ہم خوفزدہ کیوں ہیں

عبدالقادر حسن  پير 12 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک دہشت ناک المیہ یہ بھی ہے کہ پوری قوم اپنی زندگی میں پہلی بار خوف میں مبتلا ہو گئی ہے اور پے در پے حادثوں اور خون ریزی کے واقعات سے دلوں کے اندر میں ایک دہشت اور خوف پیدا ہو گیا ہے اور زندگی کے بارے میں پرانا پرامن تصور بھی بدلتا جا رہا ہے۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ گھر میں بچے آپس میں باتیں کر رہے تھے اسکول کی، جو آج کھل رہے ہیں۔ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ بچی نے بھائی سے پوچھا کہ تمہارے اسکول میں دہشت گرد آ گئے تو تم کیا کرو گے۔

اس نے جواب دیا کہ میں شہید ہو جاؤں گا۔ بچے کو شہادت کے مفہوم کا تو علم نہیں تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان جب کسی حادثے میں مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے اس لیے وہ بھی اپنے آپ کو شہید تصور کر رہا تھا۔ بچوں کے یہ سوال و جواب سن کر خود ان کا باپ دہشت زدہ ہو کر رہ گیا۔ جو معصوم بچے اپنی زندگی کے بارے میں ابھی سے یہ تصور رکھتے ہوں اور اسے ایک ناپائیدار اور قاتلوں کے رحم و کرم پر سمجھتے ہوں وہ بڑے ہو کر کیا کریں گے، وہ بھی ایک خوفزدہ فرد کی حیثیت سے اپنی پہلے سے خوفزدہ قوم میں شامل ہو جائیں گے۔ ایسے قومی سطح کے المیے کا کبھی کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ قوم امیر تھی یا غریب معمول کی ایک زندگی بسر کر رہی تھی۔ ملازمت یا کاروبار میں مصروف تھی جو ملتا تھا اور جو قسمت میں ہوتا تھا وہ کھا کر رات کو سو جاتی تھی اور صبح اپنے کام پر چلی جاتی تھی لیکن یہ دل میں ایک جاندار قوم تھی۔

دوستیاں بھی رکھتی تھی اور دشمنیاں بھی پالتی تھی۔ ایک خطرناک اور چالاک دشمن اسے اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مل گیا تھا اور دشمن بھی ایسا جو اسے صرف زیر نہیں ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ سرزمین ہندوؤں کی یعنی ہندو قوم کی زمین تھی اور یہاں کہیں مسلمانوں کا ایک ملک بن جانا ایک غیر معمولی اور ناقابل برداشت واقعہ تھا، ایسا جیسے مسلمانوں نے اس زمین کے ایک ٹکڑے کو اس سے چھین لیا تھا اور اب اسے واپس لینا تھا چنانچہ اس پروگرام اور مقصد کے تحت بھارت نے پاکستان کو اپنا بہت بڑا دشمن سمجھ لیا اور جب بھی موقع ملا اس کا اظہار بھی کرنے لگا ۔ جواب میں مسلمانوں کے پاکستان نے بھی اپنے بچاؤ کے لیے ساز و سامان کے علاوہ اپنی قوم کو بھی اس پیدائشی دشمن کے مقابلے کے لیے تیار رکھا۔ بھارت کی اس دشمنی نے پاکستان کی آزادی اور اس کے استحکام میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ دشمنی قوموں اور انسانوں کو زندہ رکھتی ہے اور ان کے اندر مقابلے کا جذبہ اور طاقت پیدا کرتی ہے۔

نظر بظاہر بھارت اور پاکستان کا کوئی مقابلہ نہ تھا، رقبے آبادی اور عالمی تعلقات میں اسے برتری حاصل تھی اور یہ سب پاکستانی قوم کو معلوم تھا اور اس دشمنی کا ذرہ ذرہ اس پر روشن تھا اور وہ اس کے مقابلے میں زندہ رہنے کے لیے ہمیشہ سربکف رہی۔ ایک عام پاکستانی ہمیشہ بہادری اور خودی کی زندگی بسر کرتا رہا اس پر کسی کا کوئی خوف نہیں تھا بلکہ پاکستان اپنے محل وقوع اور افرادی قوت میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔کیا خود ہمیں اور دنیا کو یاد نہیں کہ سوویت یونین کے ہمیشہ ہمیشہ کے خاتمے میں پاکستان کا کتناکردار تھا۔

دکھ کی بات ہے کہ ہمارے اکثر دانشور نہ صرف یہ کہ اس کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ اسے ضیاء الحق کی ایک زبردست پاکستان دشمنی اور حماقت سمجھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ لوگ اس تاریخ کو جھٹلاتے ہیں جو ہم سب کی دیکھی بھالی ہے۔ نام امریکا کا لیا جاتا ہے کہ یہ سب اس نے کیا تھا لیکن وہی امریکا جو پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے اب سر جھکا کردم دبا کر افغانستان سے بھاگ رہا ہے جیسے اس سے پہلے دو سپر پاور یہاں سے بھاگ چکی ہیں۔ بلاشبہ جدید ہتھیاروں میں امریکا کی مدد حاصل تھی لیکن اصل طاقت افرادی طاقت پاکستان کے پاس تھی یا افغانستان کے پاس بہر حال ہم پاکستانیوں نے اپنی کمزوری کے باوجود بڑے معرکے سرانجام دیے ہیں جن کا بھارت سوچ بھی نہیں سکتا وہ تو پڑوسی چین کے خوف سے کانپتا رہتا ہے۔

بات یہ ہے کہ پاکستان جس حال میں بھی رہا کمزور یا طاقت ور وہ کبھی خوفزدہ نہیں رہا بلکہ دشمن کا سامنا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا۔ عظیم المرتبت پاکستان کو اگرکبھی مار پڑی تو اپنوں سے، مشرقی پاکستان کا سقوط اپنوں کی بزدلی اور سازش کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے اندرا گاندھی نے بڑے بڑے دعوے کیے کبھی اسے ہزار سالہ غلامی کا انتقام قرار دیا اور کبھی نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا اعلان کیا۔ اندرا کو یہ موقع ہمارے غداروں نے دیا اور ہمارے اکثر سیاستدانوں اور دانش وروں نے اس کی کئی دوسری وجوہات بیان کیں اور ابھی تک کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری اس پردہ پوشی نے ہمارے اپنے غداروں کی حوصلہ افزائی کی اور وہ اب تک قوم کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔

ہماری حکومتوں نے قومی حمیت سے لاتعلقی سے قوم کا مزاج ہی بگاڑ دیا اس کی سوچوں کو بڑی حد تک بدل دیا اور ذہنوں کو ماؤف کر دیا۔ جب ہم بھارت کے مقابلے میں کھیل کا کوئی میچ جیت جاتے ہیں تو قوم کے اندر سویا ہوا  پاکستان جاگ اٹھتا ہے اور پھر حکمرانوں کی بزدلی اور نااہلی کی نذر ہو جاتا ہے۔

اب ملک پر دہشت گردی کا بھیانک سایہ چھایا ہوا ہے اورہمارے سیاستدان سیاسی طور پر اس کا کوئی علاج نہیںکر رہے، ہمارے بچے شہید ہو جاتے ہیں ہم صرف سوگ میں ڈوب جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں نہیں ہلاتے، صرف ایک فوج ہے جو اس صورت حال کے خلاف جنگ آزما ہے۔ ہمارا کوئی معصوم بچہ اپنی بہن سے کہتا ہے کہ میں اسکول جا کر شہید ہو جاؤں گا کیونکہ دہشت گرد میرے اسکول پر حملہ کر دیں گے اس سے زیادہ کیا عرض کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ ہمارا نیا ذہن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔