انسانوں کی تقسیم؟

ظہیر اختر بیدری  اتوار 11 جنوری 2015
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

کہا جاتا ہے کہ دنیا کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں، چار ارب سال کا عرصہ اس قدر طویل ہے کہ اس حوالے سے سوچا جائے تو عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے، ارضی سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر اجرام فلکی کا کوئی بڑا سیارہ اپنے مدار سے ہٹ کر زمین سے ٹکرا جائے یا اس قسم کا کوئی اور حادثہ نہ ہو تو ہماری زمین ابھی تین ارب سال تک زندہ رہے گی، زمین کی زندگی کا انحصار سورج کی زندگی پر ہے اور ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ سورج میں حرارت ابھی تین ارب سال تک برقرار رہے گی۔

ہمارا نظام شمسی سورج کی حرارت پر زندہ ہے، جب سورج اپنی حرارت کھو بیٹھے گا تو ہمارا نظام شمسی یعنی وہ تمام سیارے جو ہمارے نظام شمسی سے جڑے ہوئے ہیں، مرجائیں گے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ہمارے نظام شمسی کے سیاروں میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جس پر زندگی پائی جاتی ہے، زمین پر اگرچہ لاکھوں قسم کے جاندار موجود ہیں لیکن انسان وہ واحد جاندار ہے جو سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، بول سکتا ہے۔ ان ھی خوبیوں کی وجہ سے اس جاندار کو اشرف المخلوقات کا خطاب ملا۔ بلاشبہ انسان ان خوبیوں کی وجہ سے اشرف المخلوقات کا خطاب پانے کا جائز حقدار ہے۔

ان چار ارب سال میں دنیا کتنی بار تباہ ہوئی، کتنی بار آباد ہوئی، اس کے بارے میں اس ترقی یافتہ اشرف المخلوقات کے پاس کوئی علم نہیں لیکن انسان کی معلوم تاریخ جو دس پندرہ ہزار سال پر محیط ہے اس میں انسان نے کیا کبھی سکون و چین کے ساتھ آسودہ زندگی، محبت اور اخوت کے ساتھ گزاری ہے؟ اس سوال کا جواب بدقسمتی سے نفی ہی میں آتا ہے۔

انسان کی معلوم تاریخ خوف، دہشت، جنگوں، نفرتوں، معاشی نا انصافیوں کی تاریخ ہے، کرۂ ارض پر رہنے والے دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں، عالموں نے زندگی کے مختلف پہلوئوں پر دانش ورانہ، فلسفیانہ، عالمانہ جائزے اور فلسفے تو پیش کیے، لیکن آج تک کوئی ایسا نظریہ، کوئی ایسا فلسفہ بہرحال پیش نہ کرسکے جو دنیا کو جنگوں، نفرتوں، تعصبات اور معاشی نا انصافیوں سے نجات دلا سکے۔

اگر کسی نے ایسا کوئی نظریہ یا فلسفہ پیش بھی کیا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ انسان بہرحال آج بھی ان تمام عذابوں سے گزر رہا ہے جن کی فہرست بہت لمبی ہے، لیکن ان عذابوں میں سرفہرست جنگ، ہتھیاروں کا استعمال، نفرت، تعصب، معاشی ناانصافیاں ایسے عذاب ہیں جنھوں نے کرۂ ارض کے اس اشرف المخلوقات کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔

مثال کے طور پر ملک و قوم کے حوالے سے انسانوں کی تقسیم کو لے لیجیے، آج دنیا سیکڑوں ملکوں، سیکڑوں قوموں میں تقسیم ہے اور اس تقسیم نے انسان کو دُکھ ہی دکھ دیے ہیں، سُکھ کوئی نہ دے سکی۔ 1947 سے قبل ہندوستان ایک متحد ملک تھا لیکن 1947 میں دو قومی نظریے کے تحت دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ دو قوموں کے تصور نے انسانوں کے ذہنوں میں جو نفرتوں کا زہر گھولا تھا وہ نفرتیں جب باہر آئیں تو کئی لاکھ انسانوں کو خون میں نہلا گئیں۔

اسی دو قومی نظریے نے کشمیر کے مسئلے کو جنم دیا اور یہ مسئلہ دو قومی نظریے کو مستحکم کرنے اور انسانوں کے خون کو مسلسل بہانے کا وسیلہ بن گیا، اسی مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تین جنگیں ہوئیں، اسی مسئلے کی وجہ سے اب تک 70-80 ہزار کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آج دنیا کو جس ہولناک عذاب دہشت گردی کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ بھی مسئلہ کشمیر ہے۔

جنوبی ایشیا ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے، اس پسماندہ علاقے کے دو پسماندہ ترین ملک ہندوستان اور پاکستان کی آبادی کا لگ بھگ 50 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، اگرچہ اس معاشی ناانصافی کی وجہ ہمارا معاشی نظام ہے لیکن انسانوں کی تقسیم بھی اس معاشی ناانصافی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان قومی مفادات کے تحفظ کا فلسفہ پیدا ہوا اور دونوں ملکوں کو دفاع پر توجہ دینی پڑی، اس دفاع پر بجٹ کا ایک بڑا حصہ ضایع کیا جا رہا ہے جسے اگر ان ملکوں کے عوام کی غربت دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تو لازماً غربت میں کمی آتی لیکن مسئلہ دو قوموں کے تحفظ کا بن گیا۔

اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو دفاع تقسیم نہ ہوتا اور دفاع کے نام پر عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپے خرچ نہ ہوتے۔ ہندوستان کے چین کے ساتھ بھی تنازعات ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہندوستان اور چین دو قومیں دو ملک ہیں اور ان دونوں ملکوں کے ’’قومی مفادات‘‘ کا تحفظ پہلا اور اولین فرض ہے اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج رکھنی پڑتی ہے۔ قوموں کی تقسیم دو آتشہ اس لیے بن گئی کہ اس میں مذہبی تقسیم بھی شامل ہوگئی۔ ہندو، مسلمان، بدھ، انسانوں کی کی ہوئی اس تقسیم نے خود انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔

قوم اور مذہب کی اس تقسیم کے بعد ایک اور بھیانک تقسیم رنگ اور نسل کی ہے، اگرچہ یہ تقسیم واحد فطری تقسیم ہے لیکن اس تقسیم نے بھی انسانوں کے درمیان نفرتوں کی آبیاری کی۔ رنگ اور نسل میں بٹے ہوئے عوام کے مفادات بھی تقسیم ہو گئے اور مفادات کی یہ تقسیم تصادم تک آ گئی۔ کالے، گورے، سانولے سب انسان ھی ہیں لیکن رنگ و نسل نے انھیں نہ صرف الگ کر دیا بلکہ ان کے درمیان نفرتیں بھی پیدا کر دیں۔ مغرب میں رنگ اور نسل کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔ کالوں کو مغربی معاشروں میں ہریجن اور دلت بنا کر رکھ دیا، ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے جو گل کھلائے، مغرب میں رنگ و نسل نے انسانوں کو کمتر اور برتر بنا دیا۔ کالوں کے لیے گوروں کے ہوٹلوں، درسگاہوں، عبادت گاہوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔

نسلی برتری کے بیہودہ تصور نے ہٹلر جیسے فاشسٹ پیدا کیے، نسلی برتری کا تصور انسانوں کو بھیانک جنگوں تک لے آیا۔ ہٹلر جرمن قوم کو اعلیٰ نسل کہتا ہے اور اس حوالے سے یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ اعلیٰ نسل کے لوگوں کو ادنیٰ نسل کے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ ساری دنیا کے عوام رنگ و نسل ملک و ملت کے حوالے سے تقسیم ہیں، انسانوں کی تقسیم کی ایک بڑی وجہ دین دھرم ہے۔

اس تقسیم نے بھی انسانوں کے مفادات تقسیم کر دیے اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کے درمیان مذہبی تقسیم کی ایک ایسی خطرناک خلیج حائل کر دی کہ صلیبی جنگوں، 1947 کی قتل و غارت گری سے لے کر آج فلسطین اور کشمیر تک موجود تقسیم نے لاکھوں انسانوں کی جانیں لے لیں۔ بدقسمتی سے اس تقسیم در تقسیم کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہو رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ مسلمان 72 فرقوں میں تقسیم ہیں۔

آج مسلمانوں کو جس فرقہ وارانہ تقسیم کا سامنا ہے اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ ہم اس دہشت گردی سے کر سکتے ہیں جس کا ایک خطرناک پہلو فقہی تقسیم ہے جس کے حوالے سے مسلمان مسلمان کو اس سفاکی سے قتل کر رہا ہے کہ انسانیت سرمشار ہو گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے اسباب کے پیچھے نفرتوں، عداوتوں کے پیچھے معاشی محرکات ایک بڑا سبب ہوتے ہیں لیکن معاشی محرکات اور مفادات بھی انسانوں کی تقسیم کی وجہ ہی جنم لیتے ہیں انسانوں کی تقسیم کو اگر انسانوں کی شناخت تک محدود کر دیا جائے تو وہ ایسے ظہور پذیر نہیں ہوں گے جن سے پوری انسانی تاریخ لہو لہان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔