دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جسٹس جاوید اقبال

تنویر قیصر شاہد  بدھ 14 جنوری 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کا صرف یہی اعزاز نہیں کہ وہ فرزند اقبالؒ ہیں۔ وہ بذاتِ خود ایک مشہور منصف، منفرد مصنف، ڈراما نگار، مترجم اور فلسفی دانشور ہیں۔ انھوں نے روحِ اقبالؒ کو بھی سمجھا ہے۔ حیاتِ اقبال پر ان کی تصنیف تو شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے ان کے قرب میں بیٹھنے، ان کی دلکشا باتیں سننے اور ان سے انٹرویو کرنے کے کئی مواقعے ملے۔ وہ جب اپنی مشہور سوانح حیات (اپنا گریباں چاک) لکھ رہے تھے، ان دنوں اسی کتاب کے حوالے سے مجھے ان کی ذرا سی معاونت کرنے کے سنہری مواقعے بھی میسر آئے۔

وہ فکرِ اقبال کے سچے عاشق اور وارث ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ تقریباً بارہ برس قبل جب ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اپنی سوانح حیات لکھ رہے تھے، اس وقت بھی انھوں نے دہشت گردی کے عفریت کے بارے میں گفتگو کرنے سے گریز نہ کیااور اپنی اس کتاب میں جرأت مندی سے دہشت گردوں اور ان کی مختلف مسلح جماعتوں کے نام لے کر ان کی مذمت کی۔ اگرچہ بعد ازاں بعض مسلح گروہوں نے ڈاکٹر صاحب کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ان کے گھر پر بم نما کریکرز بھی پھینکے مگر یہ قلندر صفت دانشور ڈرانہ اپنے خیالات سے دستکش ہوا۔  دہشت گردی کے حوالے سے جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ (صفحہ 261) میں یوں لکھتے ہیں: ’’تاریخِ مسلمانان جس طرح غصبِ اقتدار سے مانوس ہے، اسی طرح دہشت گردی سے بھی غیر مانوس نہیں۔  مگر ہم نے کبھی مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ تنقیدی نگاہ سے نہیں کیا بلکہ اسے بھی دین اسلام کا حصہ بنا کر مقدس سمجھتے ہیں۔

خلفائے راشدین میں سے تین (عظیم افراد) دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ حضرت علیؓ کی شہادت خصوصی طور پر باقاعدہ منصوبے کے تحت ایک ’’خارجی‘‘ دہشت گرد کے ہاتھوں ہوئی۔ تاریخ کے ابتدائی دور ہی سے دہشت گردوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا گیا تھا۔ اسی بنا پر یہ لوگ ’’خوارج‘‘ کہلائے تھے۔ بعد ازاں دہشت گردوں کا ایک اور ٹولہ’’حشیشین‘‘ نامی وجود میں آیا جنہوں نے عباسیوں کے دور میں دنیائے اسلام کی اہم شخصیات کے قتل  کا بازار گرم کیا۔

برصغیر کے ابتدائی سلطانی عہد میں قرامطہ اور ملا حدہ دہشت گردوں کو ریاستی طاقت کی شدت سے ختم کیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ یہ دہشت گردی کسی نہ کسی طرح اسلام ہی کے نام پر ہوتی رہی۔ مثلاً خارجی ’’اہل بیت‘‘ اور ’’اہل سنت والجماعت‘‘ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ’’اہل سنت والعدل‘‘ کہتے تھے اور اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق اسلامی عدل کی تحصیل کی خاطر ہر اس مسلمان کو واجب القتل سمجھتے جو ان کا مسلک قبول نہ کرتا تھا۔ خارجی دہشت گردوں کا دائرہ صرف دنیائے اسلام تک ہی محدود رہا۔ ان کی تلواروں کا ہدف بھی زیادہ تر مسلم زعماء ہی بنے۔‘‘

ڈاکٹر جاوید اقبال مزید لکھتے ہیں: ’’پاکستان بھی جب سے وجود میں آیا ہے‘ دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا۔ پہلا وزیراعظم قتل ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ ’’کراس بارڈر‘‘ دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشت گردوں نے طیارے اغوا کیے۔ ایرانی اور افغانی انقلابات کے بعد پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر عسکری ٹولے وجود میں آئے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا بازار گرم ہوا۔ اقوام متحدہ میں عالمگیر دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں جو بھی قراردادیں منظور کی گئیں، پاکستان ان میں شریک تھا۔ البتہ اقوام متحدہ آج تک ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی ایسی تعریف کا تعین نہیں کرسکی جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

امریکا اور یورپی اقوام کے نزدیک ہر قسم کی دہشت گردی کا قلع قمع ہونا چاہیے۔ مگر پاکستان سمیت مسلم ممالک کا اصرار ہے کہ ’’قومی آزادی کے لیے جدوجہد‘‘ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہ ہے بلکہ ایسی جدوجہد کو ریاستی طاقت سے دبانا قابل مذمت قرار دیا جانا چاہیے۔ جب امریکا اور اس کے یورپی حلیفوں کی طرف سے پاکستان پر ’’القاعدہ‘‘ اور ’’طالبان‘‘ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے لیے دبائو ڈالا گیا تو پاکستان اپنی طرف سے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت اس جنگ میں شریک ہوا۔

مگر ساتھ ہی جنرل(ر) پرویز مشرف نے چپ چاپ دہشت گردی کی مغربی تعریف (یعنی دہشت گردی اور قومی آزادی کے لیے جدوجہد میں امتیاز برقرار نہ رکھنا) قبول کرلی جس کے سبب تحریک آزادیٔ کشمیر متاثر ہوئی اور بھارت کی فوجیں ہماری سرحدوں پر آکھڑی ہوئیں۔ یہ کہہ سکنا مشکل ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کب تک جاری رہے گی۔ اس کا خاتمہ تو تبھی ممکن ہے جب دہشت گردی کے اسباب ختم کیے جائیں۔ اگرچہ امریکا اور اس کے یورپی حامی کہتے یہی ہیں کہ ان کا نشانہ اسلام نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں‘ مگر درحقیقت ان کے اور ان کے یہودی یا ہندو حواریوں کے ہاتھوں ہر طرف مسلمان ہی مر رہے ہیں۔

جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال دہشت گردی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں: ’’مجھے شمالی یورپ سے واپس آکر ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے جنیوا جانا پڑا۔ اس کانفرنس کا اہتمام او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) نے کیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابھی تک یو این کا ادارہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی ایسی تعریف متعین نہیں کر سکا جو سب اقوام کے لیے قابل قبول ہو۔

یورپی ممالک امریکا سمیت ہر قسم کی انتہا پسندی یا عسکریت کو ’’دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ مگر تیسری دنیا کے بیشتر ممالک ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’حق خودارادیت کے حصول کے لیے جنگ‘‘ میں امتیاز کرتے ہیں۔ اقوام عالم میں مدت سے یہ بحث جاری ہے اور اس پر ابھی تک کوئی معقول فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ بھارت اس بحث میں ’’دہشت گردی‘‘ کی مغربی تعریف کا اس لیے حامی ہے تاکہ وہ آزادی کے لیے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ’’قومی جدوجہد‘‘ کو ’’دہشت گردی‘‘ کا نام دے کر وہاں اپنی ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ اور انسانی حقوق کی پامالی پر پردہ ڈال سکے اور اپنے آپ کو ’’دہشت گردی‘‘ کا نشانہ ظاہر کرکے مغربی اقوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر چونکہ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے ’’جدوجہد‘‘ میں زیادہ تر مسلم اقوام ’’ملوث‘‘ ہیں‘ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحث زیادہ تلخ ہوتی جا رہی ہے اور اس نے مسیحیت اور اسلام کے درمیان ایک طرح کی صلیبی جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘‘

شدت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ وطنِ عزیز میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑنے کے لیے ملک بھر سے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب ایسے سنجیدہ فکر دانشوروں کو اکٹھا کرکے ان کے خیالات و افکار سے استفادہ کیا جائے۔ یقینا اس اقدام سے ذہنوں میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ یہ کام مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا ہے مگر اس کی توقع ایسی حکومت سے وابستہ نہیں کی جاسکتی جو (دہشت گردی کے خلاف) 19کمیٹیاں بنا کر خاموشی سے بیٹھ گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔