شہنشاہِ سمفنی،بیت ہافن

تشنہ بریلوی  پير 12 جنوری 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

اڈولف ہٹلرغصے سے پاگل ہورہا تھا۔اُس کے سامنے آسٹریاکاچانسلرفان شوشنگ کھڑاتھاجوہٹلرکے شاندارمحل ’’برگ ہاف‘‘ میں مہمان کے طور پرموجود تھا۔

فان شوشنگ کوجرمنی کے چانسلر(اورفیوہرر)ہٹلر نے مدعوکیا تھا۔ایک اہم معاملے پرگفتگو کرنے کے لیے ، لیکن جب بات چیت شروع ہوئی توفان شوشنگ سرپھرا ثابت ہوا۔ ہٹلرتوصرف اُس کے ملک کو ہڑپ کرناچاہتا تھا لیکن آسٹریاجیسے حقیرملک کاچانسلراتنی معمولی سی بات کو سمجھنے اور تعاون کرنے سے گریزکر رہا تھا۔

ہٹلراُسے مستقل شوشنگ کہہ کرمخاطب کر رہا تھا اورلفظ’’فان‘‘کو جان بوجھ کر نظر اندازکر رہا تھا جو طبقہ اشرافیہ کا اعزاز ہے۔اس طرح وہ اپنے مہمان کی توہین کر رہا تھا۔ یہ بھی ہٹلرکا ایک نفسیاتی حربہ تھا۔ ہٹلر نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ آسٹریاکی سابق ہابزبرگ (Habsburg) سلطنت نے جرمن تہذیب وثقافت کو ترقی دینے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ فان شوشنگ یہ تنقید برداشت کرنے کے لیے تیارنہیں تھا۔اس نے جواب میں کہا کہ آسٹریا نے تو جرمن آرٹ اورکلچرکوآگے بڑھانے کے لیے بہت کام کیا اور بیت ہافن (BEETHOVEN) جیسا عظیم موسیقار بھی پیدا کیا۔

یہ سُن کرہٹلر آپے میں نہ رہا۔ اوراس نے زوردے کرکہا کہ بیت ہافن آسٹریاکا باشندہ نہیں تھا وہ مکمل طور پر جرمن تھا اوراس کا تعلق جنوبی رائن لینڈ (RHINELAND) سے تھا۔ شوشنگ نے جواب میں یہ موقف اختیارکیاکہ بیت ہافن آسٹریائی شہری بن گیا تھا اورمیترنخ (METTERNICH) کی طرح ، جو رائن لینڈ ہی میں پیدا ہوا تھا۔مقدس اتحاد(HOLY ALLIANCE) کاغیرمقدس رہنما میترنخ ہٹلر کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔ لیکن عظیم بیت ہافن کی بات ہی کچھ اورتھی اس لیے کہ وہ ’’باخ‘‘اور’’برامز‘‘کی طرح جرمن موسیقی کے دیوتاؤں میں شمار ہوتا تھا۔ ہٹلرکی کامیابی میں واگنر WAGNER کے مرکزِ موسیقی (FESTSPIELHAUS) سے اُبھرنے والی جوشیلی موسیقی کا بڑا ہاتھ تھا اور’’واگنر‘‘خود بھی بیت ہافن سے بہت متاثر تھا۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ فروری 1938 میں اس ملاقات کے موقعے پر سارے یورپ پرجنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ لیکن ان حالات میں بھی ہٹلراورشوشنگ ایک ایسے موسیقار کے بارے میں گرماگرمی سے بات کر رہے تھے جوبہت پہلے انتقال کرچکاتھا۔ یہ توبالکل ایساہی تھاکہ پاکستان کے نواز شریف اورہندوستان کے نریندرمودی اپنی ملاقات میں پنجاب کے نامورگلوکار’’سہگل‘‘ کے بارے میں بحث کرتے کہ وہ پاکستان کا شہری تھا ‘یاہندوستان کا۔ مگرہٹلر اور شوشنگ کا یہ طرزِعمل حیرت انگیزنہیں تھا اس لیے کہ موسیقی تو جرمن لوگوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔

مزید برآں بیت ہافن پر تو ہالینڈاور بیلجیم بھی حق جتا سکتے تھے کیونکہ اس کا فلیمش دادا بلجیم سے جرمنی ہجرت کرگیا تھا اوربیت ہافن نے اپنا بچپن ہالینڈ میں گذارا تھا۔ اس کا پورا نام تھا LUDWIG VAN BEETHOVEN ۔ َیہاں ”VAN” ڈچ زبان کالفظ ہے۔’OF’ کے معنی میں۔ جب کہ جرمن زبان کا لفظ”VON’ جو بیت ہافن کے خاندان نے کبھی استعمال نہیں کیا۔

وہ 1770 میں پیدا ہوا اس کے خاندان میں سب گلوکارتھے اورخیال تھاکہ وہ خودبھی گلوکار بنے گا لیکن اسے گانے کے بجائے پیانو بجانے کاشوق تھا اوراس فن میں اس نے زبردست کمال حاصل کرلیا۔ پھر17 سال کی عمر میں اس کو ویانا بھیجاگیا تاکہ وہ عظیم موسیقارMOZART موتسارت کا شاگرد بن جائے۔ اس کے بعد بیت ہافن کو ایک اورعظیم موسیقارہیدن HAYDN سے بھی سیکھنے کا موقع ملا۔اِس تعلیم نے اس کی بنیاد سازوں کی موسیقی CLASSICAL INSTRUMENTAL MUSIC کے میدان میں بہت مضبوط کردی ۔ہیدن نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ لڑکا ایک عظیم موسیقار بنے گا۔

رومانی دریا بلیو ڈینیوب پر واقع آسٹریا (OSTEREICH)کا خوبصورت پایہ تخت ویانا اب مختلف نسلوں اورتہذیبوں کا سنگم تھا اور موسیقی کا سب سے بڑا مرکز۔ یہاں بیت ہافن نے ’’پیانو‘‘بجانے سے اپنا کیرئیرشروع کیا اورکامیاب ہوا۔ اُس کے کنچر تو(CONCERTO) بہت پسندکیے گئے۔ اٹھارویں صدی کے اختتام سے پہلے ہی وہ 20 سوناتاSONATA پیانو کے لیے،کئی کوارٹٹ QUARTET دوقابلِ تعریف سمفنیاںSYMPHONY اورکئی کنچرتوCONCERTO پیش کرچکا تھا۔

بیت ہافن کاایک میوزیکل ڈرامہ فیدیلیو(FIDELIO) جرمن تھیٹرکی کلاسک میں شمار ہونے لگا۔ یاد رہے کہ آرکسٹرا مختلف قسم کے سازوں کا مجموعہ ہے جو ایک بڑے ہال میں ایک ساتھ بجائے جاتے ہیں۔ سمفنی ایک طویل آرکسٹرا پیش کش ہے جس کے کئی حصے ہوتے ہیں ۔ کنچر تو آرکسٹرا کے کسی خاص ساز کے لیے ہوتا ہے۔ سوناتا وہ دُھن ہے جو صرف ایک ساز خصوصاً پیانو کے لیے تیار کی جاتی ہے۔

بیت ہافن ایک انقلابی تھا۔ فرانسیسی انقلاب کا اس پر بہت اثر ہوا تھا۔ وہ روشن خیال اورانسان دوست تھا اوراس کی سمفنیوںکی تیزدُھنوں (ALLEGRO) میں انقلاب کی گھن گرج نمایاں تھی۔ وہ نپولین سے بھی بہت متاثر ہوا تھا اور اس نے اپنی تیسری سمفنی(EROICA) فرانس کے اس’’ہیروئک‘‘ جنرل کے نام کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جب جزیرۂ کورسیکا کا وہ پستہ قامت سپاہی 1804 میں بادشاہ بن گیا تو بیت ہافن کو بہت غصّہ آیا کہ اس طرح نپولین نے انقلابِ فرانس کے ساتھ غدّاری کی۔

1808 میں بیمار بیت ہافن ویانا کے موسیقاروں سے ناراض ہوگیا اوراس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ویانا سے چلاجائے گا لیکن موسیقی کے پرستاروں نے اس کی ہرشرط مان کر اسے منا لیا۔

عورتوں کے ساتھ بیت ہافن کے تعلقات کیسے تھے ؟عاشق مزاج تو وہ بھی تھا لیکن قدرے شرمیلا، جب کہ شرمیلا عاشق تو عورتوں کو پسند نہیں ہوتا ۔وہ اپنی ایک خوبصورت شاگردہ’’جولیت‘‘ پرمرمٹا اور اپنا’’مون رائٹ سوناتا‘‘اُس کے نام کردیا۔لیکن جب اس نے پروپوزکیا تو ناکام ہوا اس لیے کہ ’’جولیت‘‘اس کی موسیقی کو تو بہت پسندکرتی تھی لیکن ایک ’’سمجھ دار‘‘خاتون کی طرح اس نے ایک ’’چاق وچوبند‘‘کاؤنٹ سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس ’’بیوفائی‘‘کو بیت ہافن نے اپنی دوسری ٹریجیڈی قراردیا ۔پہلی ٹریجیڈی اس کا بہرہ پن تھا۔ بیت ہافن کسی خاتون کو اپنی بیوی نہ بناسکا۔

1810 میں اس نے اپنی پانچویں سمفنی مکمّل کی جوماڈرن آرکسٹرا کا اہم حصّہ ہے، دوسری جنگِ عظیم کے دوران اس سمفنی کی دُھن BBC کی طرف سے جرمن مقبوضہ علاقوں میں نشریات کے لیے استعمال کی جاتی تھی ۔اورجب 1942 میں جرمنی کی چھٹی فوج(SIXTH ARMY) نے اسٹالن گراڈ میں ہتھیار ڈالے تو جرمن ریڈیو پر یہ المناک خبر اسی سمفنی کی غمگین دُھن کے ساتھ پیش کی گئی۔

بیت ہافن کی تیسری ٹریجیڈی اس کا بھتیجا’کارل‘تھا جو اپنے باپ کی وفات کے بعد بیت ہافن کی نگرانی میں آگیا تھا ۔چچا بھتیجے کی ’’کمسٹریاں‘‘ بالکل مختلف تھیں ۔ پھر کارل نے خودکشی کی کوشش کی۔ بیت ہافن نے اپنے بھتیجے کی حالت کا خود کو ذمے دارٹھہرایا اور بیحد پریشان ہوا۔ایک سال ہی کے اندر وہ عظیم موسیقار بھی1827 میں دنیا سے یہ کہتا ہوا رخصت ہوگیا ’’تماشا ختم ہوا۔‘‘

بیت ہافن کے انتقال کے 150 سال بعد اس کی بے مثال نویں سمفنی کا کورس َ یورپین کمیونٹی کے قومی ترانے کے طورپرقبول کرلیا گیا۔چند دہائیاں پہلے ایک اور’سرپھرے‘آسٹریائی باشندے نے کروڑوں کو قتل کرا کے سارے یورپ کو فتح کرنا چاہا تھا اور پھرخودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ مگراب یہ آسٹریائی موسیقار زندگی، محبت اور انسانی اخوّت کا پیغام دے کر سارے یورپ بلکہ ساری دنیا کو فتح کرچکا تھا۔اوراس نے جونظم چُنی وہ شیلر ہی کی ولولہ انگیزتخلیق ’’قصیدۂ مسرّت تھی۔ چندلائنیں جرمن زبان سے اُردو میںترجمہ کے طورپر:

Freude,Tochter aus ELYSIUM
Deine Zauber bindet wieder
’’مسرّت‘‘ اے خدا کی زندہ نعمت
تیرے جلووں سے دنیا جگمگائے
تیری نسبت تو ہے عرشِ بریں سے
کرن اُمید کی تو بن کے آئے
ترے نازک پروں کی سرسراہٹ
محبت کے نئے نغمے سنائے
ستاروں سے بھرا یہ شامیانہ
خدائے مہرباں کی حمد گائے
(تشنہؔ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔