لالٹین کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں

انتظار حسین  پير 12 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یہاں روئے سخن عطاء الحق قاسمی کی طرف ہے۔ اور اسی عزیز کی خاطر ہمیں غالبؔ کے شعر میں ایک ننھی سی ترمیم کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ تو عرض ہے کہ   ؎

لالٹین کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

ورنہ شعر تو یوں تھا کہ ؎

کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

اصل میں ہم ایسے وقت میں عطاء الحق قاسمی کا کالم پڑھ رہے تھے جب بجلی اچانک چلی گئی اور پھر اندھیرے میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ کم از کم ہاتھ تو ہاتھ پہ دھرا تھا۔ ورنہ اندھیرا ایسا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ اس لیے کہ بجلی صرف ہمارے گھر کی گئی ہوئی نہیں تھی۔ باہر گلی میں بھی اندھیرا تھا اور اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھی۔ اب بجلی جاتی ہے تو باجماعت جاتی ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ کا فیض ہے کہ ہم اکیلے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتے بلکہ اڑوس پڑوس کے شرفا بھی اور گلی سے گزرتے راہ گیر بھی اس اندھیرے میں ہمارے شریک ہوتے ہیں ورنہ سنتے یہ آئے تھے کہ اندھیرے میں آدمی کا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔

خیر تو مطلب یہ ہے کہ بجلی ایسے وقت میں گئی تھی جب ہم عطاء الحق قاسمی کا کالم  لالٹین دوبارہ پڑھ رہے تھے۔ باقی جن گمشدہ نعمتوں کا اس کالم میں ذکر تھا وہ سب لالٹین ہی کی مرہون منت تھیں۔ جب بجلی کے چلے جانے کی وجہ سے لالٹین اپنی دھیمی روشنی کے ساتھ آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو وہ سب چیزیں جن کا ذکر لالٹین کی تقریب سے آیا تھا نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ اور لالٹین کا ذکر کچھ اس درد مندی کے ساتھ تو کیا تھا کہ بس جیسے اک تیرے میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔

عطاء الحق قاسمی جب اپنی سیاست سے ہٹ کر کالم لکھتے ہیں تو بس کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے کہ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے حالانکہ اس لالٹین سے ہمارا کیا تعلق تھا قاسمی اپنے کمسن بیٹے کو بتا رہے تھے کہ جب وہ وزیر آباد میں رہتے تھے اور ان کی عمر بھی بہت چھوٹی تھی تو گھر میں لالٹین جلتی تھی۔ بجلی ان دنوں نہیں ہوتی تھی۔ اور کمسن صاحبزادے نے حیران ہو کر پوچھا کہ لالٹین کیا ہوتی ہے۔ بس اس استعجاب بھرے سوال نے تیر کا کام کیا جو ہمارے سینے میں آ کر لگا۔

خیر کالم تو ہم نے بجلی کی واپسی پر پڑھ لیا۔ مگر جب ہم اپنا کالم لکھنے بیٹھے کہ قاسمی تو سمجھا نہ سکے کہ لالٹین کیا ہوتی ہے ہم اس کمسن صاحبزادے کو سمجھاتے ہیں کہ لالٹین کیا ہوتی ہے مگر پہلا ہی فقرہ لکھا تھا کہ بدشگنی ہو گئی اور بجلی پھر چلی گئی اس کڑکڑاتے جاڑے میں بجلی اتنی جلدی جلدی جاتی ہے اور اس پھرتی سے جاتی ہے کہ لوڈشیڈنگ کا اعلان شدہ پروگرام بھی منہ تکتا رہ جاتا ہے اور پھر ظالم گیس بھی جواب دے جاتی ہے۔ یک نہ شد دو شد۔ بجلی غائب‘ گیس ندارد۔ یعنی بجلی کا قمقمہ اندھا ہوا تو ہیٹر نے بھی بجلی کا ساتھ دیتے ہوئے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ یعنی اب ہم اندھیرے میں ہیں اور سردی سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔

ارے لالٹین کی یہی تو خوبی تھی کہ اس طرح اچانک ہمیں اندھیرے میں بھٹکتا نہیں چھوڑتی تھی۔ تیل کم بھی ہو جاتا تھا تو ٹمٹماتی رہتی تھی۔ گویا ہم پر جتاتی تھی کہ میری کوئی خطا نہیں ہے۔ تم نے لالٹین جلاتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ تیل کتنا ہے اور کتنی رات تک لالٹین اس کے بھروسے پر ٹمٹماتی رہے گی۔ یہ نئی روشنی کا کرشمہ ہے کہ بجلی کا سارا نظام ہمیں درست نظر آتا ہے مگر جگمگ کرتی بجلی لوڈشیڈنگ کا بہانہ کر کے اچانک چلی جاتی ہے۔ پھر اس کی اپنی مرضی ہے کہ کب آئے اور بیشک رات بھر نہ آئے۔

خیر ذکر لالٹین کا تھا۔ مگر یہ تو ایسا ذکر ہے کہ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ   ؎

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

قاسمی کو آئی جو لالٹین کی یاد تو پھر یاد آتی چلی گئی کہ اور کون کونسی آج کی نعمت تھی جو اس زمانے میں نہیں تھی۔ مگر ہمیں یاد آیا کہ ارے لالٹین بھی تو بعد کی ایجاد ہے۔ انگریزوں کے ساتھ انگریزی آئی۔ انگریزی میں ایک لفظ ہے۔ Lantern۔ اسے ہی ہم نے اپنے حساب سے توڑ مروڑ کر لالٹین بنا لیا۔ تو غالبؔ کی شاعری میں لالٹین کا ذکر نہیں ملتا۔ وہاں شمع کا ذکر ہے یہ تو اس زمانے میں شمع تھی۔ قندیل تھی۔ مشعل تھی۔ ہر ایک کی اپنی روشنی تھی‘ اپنا جادو تھا۔ پھر غالبؔ نے گر یہ کہا کہ   ؎

یادِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

غالبؔ نے کچھ ایسے درد سے یہ بات کہی کہ شمع پھر ہمیشہ ہی کے لیے خاموش ہو گئی۔

اس کے بعد نئی روشنی کا زمانہ آیا اور روشنیاں آئیں تو آتی ہی چلی گئیں۔ لالٹین آئی۔ پھر لیمپ آئے۔ پھر گیس کے ہنڈے آئے۔ اور آخر کے تئیں برقی روائی یعنی بجلی۔ بس بٹن دبائو۔ پھر روشنی ایسے پھیلے گی جیسے دن نکل آیا۔

ہاں ایک ننھی سے روشنی تھی کہ غالبؔ سے پہلے بھی تھی‘ غالبؔ کے زمانے میں بھی تھی۔ لالٹین اور لیمپ آ گئے تب بھی ٹمٹماتی رہی۔ جب ظالم بجلی آ گئی تب بھی اپنے دھیمے انداز میں ٹمٹماتی رہی۔ یہ تھی دئے کی روشنی۔ مگر بجلی کی روشنی اس طرح آئی کہ محلات‘ حویلیاں اور کھاتے پیتے لوگوں کے گھر تو اس سے منور ہو گئے۔ مگر غریب کے گھر میں جو دیا ٹمٹماتا تھا۔ اس کا یہ حال کہ کبھی جلا کبھی نہ جلا۔ پھر یہ صورت احوال کہ بقول اقبال   ؔ؎

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
دہقاں کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

بجلی نے تھوڑے عرصے تک تو خوب اپنا جلوہ دکھایا۔ مگر لوڈشیڈنگ کی آمد نے عجب گل کھلایا کہ عالیشاں گھروں حویلیوں میں تو بجلی اسی طرح دمکتی رہی۔ مگر ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے ان کے گھروں کی بجلی والی روشنی کو لوڈشیڈنگ کی دیمک لگ گئی۔ اب کہنے کو تو بجلی ہر گھر میں پہنچ گئی ہے۔ مگر ہر گھر کی قسمت میں اس سے مستقل منور رہنا ضروری نہیں ہے۔ تھوڑا جلوہ دکھاتی ہے۔ اس کے بعد غائب ہو جاتی ہے۔ یعنی بجلی ہمارے زمانے میں ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتے کہ وہ تو کفر ہے۔ مگر اس کا اقرار کیسے کریں۔ یعنی ہم بجلی کے زمانے میں ضرور رہتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس نئی روشنی سے فیض بھی پاتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کسی شاعر نے جو کسی دوسرے صوبے سے آ کر حیدر آباد دکن میں بس گیا تھا اس قسم کے تجربے سے دوچار ہوا کہ

ہندوستان میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور

بس ہمارا بھی اب کچھ ایسا ہی احوال ہے کہ بجلی کے زمانے میں رہتے ہیں مگر بجلی کے زمانے سے اپنے آپ کو دور پاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔