آخری حد فاصل

قدسیہ ممتاز  بدھ 14 جنوری 2015

چشم فلک جو آج کل اطمینان سے اونگھتی رہتی ہے، کہ اکیلی جان کیا کیا دیکھے، ۱۱ جنوری 2015 کو نہ صرف چونک اٹھی بلکہ نم بھی ہوگئی۔ نظارہ ہی ایسا روح پرور تھا۔ کیا مسلم کیا یہودی، کیا عیسائی کیا ملحد، سارے محمود و ایاز ہاتھوں میں ہاتھ دیے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ یہ دلکشا منظر پیرس کی شاہراہوں کا تھا جہاں لاکھوں افراد جن میں چالیس سے زائد ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے فرانسیسی جریدے ’شاغلے ہیبدو ‘ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے۔

ان میں اسرائیل کے نتن یاہو، جرمنی کی چانسلر انجلا مرکل اور برطانیہ کے ڈ یوڈ کیمرون سمیت فلسطین کے محمود عباس، ترکی کے احمد داود، اردن کے شاہ حسین دوئم اور ملکہ رانیہ شامل تھے۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ مراکش کو البتہ عین وقت پہ حیا آ گئی اور اس نے مظاہرے میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس عظیم الشان مظاہرے میں جو بینر استعمال کیے گئے تھے وہ ان ہی گستاخانہ خاکوں پہ مشتمل تھے۔

فلسطین، ترکی اور اردن نے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ توجہ دینی مناسب نہیں سمجھی۔ ان کے لیے عالمی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی جو آزادی اظہار رائے کے نام پہ ہو، بہرحال اہم تھا۔ ہو سکتا ہے محمود عباس کو وہ فلسطینی کارٹونسٹ صباح یاد آ رہا ہو جس نے پانچ ماہ کی جیل اس لیے کاٹی کیونکہ وہ اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف کارٹون بنایا کرتا تھا۔ لیکن ایسے شیطانی وسوسوں کو ایسے نادر موقعوں پہ جھٹک دینا چاہیے۔ اس ریلی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جو ہم سب فرانس ہیں کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور جو یہ نعرے لگا رہے تھے انھیں اچھی طرح علم تھا کہ فرانس میں خلق خدا انھیں غائبانہ ہی نہیں، منہ پر بھی کیا کہتی ہے۔

Soeren Kern نے جو Gatestone نامی ایک معتبر امریکی تھنک ٹینک کے مستقل ماہر ہیں اور مغربی ممالک میں اسلام کے نفوذ پہ خصوصی توجہ رکھتے ہیں، بڑی تفصیل سے فرانس میں اسلام کے پھیلاؤ کے اسباب و اثرات پہ رپورٹس مرتب کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں ساٹھ فیصد سے زائد لوگ اسلام کو ناقابل نظرانداز حقیقت کے طور پہ تسلیم کرتے ہیں۔ گو فرانس میں قانونی طور پہ کسی بھی ایسے سروے پہ پابندی ہے جس کی بنیاد رنگ نسل یا مذہب ہو لیکن ایسے قوانین اس وقت غیر موثر ہو جاتے ہیں جب مقابل میں اسلام جیسا کوئی خطرہ موجود ہو۔

تین سال پہلے French School of Public Opinion (FSPO)  نے ایک ایسا ہی سروے شایع کیا۔ اس کے مطابق فرانس میں ووٹرز مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہیں اور انھیں اپنی سیکولر شناخت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ تریسٹھ فیصد سے زائد فرانسیسی، مسلمانوں کو اپنی سوسائٹی کا حصہ ماننے سے انکاری ہیں کیونکہ دونوں ہی اپنی شناخت کھونا نہیں چاہتے، چنانچہ یہ وہ تعداد ہے جو مسلمان خواتین کے حجاب پہننے اور مردوں کے داڑھی رکھنے پہ شاکی ہے۔ صرف اٹھارہ فیصد فرانسیسی مساجد کے قیام کے حق میں ہیں۔

Jerome Fourquet جو ٖFSPO کے سربراہ ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ دن بدن صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے. کوئی دن نہیں جاتا کہ فرانس میں مسلمان حجاب، داڑھی، مسجد ، حلال غذا یا ایسے ہی کسی مسئلے کی وجہ سے فرانسیسی میڈیا میں خبر کی وجہ نہ بنتے ہوں۔ اب اس میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی شامل کر لیجیے۔ اس سیکولر فرانس میں جہاں رومن کیتھولک عیسائی کل آبادی کا 65 فیصد ہیں، مسلمانوں کی تعداد 60  لاکھ سے زائد ہے۔ یہ کسی بھی یورپی ملک میں پائے جانے والی مسلم آبادی سے زیادہ ہے جو بڑھتی ہی جا رہی ہے حتی کہ کہا جانے لگا ہے کہ اگر کوئی یورپی ملک مسلمان ہو گیا، گو مسلم ممالک ایسا ہونے نہیں دیں گے، تو وہ فرانس ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 65 فیصد کیتھولک میں سے صرف 13 فیصد ’Practicing Catholics‘ ہیں جب کہ مسلمان تقریبا سب ہی شدید مذہبی واقع ہوئے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ مساجد کی تعداد گرجوں سے بڑھتی جا رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں یہ تعداد دگنی یعنی 20,000 ہو چکی ہے جب کہ اس دوران صرف بیس گرجا تعمیر ہوئے۔ طرفہ تماشا یہ کہ کیتھولک اتھارٹی ایسے گرجوں کو جن کے اخراجات کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی، مساجد میں تبدیل کرنے کے لیے مسلمانوں کو فروخت بھی کر دیا کرتی ہے چنانچہ حال ہی میں Vierzon  میں ایک چرچ دو سو بیس ہزار ڈالر میں مراکشی مسلمانوں کی ایک تنظیم کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا جو مقامی آبادی میں اشتعال کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ فرانس میں مساجد پہ حملے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے نفوذ کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک مظاہرہ نوجوان کیتھولک کی ایک تنظیم کی طرف سے ہوا جنہوں نے مسجد کی چھت پہ چڑھ کے ایک بینر لہرایا جس پہ 732 Generation Identity لکھا ہوا تھا۔

یہ732 سن میں ہونے والی اس جنگ کی طرف اشارہ تھا جوs Battle of Tour کہلاتی ہے جس میںCharles Martel  نے اسی علاقے میں مسلم افواج کی پیش قدمی روکی تھی۔ بہرحال مسلمانوں کو حکومت کی طرف سے ایک مسجد الاٹ کر دی گئی۔ اس موقعہ پہ وزیراعظم فرانس  مینوئل ولاز جو اس وقت وزیر داخلہ تھے، کہا کہ جب کسی مسجد کا مینار بلند ہوتا ہے تو وہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اسلام فرانس میں قدم جما چکا ہے۔ یہی صاحب کچھ اسی قسم کا بیان یہودیوں کے متعلق پچھلے دنوں دے چکے ہیں کہ اگر دس لاکھ یہودی فرانس چھوڑ کے چلے گئے تو فرانس، فرانس نہیں رہے گا۔ یہ وہ فرانس ہے جو اپنے ہی مسلمان شہریوں کے ساتھ ان کی اسلامی شناخت کے حوالے سے کسی نہ کسی تنازعے میں ملوث رہتا ہے۔ یہی وہ فرانس ہے جہاں الجزائر اور مالی سے نہیں پیرس سے بھی جہادی نوجوان شام اور عراق روانہ ہوتے ہیں۔

شام میں ان کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے اور خالص فرانسیسی قومیت کے پانچ یا چھ بریگیڈ موجود ہیں۔ ایک فرانسیسی جہادی نوجوان کے بقول، سارا علاقہ ان سے بھرا ہوا ہے۔ وہ عربی نہیں بول سکتے اور عرب سرزمین پہ برسرپیکار ہیں۔ حالیہ شاغلے ہیبدو پہ حملے کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران بھی الجیرین تھے۔ اس ملعون جریدے کا دفتر، جس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مسلم ممالک کے سربراہان اتاولے ہو کر پیرس پہنچے،2011ء میں ایسی ہی حرکت پہ نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فرانس میں مسلمانوں کی موجودگی اور آزادی اظہار رائے پہ گرما گرم مباحث شروع ہوئے۔ اس کے علاوہ مالی میں فرانس کا فوجی مداخلت کو سپورٹ کرنا بھی اشتعال کا سبب ہے۔

لندن میں فرانسیسی سفارتخانے کے باہر اسی سلسلے میں ہونے والے ایک مظاہرے میں ایک برطانوی ’اسلامسٹ‘ یوں گویا ہوا۔ ’اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری عورتیں اسلام قبول کر کے حجاب لے رہی ہیں، ہماری نظریں پیرس پہ ہیں لیکن ہم یہاں رکنے والے نہیں جب تک اسلام دنیا پہ غالب نہ آ جائے۔ یہ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جو چاہے کر لو لیکن مت بھولنا کہ اسلام وہ موج ہے جو ایک بار اٹھ جائے تو رکنے والی نہیں۔ یہ لہر مالی، افریقہ اور افغانستان کو ہی نہیں، برطانیہ، فرانس اورامریکا کو بھی بہا لے جائے گی۔ تمہاری ناک کے نیچے شریعت نافذ ہو کر رہے گی اور تمہاری عورتیں اور بچے اسے خوشی سے قبول کریں گے۔ پیرس تقریبا سارا ہی مسلمان ہے بس انتظار کرو کہ کب فرانس مسلمان ہوتا ہے۔

اس سارے تناظر میں جب شاغلے ہیبدو کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لوگ پیرس کی سڑکوں پہ لا کھوں کی تعداد میں جمع ہوئے تو یہ سوال بھی پیچھے چلا گیا کہ کیا یہ سب لوگ اہانت رسول ﷺ پہ متفق ہو گئے ہیں؟ کیا ان میں جو مسلم حکمران شامل تھے انھوں نے آخری حد فاصل، حرمت رسول پہ بھی سمجھوتہ کر لیا ہے اور کیا کسی مسلم ملک میں یہ غیرت باقی نہیں رہی کہ وہ خم ٹھونک کر کہے کہ اگر تم شاغلے ہو تو ہم مصطفوی ہیں۔ البتہ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔

جب عراق پہ حملے کا فیصلہ ہوا، لاکھوں لوگ برطانیہ کی گلیوں میں نعرے لگاتے جمع ہو گئے اور اپنی حکومت کو باز رکھنے کی کوشش کی۔ کیا عراق پہ حملہ نہیں ہوا؟ جب ڈنمارک نے توہین آمیز خاکے شایع کیے، جب فیس بک پہ ملعون مولی نورس نے خیر البشر ﷺ کا مذاق بنا کر چاند پہ تھوکنے کی جسارت کی، تب کمزور، بے بس اور رنجیدہ مسلمان ایسے ہی بے تاب ہو کر سڑکوں پہ نکل آئے تھے۔ کس نے ان کی سنی؟ اور کمزوروں کے بس میں کیا ہوتا ہے؟ مظاہرے، نعرے، اظہار یکجہتی۔۔ لیکن تم تو زورآور تھے تمہیں کیا ہوا؟

اللہ بھلا کرے ڈپٹی نذیر احمد کا۔ ان کے معرکۃ الآرا ناول مراۃ العروس میں اکبری اپنے شوہر سے کہتی ہے۔ ’’تمہاری اماں کیوں میری شکایت کرنے لگیں؟ شکایت کرتا ہے مظلوم، شکایت کرتا ہے لاچار، شکایت کرتا ہے وہ جس کا بس نہیں چلتا۔‘‘

اس فقرے میں لفظ شکایت کو مظاہرے سے بدل دیجیے اور سوچیے کہ کیا طاقت کا توازن بدل رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔