جس کی لاٹھی اس کی بھینس (آخری حصہ)

جاوید قاضی  ہفتہ 10 جنوری 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مگر اس کے لیے کورٹ کے پاس کوئی نظیر Precedence موجود نہیں۔ کہیں ایک اچکزئی کیس ہے تو وہ بھی جسٹس سجاد علی شاہ والی بینچ نے آئین میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف موجود شق 58(2)(b) کو صحیح قرار دے کر بنیادی ڈھانچہ وضع کیا تھا، یعنی شیر اور لومڑی کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پلایا تھا۔ نظریہ  ضرورتDoctrine of Necessity اور بنیادی ڈھانچہ Basic Structure والی تھیوری کو ایک ساتھ کھڑا کردیا۔

اور ایسا ہی کام ظفر علی شاہ کیس میں بھی ہوا تھا جب کورٹ نے بارہ اکتوبر والے کو Validate کیا تھا تو ساتھ ساتھ آئین کا بنیادی ڈھانچہ بھی وضع کیا تھا۔ کوئی بھی ادارہ یگانہ و یکتا اتنے بڑے طوفان کو اکیلے  کیسے روک سکتا ہے، جب پوری قوم سوئی ہوئی ہو اور پھر بالآخر یہ بھی ہوا کہ قانون کی حکمرانی کے نام پر کامیاب تحریک چلی، آمر کو اکھاڑ کے باہر پھینک دیا۔ مگر پھر وہ تحریک بھی بھٹک گئی، ایسے ایسے Suo Moto بھی ہوئے جن پر سوائے ہنسنے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسے ایسے مجرموں کو ضمانتیں ملیں جن سے قوم حیران ہوکر رہ گئی۔ پھر دہشت گردی کا جن کیسے قابو میں آتا۔ جب عام قانون سے معاونت نہ ملی تو اپنے مفادات کے لیے اسلامی حوالوں کی موضوعی تشریح کی گئی۔ کسی کو امیر المومنین بننے کا شوق ہوا تو کوئی قاضی القضا بن گیا، مگر ادارے نہ بن پائے۔آج ہم ادارہ جاتی شکست و ریخت کے عجیب الم ناک دور سے گزر رہے ہیں۔

میں نے پچھلے کالم میں Written آئین کی ایک Theory پیش کی تھی جس پر چلتے ہوئے کسی طرح ہندوستان و امریکا کی کورٹ نے عدلیہ کی آزادی یا Judicial Review والا حق یا Rule of Law والی جدوجہد جیتی تھی یا یوں کہیے آئین کا Basic Structure وضع کیا تھا۔

معذرت کے ساتھ وہ اس لیے ممکن ہوا تھا کہ وہاں ان کے آئین آنے کے بعد پھر آئین معرض التوا Abeyance میں نہیں گئے تھے، یعنی (تختہ دھڑن  )Coup وغیرہ نہیں آئے تھے۔ مگر یہاں ایسا کچھ ہوا ہے، 1973 کے آئین کے بعد دو مرتبہ ہوا ہے اور پھر 58(2)(b) ڈال کر جیسے آئین کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا تھا۔ یہاں ابھی Executive برانچ کے اندر گڑبڑ ہے۔ فوج اور سول حکومت میں ٹکراؤ ہے۔ یہ بات بے نظیر بھٹو نے 1993 میں بڑے منطقی انداز میں کہی تھی کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت کوئی اورہے۔ تین نومبر کو  مشرف پارلیمنٹ فتح کرچکے تھے۔

مگر پاکستان کا آئین قانون کے فلسفے (Jurisprudence) کے حساب سے Normative نہیں، جس طرح ہندوستان کا ہے، یا امریکا وغیرہ کا ہے۔ جہاں سول و ملٹری تعلقات میں عدم توازن نہیں۔ اور اس وجہ سے کبھی فوجی آمریت آئین آنے کے بعد وہاں کبھی آئی نہیں۔ ہمارا آئین اس لحاظ سے Nominalist ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں یا یوں کہیے کہ سول و ملٹری تعلقات میں عدم توازن ہے اور یہ عدم توازن اور بھی بگڑ گیا جب عمران خان صاحب نے تحریک چلائی اور بگڑ کر وہ اسٹیبلشمنٹ  کے پلڑے کو اور بھاری کرگئے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا آئین سعودی عرب یا قذافی کے نافذ کردہ دستاویز کی طرح Semantic نہیں ہے، یعنی ’’جو چاہے سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا‘‘۔ یعنی بادشاہ سلامت مدعی بھی خود تو منصف بھی خود۔ خود Executive تو خود قانون ساز بھی تو خود قاضی القضا بھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس Nominalist والے زمانے سے 70 سال بعد نکل سکے ہیں یا نہیں؟ ہندوستان نہرو کے مرنے کے بعد Nominalist والے ارتقائی مرحلے سے آگے بڑھ کر بالآخر 1973 کو فیصلہ کرلیا اور اس جنگ کی قیادت سپریم کورٹ آف انڈیا نے کی۔

اس وقت بال دوبارہ  کورٹ میں ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا  ہے کہ کورٹ کا فیصلہ آتے آتے دو سال تو نہیں ڈیڑھ سال گزر جائے اور اس طرح اکیسویں امینڈمنٹ جو 6 جنوری 2017 کو بخود تحلیل ہوجائے وہ چھ مہینے پہلے ہوجائے اور اس طرح فوجی عدالتوں میں آئی ہوئی پھانسیوں Doctrine of Past and Closed Transaction کے تحت Immunity مل جائے کیونکہ پھانسی یافتہ لوگوں کو اس طرح زندہ نہیں کیا جاسکتا جس طرح  پھانسی پائے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ نہیں کیا جاسکتا وہ بھی اپنے آئین کے Nominalist کی پاداش میں Miscaraige of Justice کا شکار ہوا۔ اس وقت یہ ساری مذہبی پارٹیاں ضیا الحق کے ساتھ بغل گیر تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔