جواب مکمل سنیں۔ آپ کم مہمانوں کو بلائیں مگر بات مکمل ہو۔ تاکہ تشنگی علم اہل بصیرت کو پریشانی میں مبتلا نہ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔