وہ دھواں جو زندگی کا چراغ ہی بجھا دے

سید عون عباس  منگل 13 جنوری 2015
ارے بھئی یہ سگریٹ کہاں پیتے ہیں ،یہ توابھی ننھے بچے ہیں ان کو بس ٹافی اور چاکلیٹ پر ہی گزارا کرنے دو۔  فوٹو اے ایف پی

ارے بھئی یہ سگریٹ کہاں پیتے ہیں ،یہ توابھی ننھے بچے ہیں ان کو بس ٹافی اور چاکلیٹ پر ہی گزارا کرنے دو۔ فوٹو اے ایف پی

ہم دوست ابھی بیٹھے باتیں ہی کررہے تھے کہ عمر نے جیب سے سگریٹ نکالی اور زین سے کہا اوئے لائیٹر یا ماچس ہے؟ زین کے انکار کرنے پر اس نے یہی سوال دانیال سے کیا، اس نے بھی یہی کہا کہ نہیں میرے پاس بھی نہیں ہے، اتفاق سے اس کے منہ سے ابھی یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ عون کیا تمہارے پاس؟ اتنے میں احسن نے کہا ارے یہ سگریٹ کہاں پیتے ہیں، یہ توابھی ننھے بچے ہیں ان کو بس ٹافی اور چاکلیٹ پر ہی گزارا کرنے دو۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ محسن اور وقاص نے بھی کہا ارے بھئی ابھی تم سگریٹ نہیں جلانا عون کافی دنوں کے بعد آیا ہے دھوئیں کے باعث پھر اٹھ کر چلا جائے گا۔

اس کے بعد سب قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ یہ سب باتیں پہلے تو میں خاموشی سے سنتا رہا اس کے بعد میں نے عمر سے ایک سوال کیا کہ عمر کیا تمہارے گھر میں سب کو پتا ہے کہ تم تمباکو نوشی کرتے ہو؟ جس پر عمر پہلے تو چونکا پھر کہنے لگا نہیں یار پاگل ہو گئے ہو گھر والوں کو تھوڑی پتا ہے۔ پھر میں نے کہا بھئی یہ تو بزدلی ہوئی، اگر ہمت ہے تو گھر والوں کو بتا کر پیو، بلکہ ان کے سامنے دھواں اڑاؤ تاکہ انہیں بھی فخر ہو کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا کام کررہا ہے۔

یہ جواب کچھ تلخ ضرور تھا لیکن میں نے سوچا کہ یہی موقع ہے جب ان سب دوستوں کو سمجھایا جائے۔ پھر میں نے کہا کہ جب روز آخرت تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی جوانی اور پوری عمر کہاں اور کن کاموں میں گزاری؟ تو تم کیا کہو گے؟ میرے دوست یہ زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی امانت ہے، اس لئے امانت کوفضول کاموں اور دھوئیں میں اڑانے کے بجائے اچھےکاموں کی جانب توجہ دو۔

کیا تم جانتے ہو کہ صحت عامہ کے حوالے سے آج پوری دنیا خصوصاً ترقی پزیر ممالک کو جن بڑے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے اُن میں تمباکو نوشی اس سر فہرست ہے۔ اس زہر سے سالانہ 50لاکھ افراد موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب لوگ تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہیں جس میں 25 فیصدخواتین بھی شامل ہیں۔ دور کی بات نہیں کراچی میں قائم ڈاؤ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے امراضِ سینہ کے مطابق سگریٹ کے دھوئیں میں 4 ہزار سے زائد مہلک کیمیکل ہوتے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کی 2009 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 8 جان لیوا امراض میں سے 6 سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جن میں عارضہ قلب، دمہ، ٹی بی ، منہ اور پھیپڑوں کا کینسر شامل ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 11 ہزار افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب مرجاتے ہیں۔ 2012میں برٹش جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی سے ذیابطیس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کوئی نوجوان 18سال یا اس سے کچھ پہلے سے بھی سگریٹ پینا شروع کردے تو اس کے جسم میں گلوکوز برداشت نہ کرنے کا عمل دھیرے دھیرے شروع ہو جاتا ہے۔ جس سے انسانی لبلبہ متاثر ہوتا ہے اور انسان شوگر کا مریض بن جاتا ہے۔ اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر تھامسن بوسٹن نے اپنے اس تحقیق میں45000 افراد کے اوپر ریسرچ کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ 17 فیصد افراد ایسے تھے جنہوں نے تمباکو نوشی کبھی بھی نہیں کی تھی لیکن وہ ایک ایسے ماحول میں رہتے تھے جس میں اکثریت تمباکو نوشی کی عادی تھی جس کے سبب وہ بھی ان مہلک امراض کا شکار ہو گئے۔

آج دنیا بھر میں ہر دسواں شخص سگریٹ نوشی سے ہلاک ہوتا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ان ہلاکتوں کی تعداد 7 ملین سالانہ پہنچ جائے گی۔ میری یہ تما م باتیں عمر، وقاص اور زین سمیت سارے دوست سنتے رہے اور پھر سب پر خاموشی طاری ہوگئی، کیونکہ اب کسی کے پاس نہ تو کوئی جواب تھا اور نہ ہی کوئی عضر جس سے وہ یہ ثابت کریں کہ سگریٹ پینے میں کوئی مسئلہ نہیں۔اب میں امید تو یہی کرسکتا ہوں کہ احباب سگریٹ نوشی کی اس لت کو چھوڑ دیں گے۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں ہم حکومت کو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ حکومت کیا کرے گی؟ اگر حکومت سگریٹ پر ٹیکس لگا کر مہنگی بھی کردے تو ہماری عوام بھی کسی سے کم نہیں وہ پھر بھی یہ نشہ کرتی رہے گی۔ نوجوانوں کوجب سمجھایا جائے یا ان کو تمباکو نوشی سے روکا جائے تو عموماً ایک جواب آتا ہے اور وہ یہ کہ ’’زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، سگریٹ اور شیشہ پینے سے بھلا کیا ہوتا ہے۔‘‘ 

ایسے تمام افراد یاد رکھیں یہ زندگی اللہ کی امانت ہے اور جو اس امانت میں خیانت کرے گا اس کو جواب دہ ہونا پڑے گا کیونکہ وہ تمباکو نوشی کرکے صرف اپنے جان لینے کے در پے نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی صحت کو بھی خراب کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر اور کم شرح خواندگی کے حامل ملک میں ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے معاشرے کی رگوؤں میں زہر کھولنے والی اس بیماری کو موثر انداز میں ختم کیا جا سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔