تنقید اور تخلیق کی جدلیات

عمران شاہد بھنڈر  ہفتہ 10 جنوری 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

مغرب میں علمی، فکری اور نظری سطح پر جن قضایا کو منطقی انداز میں حل کرلیا جاتا ہے، تو اس کے بعد ان سے پچھلی سطح پر اصرار کرنے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے، بشرطیکہ پہلی سطح کی ایک نئی تشریح اور تعبیر اسے ایک مختلف سطح پر استوار نہ کردے۔ ہمارے ہاں قدامت پسندانہ رویہ محض سیاست، مذہبیت، علمیات یا سماجیات میں ہی نہیںبلکہ فن و ثقافت میں بھی گہرا سرایت کرچکا ہے۔ جہاں منطقی دلائل سے زیادہ انفرادی خواہشات کو اہمیت دی جاتی ہے۔تخلیق و تنقید کے مابین فوقیتی ترتیب اسی انفرادی خواہش کا نتیجہ ہے۔

ناقد اور تخلیق کار کی ثنویت کو حتمی سمجھ کر تخلیق کارکو ناقد پر اہمیت دینا عہد حاضر کے منطقی علوم اور متن میں موجود معنویت سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ حتمی تفریق پر مبنی ثنویت کا تمام فلسفہ ہی ناقابل مدافعت ہوچکا ہے۔ اس پس منظرمیںقضیہ یہ جنم لیتاہے کہ کیا تنقید اور تخلیق دو الگ الگ اصناف ہیں، جن کا آپس میں سرے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہے؟ تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق موجود ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تخلیق کے اندر تنقید پائی جاتی ہے اور تنقید کے بطن میں تخلیق موجود ہوتی ہے۔ ایک اعلیٰ فن پارہ اور ایک اعلیٰ تنقیدی طریقہ کار جو محض تخلیق کار کی منشا و مرضی کا پابند نہ ہو، جو تفہیم، تعبیر اور تخلیقی تشریح کے عمل سے گزرے، حقیقت میں ایک اعلیٰ تخلیق کا ہی نمونہ ہوتا ہے۔

اصلاح کرنا تنقید کی اعلیٰ نہیں بلکہ ادنیٰ سطح ہے۔ اصلاح کرنا تخلیق کار کا اپنا وصف ہے۔ روایتی ناقد ناصحانہ طرز عمل اختیار کرتا رہا ہے، مگر عہد حاضر کے ناقد کا یہ کام نہیں ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تخلیق اعلیٰ تنقیدی بصیرت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی، تاہم یہ تنقیدی بصیرت ایک ناقد کی تنقیدی بصیرت سے مختلف ہوتی ہے۔ایک اعلیٰ تخلیق سماجی ، ثقافتی ، آئیڈیولاجیکل اورجمالیاتی اقدار کی قرأت کا نام ہے،جو کسی بھی اعلیٰ تخلیق کی ہیئت کی پابند ہوتی ہے۔ گہری بصیرت وشعور سے کی گئی قرأت اسے اعلیٰ تخلیق کی سطح پر لے جاتی ہے۔ اعلیٰ تخلیق حقیقت میں جمالیاتی ، ثقافتی ،آئیڈیولاجیکل اور ادبی و سماجی تاریخ کے رد و نمو کا نتیجہ ہوتی ہے، جسے باکمال تخلیق کار اپنی فکری و فنی قوت اپنی تخلیق میں ممیز کرتا ہے۔مذکورہ عوامل کسی تخلیق کار کے سر کے اندر جنم نہیں لیتے، بلکہ وہ انھیں ثقافتی و سماجی تاریخ سے مستعار لیتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ناقد متن پر انحصار کرتا ہے۔

تخلیق کار تنقیدی بصیرت کا اظہار ایک مخصوص ہیئت میں کرتا ہے، اس ہیئت کا تقاضا ہے کہ اس کی تنقید اس کی تخلیق کی پابند رہے۔ ناقد تخلیقی بصیرت کا اظہار اپنے تنقیدی طریقہ کار کے تحت کرتا ہے۔’متن کی سائنس‘ ناقد کی تخلیق ہے۔ وہ متن میں موجود تضاد، تغیر، شگاف ، تسلسل ، ربط اور بے ربطگی تک رسائی حاصل کرلیتا ہے کہ جو تخلیق کار کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ناقد کا ان عوامل تک پہنچنے کا عمل اس کی تنقیدی اور تخلیقی بصیرت کا اظہار ہوتاہے۔

ناقد متن سے وہ معنی برآمد کرتا ہے جو اپنی تشریح وتعبیر کے لیے ناقد کے منتظر ہوتے ہیں۔ شعری و فنی متن کے اندر ناقد بھی اتنا ہی موجود ہوتا ہے جتنا کہ کوئی تخلیق کار! ناقد متن کے اندر کہیں خارج سے اپنی باطنی ضرورت کے تحت نہیں داخل ہوتا، بلکہ معنویاتی سطح پر متن کی داخلی ساخت میں ناقد کی احتیاج کا قضیہ جنم لیتا ہے۔ ہر طرح کے شعری و فنی متن میں تغیرات، شگاف، تضادات اور معنویت کی جوہری سطحیں موجود ہوتی ہیں۔ اس میں تخلیق کار کی لاعلمی کو کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تضاد، شگاف، فتق،  تسلسل اور سگنی فائر اور سگنی فائڈ کی تعین اور عدم تعین سے جڑے عوامل متن کے لازمی اوصاف ہیں۔ تخلیق کے عمل میں تخلیق کار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان عوامل پر اپنی گرفت کو مضبوط کرسکے، مگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ تخلیق کا عمل حقیقی تخلیق سے مختلف ہوتا ہے۔

متن کی تشکیل کے دوران میں جب تخلیق کار شعری و فنی ہیئت میں ان ہی عوامل سے برسرِ پیکار ہوتا ہے تو یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے کہ جب وہ تخلیق اور تنقید دونوں ہی پہلوؤں کے درمیان تفاوت کو ختم کرتا ہوا تخلیق کو وجود میں لاتا ہے۔ لٰہذا اس تناظر میں تخلیق کار نہ صرف ناقد ہوتا ہے بلکہ تنقید اور تخلیق کو اس انداز میں مربوط کردیتا ہے کہ وہ اپنی ہی تخلیق میں ایک اگلی سطح پر تنقیدی شعور کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتاہے۔ شعری و ادبی متن اپنے وجود میں آنے کے بعد ایک اگلے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے۔ اگر تو وہی تخلیق کار اپنے ہی تخلیق کردہ شعری و ادبی متن کی تنقید پیش کرتا ہے تو ہمہ وقت یہی امکان اغلب رہتا ہے کہ کہیں وہ شعری وفنی متن پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنی اسی مرضی و منشا کو ملحوظ خاطر نہ رکھے جو تخلیقی عمل کے دوران اس کا مطمع نظر تھی۔ یہ انداز معنویت کی تخلیق کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔

تنقید، ژاک دریدا کے الفاظ میں، ایک مختلف قسم کی تحریر ہے۔ تنقید شعری و فنی ہیئت سے تو انحراف کرتی ہے مگر شعری و ادبی متن میں تصورات و خیالات کی تشکیل،جمالیاتی اثرات کی رد و نمو، تضادات، فتق و تسلسل ، تغیرات اور شگاف کو صرف دکھانا ہی نہیں بلکہ شعری و فنی متن کی تخلیق کے سماجی و ثقافتی سیاق اور تناظر کے پیش نظر اس میں مضمر تضادات کی تحلیل کرکے انھیں سگنی فائڈ کی سطح پر لانا یا تخلیق کار کی معنویاتی و آئیڈیولاجیکل ترجیح کے احساس کو منہدم کرتے ہوئے اسے ایک اگلی سطح پر استوار کرنا ہوتا ہے۔اس طرح ناقد جمالیات اور منطق کے درمیان ایک کڑی ہوتا ہے، تاہم تخلیقی تشریحات کا سلسلہ متن کی باطنی منطق کا پابند ہوتا ہے، جس کی دریافت کا ذمہ ناقد پر ہوتا ہے۔

شعری و ادبی متن کسی تخلیق کار کی باطنی یا خارجی کائنات نہیں ہوتا، یہ خیال باطلِ محض ہے۔ معمولی سا غوروفکر کرنے کے بعد بھی یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ کوئی بھی فن پارہ ادبی و فنی طریقہ پیداوار، سماج میں آئیڈیولاجیکل اقدارکی پیکار، فن کار کی اپنی آئیڈیالوجی، لسانی اقدار و تشکیلات اور شعری و فنی ہیئت کی ماقبل ’موجودگی‘ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ سب عوامل کسی بھی تخلیق کار کو وراثت میں ملتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ وہ خود کو ان کا خالق تصور کرنے لگتا ہے۔غزل لکھنے کے بعد یہ دعویٰ کرنا کہ یہ مکمل طور پر اسی کی ملکیت ہے اس کی خواہش تو ہوسکتی ہے، مگر حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ غزل بذات خود ایک سماجی، ثقافتی اورتاریخی تشکیل ہے، غزل گو محض ایک وسیلہ ہے ۔ اگر اس کی ہیئت میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے تو اس تبدیلی کی احتیاج خود غزل اور ان تاریخی عوامل میں موجود ہوتی ہے جن کی میں نے اوپر وضاحت پیش کی ہے۔

تنقید اپنی ہیئت میں کسی بھی فن پارے سے مختلف ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی! جب یہ کسی تخلیق کے وسط میں موجود ہو تو تخلیق کے ساتھ ایک جدلیاتی رشتے میں استوار ہوتی ہے۔ جب تنقید اپنی الگ ہیئت یعنی نثر پارے کی شکل میں سامنے آتی ہے تو اس کے اندر تخلیق کا پہلو اسے کسی بھی شعری و فنی تخلیق سے ہم آہنگ کررہا ہوتا ہے، فن پارے کے اندر تخلیقی پہلو سے ہم آہنگی اس کی ہیئت کی پابند ہوتی ہے۔ وہی ہیئت اس میں مضمر تخلیقی پہلو کو سامنے لاتی ہے۔ اس حوالے سے تنقید اتنی ہی تخلیقی ہوتی ہے جتنی کہ کوئی اور اعلیٰ تخلیق! تخلیقی تعبیرات و تشریحات کا تسلسل فن پارے کی تخلیق کا عمل ہے۔اعلیٰ تنقیدی طریقہ کار اپنی سرشت میں توسیع پسند ہوتا ہے۔ وہ متن میں مضمر معنویت کو متن تک محدود نہیں رہنے دیتا۔

اعلیٰ تنقیدی طریقہ کار ایک بار دریافت کرلیا جائے تو وہ کسی بھی شعری و فنی متن کی قائم کردہ تمام حدود کو توڑتا ہوا علم البشریات، سیاسیات، نفسیات، عمرانیات اور فلسفے سمیت دوسرے علوم میں سرایت کرتا ہوا ان علوم میں قائم اقدار کو بھی شکست و ریخت سے دوچار کردیتا ہے۔ جدلیات اور بعد ازاں لاتشکیل ایسے ہی منطقی طریقہ کار ہیں جن کے اثرات سے انسانی علوم کا کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں رہ پایا۔ حتیٰ کہ بیسویں صدی کے آخر میں لاتشکیل کے اس خیال کے تحت فن پارے تخلیق کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں کہ جس کے تحت معنویت کا کلی اثبات ممکن نہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔