آئی ایم ایف، ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمّے دار!

غ۔ع  پير 12 جنوری 2015
مالیاتی ادارے کی پالیسیاں ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنیں، تحقیقی رپورٹ فوٹو: فائل

مالیاتی ادارے کی پالیسیاں ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنیں، تحقیقی رپورٹ فوٹو: فائل

مغربی افریقا میں ایبولا وائرس کی ہلاکت خیزی جاری ہے۔ دسمبر 2013ء میں پھوٹنے والی مہلک وبا اب تک آٹھ ہزار سے زائد جانیں لے چکی ہے۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں لائبیریا، سیرالیون اور گنی میں ہوئی ہیں۔ ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں کی شرح 70 فی صد ہے۔ عالمی اداروں کی جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق چند روز قبل تک ان ممالک میں ایبولا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار سے زائد تھی۔ اس ہلاکت خیز وائرس کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا، چناں چہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

ایبولا وائرس کی وبا پہلی بار 1976ء میں پُھوٹی تھی، اور اُسی برس یہ وائرس دریافت ہوا تھا۔ دریافت کے بعد سے اب تک کئی بار ایبولا کا عفریت انسانی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، مگر اس کا حالیہ پھیلاؤ شدید ترین ہے جس کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کو بھی ذمے دار ٹھہرایا جارہا ہے!

ایبولا کی موجودہ بدترین وبا کی وجوہات جاننے کے لیے کی گئی ایک اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف ایبولا کے پھیلاؤ کا جزوی طور پر ذمے دار ہے کیوں کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے، برسوں تک خانہ جنگی کا عذاب بھگتنے والے ممالک صحت عامہ کے شعبے پر توجہ نہ دے سکے۔ یہ تحقیق برطانیہ کی تین جامعات کے پروفیسروں پر مشتمل ٹیم نے کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض سے جُری شرائط کے باعث لائبیریا، سرالیون اورگنی دو دہائیوں سے قرض اور سُود کی ادائیگی اور غیرملکی زرمبادلہ کی صورت حال بہتر بنانے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں صحت عامہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

یہ تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب ایبولا کی وبا پُھوٹنے پر مختلف ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے سست ردعمل ظاہر کرنے پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

کیمبرج یونی ورسٹی میں ماہر عمرانیات اور تحقیقی ٹیم میں شامل پروفیسر الیگیزنڈر کینٹی کیلینس کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی سے نجات پانے کے بعد ان ممالک کی حکومتیں ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے بیرونی قرض پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ آئی ایم ایف ضرورت مند ممالک کے لیے سرکاری شعبوں کی تنظیم نو کرنے، اداروں کی نجکاری اور خدمات کی عدم مرکزیت کو فروغ دینے جیسی شرائط عائد کرتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے ایک خط کا بھی ذکر کیا ہے جو ایبولا کی وبا کے آغاز پر گنی کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھا گیا تھا۔ خط میں مالیاتی ادارے سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا گیا تھا،’’ بدقسمتی سے اخراجات، بشمول داخلی سرمایہ کاری، کی حد محدود ہونے کی وجہ سے ترجیحاتی شعبوں میں نشان دہی کیے گئے اہداف کا حصول ممکن نہیں رہا تھا۔‘‘ آئی ایم ایف کی جانب سے مقررکردہ اہداف کے حصول میں ناکامی نے مالیاتی فنڈ کے کرتا دھرتاؤں کو برانگیختہ کردیا۔ نتیجتاً انھوں نے گنی کے حکمرانوں کی جانب سے ملاقات کی کئی درخواستیں مسترد کردیں۔

تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے صحت عامہ کے شعبے پر خرچ کی جانے والی رقوم کی حد مقرر نہیں ہوتی تو کتنی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ ان ممالک کے علاوہ نائجیریا اور سنیگال میں بھی ایبولا وائرس نے ہاتھ پاؤں پھیلائے مگر وہاں صحت عامہ کا شعبہ مضبوط ہونے کی وجہ سے صورتحال قابو سے باہر نہیں ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔