ایپی کوائن؛ 25 برس تک غرقاب رہنے والا ارجنٹائن کا قصبہ

ندیم سبحان  پير 12 جنوری 2015
تباہی سے پہلے یہ قصبہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا اور رُبع صدی تک غرقاب رہنے کے بعد پھر ان کی دلچسپیوں کا سامان کررہا ہے۔  فوٹو: فائل

تباہی سے پہلے یہ قصبہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا اور رُبع صدی تک غرقاب رہنے کے بعد پھر ان کی دلچسپیوں کا سامان کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے جنوب مغرب میں ایپی کوائن نامی جھیل واقع تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں لوگ اس خوب صورت جھیل کے کنارے آکر آباد ہونے لگے تھے۔

رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی آبادی نے 1920ء تک باقاعدہ ایک قصبے کی شکل اختیار کرلی تھی جسے جھیل کی مناسبت سے ایپی کوائن کہا جانے لگا تھا۔ جھیل کی کشش دور دور سے لوگوں کو یہاں کھینچ لاتی تھی۔ یوں دھیرے دھیرے یہ قصبہ علاقے کے معروف سیاحتی مقام کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔

1985ء تک ایپی کوائن کا رُخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ ان میں ملکی و غیرملکی سیاح شامل ہوتے تھے۔ ایپی کوائن میں سیاحوں کی دل چسپی کا سب سے اہم سبب یہ جھیل ہی تھی جس کا پانی سمندر سے دس گنا زیادہ نمکین تھا۔ مقامی روایات کے مطابق یہ جھیل قدرتی نہیں تھی بلکہ ایک عظیم سردار کے آنسوؤں نے جھیل کی شکل اختیار کرلی تھی جو اس نے اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں بہائے تھے۔ اسی لیے جھیل کا پانی سمندر سے بھی زیادہ کھارا تھا۔

لیک ایپی کوائن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اس کے پانی میں شفا ہے اور یہ ڈپریشن، گٹھیا، جلدی امراض، انیمیا یا خون کی کمی، یہاں تک کہ ذیابیطس کے علاج میں بھی مفید ہے۔ اسی لیے بڑی تعداد میں لوگ یہاں قائم شدہ اسپاز (spas) میں آکر غسل کیا کرتے تھے۔ بیونس آئرس کے رہائشی بالخصوص یہودی جھیل کے پانی میں پیراکی کرنے کے لیے آتے تھے کیوں کہ یہاں پہنچ کر انھیں بحیرۂ مردار کی یاد آجاتی تھی۔ بحیرۂ مردار کے پانی میں نمکیات کی شرح بہت بُلند ہے جس کی وجہ سے اس کے پانی میں کوئی بھی شے ڈوب نہیں سکتی۔ کچھ یہی معاملہ جھیل ایپی کوائن کا بھی تھا۔

اُس زمانے میں اس قصبے میں معاشی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ یہاں 300کے لگ بھگ دکانیں، گیسٹ ہاؤسز، لاجز اور ہوٹل قائم تھے۔ تاہم 1985ء میں سب کچھ ختم ہوگیا۔ اُس برس ارجنٹائن میں شدید بارشیں ہوئی تھیں۔ مسلسل برستی بارشوں نے خوف ناک سیلاب کی صورت اختیار کرلی تھی۔ دارالحکومت کی جانب سے آنے والا سیلابی ریلا جھیل میں داخل ہوا۔ جو موسلادھار بارش کے سبب پہلے ہی کناروں تک بھرچکی تھی۔ سیلابی ریلا آیا تو جھیل کا پانی بھی اس میں شامل ہوکر حفاظتی پُشتے کو روندتا ہوا قصبے میں داخل ہوگیا اور ہر طرف تباہی مچادی۔ قصبے کے مکین عجلت میں تھوڑا بہت اسباب لے کر بلندی کی طرف نکل بھاگے۔

نشیب میں واقع ہونے کی وجہ سے قصبے میں پانی کی سطح چڑھنے لگی۔ اور چوبیس گھنٹوں میں قصبہ مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکا تھا۔ دور سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں کبھی تعمیرات موجود ہی نہیں تھی۔ محض سیلِ رواں تھا جس میں ہر شے بہہ گئی تھی اور جو اپنی جگہ پر قائم تھیں وہ پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ اُس زمانے میں شائع ہونے والی خبروں سے پتا چلتا تھا کہ قصبے میں پانی کی سطح دس میٹر (33 فٹ) تک بلند ہوگئی تھی۔ یوں کئی عشروں تک مقبول سیاحتی مرکز رہنے والا قصبہ غرقاب ہوگیا۔

ایپی کوائن کی رہائشی نورما برگ آخری لمحات تک قصبے میں موجود تھی۔ قصبے کی تباہی کے مناظر آج بھی اس کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔’’میں نے کتے اور بلیاں پال رکھی تھیں۔ سیلاب آنے سے دو دن پہلے یہ سارے جانور اچانک گھر سے بھاگ گئے۔ میرے خیال میں انھیں علم ہوگیا تھا کہ قصبے پر تباہی نازل ہونے والی ہے۔ دو دن بعد قصبے کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔‘‘

سیلاب آنے کے چند ہفتوں کے بعد پانی اُترنا شروع ہوا مگر اس کی رفتار بے حد کم تھی۔ اس کا سبب ایپی کوائن کا نشیب میں واقع ہونا تھا۔ پانی کے نکاس کا کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ بُخارات بن کر اُڑتا رہے۔عمل تبخیر اپنی رفتار سے وقوع پذیر ہوتا رہا، اور پانی کی سطح نیچے آتی رہی۔ مگر بارش ہونے کی صورت میں پانی کی سطح پھر بلند ہوجاتی تھی۔

بہرحال 25 برس کے بعد ایپی کوائن دوبارہ سطح ارض پر نمودار ہوا، مگر اس طرح کہ یہاں تعمیر شدہ مکانات اور عمارتوں کے صرف کھنڈرات ہی باقی رہ گئے ہیں۔ قصبے کی گلیوں میں اُگے ہوئے سرسبز درختوں کی ٹُنڈ مُنڈ باقیات ہی بچی ہیں۔ ہر طرف مکانات کا ملبہ بکھرا ہوا ہے اور گلیوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ قصبے کی تباہی کے مناظر اتنے ’ پرفیکٹ ‘ ہیں کہ ہالی کا ہدایت کار مارکس ایفرون اپنی فلم And Soon The Darkness کے کچھ مناظر یہاں فلمانے پر مجبور ہوگیا تھا۔

تباہی سے پہلے بھی یہ قصبہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا اور رُبع صدی تک غرقاب رہنے کے بعد پھر ان کی دل چسپیوں کا سامان کررہا ہے۔ پہلے سیاح لیک ایپی کوائن میں تیرا کی کرنے کے لیے آتے تھے، اب وہ قصبے کی تباہی کا نظارہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کی دل چسپی قصبے کے چند پُرانے مکینوں کے لیے ذریعۂ روزگار بن گئی ہے جو اپنی راہ نمائی میں سیاحوں کو تباہ شدہ قصبے میں گھماتے پھراتے ہیں اور گلی کُوچوں سے جُڑی یادیں بھی انھیں سناتے جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔