عوام جمہوری اور معاشی غلام (پہلا حصہ)

خالد گورایا  پير 12 جنوری 2015
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

عالمی امریکی سامراج کے معاشی غلام ملکوں کی اشرافیہ Aristocracy(ٹرائیکا) جتنا جمہوریت کو عوامی مسائل کے حل کے لیے نسخہ تیر بہدف قرار دیتی ہے۔ اگر جمہوریت نہ رہی تو ملکی ترقی رک جائے گی۔ اگرآمریت آئی تو جمہوریت اور آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ پاکستان کے تمام وسائل پر اشرافیہ (ٹرائیکا) ہی قابض چلی آرہی ہے۔

آمریت میں اشرافیہ ہی پوری طرح شامل ہوتی ہے۔ پاکستان کی ’’سیاسی کشمکش‘‘ میں مخصوص اشرافیہ (ٹرائیکا) کے گروپ اقتدار کے لیے ہی آپس میں دھکم پیل کرتے آ رہے ہیں۔ ’’سیاسی کشمکش‘‘ کو کسی طور بھی’’طبقاتی کشمکش‘‘ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ کشمکش RMSیعنی ’’امراء کی باہمی کشمکش‘‘ (Riches Mutual Struggle) ہے۔ پاکستان جیسے کئی ممالک بھی اسی مشکل سے دوچار ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کے ساتھ شہری آبادیوں والا بھی ملک ہے۔

شہروں میں صنعتی کلچر تجارتی کلچر، بینکنگ کلچر، تعلیمی اداروں کا کلچر اور حکومتی انتظامی اداروں کا کلچر ہے۔ تمام اہم اداروں کے سربراہ تقریباً جاگیردار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر کی آبادی میں مزدوروں، درمیانے، نچلے درمیانے درجے کے پڑھے لکھے باشعور شہریوں کی آبادی کی نمایندگی ایم کیو ایم کر رہی ہے۔ پاکستان میں کئی سیاسی پارٹیاں، کئی مذہبی گروپ ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک ودیگر کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونا ہی دراصل ’’امرا کی باہمی کشمکش‘‘ (رمس) RMSکی شکل ہے۔ اس کشمکش کا صرف اور صرف یہ مقصد ہوتا ہے۔

عوام کو دھوکے میں رکھ کر عوام کا ووٹ لے کر ریاستی وسائل اور حکومتی اداروں پر قبضہ و اختیار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جاگیردار اپنے اپنے حلقوں میں ذاتی ملکیتوں، زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں سے اپنے ’’مالکانہ اثر کا دباؤ‘‘ تھانہ کچہری کی شکل میں استعمال کرکے ووٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ہاریوں کے سروں پر بے دخلی، تھانہ کچہری، دیگر معاملات زندگی میں جاگیرداروں کا اثر و رسوخ کا خوف تلوار کی طرح ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ زرعی غلامی کے نتیجے میں پاکستان کے دیہاتوں میں زیادہ تر اسکولوں کی عمارتوں کو جانوروں کے اصطبلوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وڈیرے، سجادہ نشین، متولی، ملک، خان، نواب نہیں چاہتے کہ ہاریوں کے بچے پڑھ کر باشعور ہوکر غلامانہ سسٹم سے آزادی کی راہ پر چل پڑیں۔

پاکستان کی پوری تاریخ میں صوبائی، قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں جاگیرداروں کی اکثریت نظر آتی ہے۔ 14 اگست 2014سے دسمبر 2014 تک تحریک انصاف نے اسلام آباد ڈی چوک میں مسلسل دھرنا دیا۔ طاہر القادری نے بعد میں دھرنا ختم کردیا۔ ان دھرنوں کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تمام پارٹیاں آن کر مل گئیں۔ کیونکہ طاہر القادری نے دس نکاتی معاشی نکات پیش کردیے تھے اور عمران خان ہر روز ’’انصاف‘‘ کو سب کے لیے برابر کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اور سب سے بڑا نعرہ جو عمران خان نے لگایا کہ پورے ملک میں الیکشن 2013 میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔

دھرنوں میں شریک غریب عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ طاہر القادری اور عمران خان نے عوام کو ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر مژدہ سنایا کہ وہ عوام کو محرومیوں سے نجات دلانے کے لیے انقلاب مارچ، آزادی مارچ کرنے آئے ہیں۔ طاہر القادری اور عمران خان نے بعد میں شہروں میں بڑے جلسے کیے اور پھر 16 دسمبر2014 کو پشاور میں وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے 134معصوم بچوں سمیت اسکول کے عملے کے9افراد کا قتل عام کیا۔ اس خوں ریزی، بربریت و قتل و غارت کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اس ظالمانہ واقعے نے پورے عوام کو صدمے سے دوچار کردیا۔

2001ء کے بعد سے آج تک ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اداروں کے ملازمین، عوام کی تقریباً 60ہزار جانوں کو اس درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان نے اس واقعے کے بعد ڈی چوک اسلام آباد میں تحریک انصاف کا دھرنا ختم کردیا۔ پاکستان بننے سے آج تک خواہ (اشرافیہ) ٹرائیکا کی حکومتیں یا مارشل لا کی قیادت میں (اشرافیہ) ٹرائیکا کی بننے والی حکومتیں ہوں کسی نے بھی عوام کو معاشی خوشحالی نہیں دی۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے جاگیردار اسمبلیوں میں اکثریت میں آتے ہیں۔ شہروں سے سرمایہ کار جو جاگیردار بھی ہیں اسمبلیوں میں آتے ہیں۔ دو بڑی پارٹیاں اور ان کی اتحادی پارٹیاں کبھی اقتدار یا کبھی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی آرہی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کو معیشت، سیاست کو جمہوریت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہا اور ساتھ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ مارا اور پیپلز پارٹی نے سابقہ مغربی پاکستان اور موجودہ پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی۔ غریب عوام کے ووٹوں کی قوت سے اقتدار، اختیارات حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی نے نہ قومی اسمبلی، نہ ہی صوبائی اسمبلی کی کسی سیٹ پر غریب عوام میں سے کسی شہری، فرد کو پارٹی پلیٹ فارم سے ٹکٹ دیا۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) یا دوسری ٹرائیکی پارٹیاں ہوں۔ کسی نے بھی اکثریتی غریب عوام کو اقتدار اور اختیارات میں شریک نہیں کیا۔ عوام جو جنرل سیل ٹیکس اور دیگر کئی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ ان کو حکومتی اختیارات، مالیات، انتظامی معاملات سے دور بے دخل اور لاتعلق رکھا گیا۔

جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام پر موجودہ پاکستان میں 1962سے 1966 تک 40 ہزار نمایندوں کے ذریعے صوبائی، قومی اسمبلی کے لیے نمایندے منتخب کرائے تھے۔ بنیادی جمہوریت کے نام پر یونین کونسل کی سطح پر بڑے زمینداروں کو ہاریوں نے چیئرمین منتخب کیا تھا اور ان 40 ہزار بڑے زمینداروں، سرمایہ کاروں نے صوبائی، قومی اسمبلی کے ممبر چنے تھے۔ اس طرح جنرل ایوب خان نے جڑ سے ہی غریب عوام کو ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے پلیٹ فارم سے حق اقتدار سے محروم کردیا۔ تمام تر اختیارات زمینداروں، جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کے پاس رہے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام میں ناظم کا عہدہ چیئرمین کی جگہ متعارف کرایا۔ سٹی ناظم، ٹاؤن ناظم کے نام پر جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ کاروں کو مالیاتی، انتظامی اختیارات کا مالک بنادیا گیا۔

اس طرح جتنی پارٹیاں آج موجود ہیں ان سب کے مالک عہدے دار جاگیردار، بڑے زمیندار، سرمایہ کار لوگ ہیں۔ یہ لوگ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ودیگر پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر عوام کو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جھوٹے خواب دکھا کر جھوٹے وعدے کرکے عوام سے ووٹ کی شکل غیر اعلانیہ Power of Attorney لینے کے چکر میں ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ “Riches Mutual Struggle for Monetary Power” یعنی امرا کی باہمی کشمکش برائے مالیاتی اقتدار و اختیارات کے لیے ہے۔

اسے طبقاتی کشمکش نہیں کہہ سکتے۔ اس امرا کی سیاسی کشمکش میں ہمیشہ سیٹیں امرا ہی حاصل کرتے ہیں۔ غریب عوام کا کوئی فرد ان کی پارٹیوں کا بڑا عہدیدار اور اسمبلیوں میں موجود نہیں ہے۔ امرا کی باہمی لفظی جنگ دراصل دوستانہ جنگ ہوتی ہے۔ اس میں جو پارٹی عوام کو بے وقوف بناکر زیادہ سیٹیں لے لیتی ہے۔

اس کی تمام اشرافیہ حکومت کرتی ہے اور کم ووٹ لینے والی پارٹی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ سسٹم کے تحت چلنے والے تمام ملکوں میں عوام بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں میں عوامی طبقاتی کشمکش Public Class Struggle یا Public Class War کسی نہ کسی طرح ہو رہی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طبقاتی کشمکش کو ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے، جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے پلیٹ فارم سے اور نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد اور مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے ہائی جیک کیا اور عوام کو دھوکا دے کر اختیارات و اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان کی گزشتہ تاریخ اس کی گواہ ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہی امریکا نواز بیوروکریسی نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان شہید کو گھیر لیا تھا اور پاکستان کو امریکا کے مفاد کے تابع کردیا تھا۔

(جاری ہے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔