ڈاکٹر نبی بخش بلوچ

رفیع الزمان زبیری  بدھ 14 جنوری 2015

علامہ عبدالعزیز میمن ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے عربی کے استاد ہی نہیں ان کے مرشد، مربی اور دوست بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چار سال گزار کر واپس جانے لگے تو انھوں نے میمن صاحب سے استدعا کی مجھے ایک سند عطا ہو۔ میمن صاحب نے انھیں جو تاریخی سند عربی زبان میں لکھ کر دی اس کا ذکر کرتے ہوئے محمد راشد شیخ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی زندگی اور خدمات پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’اس سندھ میں علامہ میمن نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جو جو پیش گوئیاں کیں اور جو جو امیدیں وابستہ کیں ڈاکٹر صاحب نے آیندہ زندگی میں انھیں درست ثابت کیا۔‘‘

نبی بخش بلوچ 1941 میں ایم اے کے طالب علم کی حیثیت سے علی گڑھ یونیورسٹی پہنچے۔ اس وقت علامہ میمن شعبہ عربی کے صدر تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کا علامہ صاحب سے تعلق قائم ہوا جو نہ صرف علی گڑھ کے دوران قیام برقرار رہا بلکہ کراچی میں 1978میں علامہ میمن کے انتقال کے وقت تک استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مضبوط ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر نبی بخش نے راشد شیخ سے اپنے علامہ میمن سے اس طویل تعلق کا جس محبت، عقیدت اور احساس تشکر سے ذکر کیا ہے اس سے جہاں استاد کی شخصیت آشکارا ہوتی ہے وہاں شاگرد کے جوہر بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ راشد شیخ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شاگرد اور استاد دونوں کی شخصیت نگاری کی ہے۔

راشد شیخ لکھتے ہیں: ’’میں نے ڈاکٹر بلوچ کی شخصیت میں ایک سچے محنتی اور مخلص عالم کی صفات پائیں۔ آپ کی طویل علمی اور تحقیقی خدمات سے آج بھی نئی نسل مشعل راہ کا کام لے سکتی ہے۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر حصول علم کی سچی لگن ہو تو راہ کی مشکلات کبھی سد راہ نہیں بنتیں۔ انھوں نے گاؤں کے سادہ ماحول میں پرورش پائی جہاں ابتدائی تعلیم تک کا انتظام نہیں تھا۔ علم کی سچی لگن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ پہلے نوشہرو فیروز اسکول اور مدرسے تک پہنچے اور پورے سندھ میں میٹرک میں دوم پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد آپ اپنی محنت اور مستقل مزاجی سے بہاؤالدین کالج جونا گڑھ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور کولمبیا یونیورسٹی امریکا تک پہنچے اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آج کی نوجوان نسل کو ڈاکٹر بلوچ جیسے بزرگوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔‘‘

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ راشد شیخ کے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سے تعلقات کا سبب علامہ عبدالعزیز میمن کی ذات گرامی بنی۔ جب انھوں نے اپنی کتاب ’’علامہ عبدالعزیز میمن۔ سوانح اور علمی خدمات‘‘ پر کام شروع کیا تو آگاہی کے لیے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سے رجوع کیا۔ ان سے بار بار ملاقاتیں کیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی نہ صرف کتاب کی تکمیل کے لیے مفید مشورے دیے بلکہ علامہ میمن کے وہ خطوط بھی ان کو دے دیے جو علامہ نے بلوچ صاحب کو لکھے تھے۔ پھر جب اکادمی ادبیات پاکستان نے ڈاکٹر نبی بخش پر کتاب شایع کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ان کے خیال میں یہ کام کون کر سکتا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے راشد شیخ کا نام لیا۔

یہ ایک مختصر کتاب تھی جو 2007 میں شایع ہوئی۔ اب راشد شیخ نے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پر یہ کتاب تحریر کی ہے جس میں ان کی حیات اور وسیع علمی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی قابل رشک زندگی، ان کی تعلیم، کراچی اور سندھ یونیورسٹی میں ملازمت، ان کے عظیم الشان علمی اور تحقیقی کاموں مثلاً سندھی لوک ادب کا تحفظ، شاہ جو رسالو پر تحقیق اور تکمیل، سندھی زبان کی سب سے بڑی لغت کا آغاز اور تکمیل، سندھی اساسی شعرا کے کلام کا تحفظ، فارسی، عربی اور اردو میں تحقیقی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بلوچ کی خاکہ نگاری، ان کے خطوط اور سفر ناموں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔

ایک محقق اور مورخ کے طور پر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا تاریخ کے بارے میں ادراک نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ مثلاً وہ بتاتے ہیں کہ سومناتھ پر محمود غزنوی کا حملہ صرف وہاں کے مندر اور بت کی وجہ سے نہیں تھا، وہاں ایک مضبوط قلعہ بھی تھا جس کی البیرونی نے بھی نشان دہی کی ہے۔ اسی طرح انھوں نے ان تمام افسانوں کی مدلل تردید کی ہے جو محمد بن قاسم کے کردار اور ان کی خلیفہ کے حکم پر جانور کی کھال میں بند کر کے لے جانے کے بارے میں مشہور کیے گئے ہیں۔

محمد راشد شیخ لکھتے ہیں ’’بلوچ صاحب کی تحقیق کی ایک خاص بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے جس موضوع پر بھی کتاب لکھی اس میں بعد والوں کے لیے اضافہ کرنا مشکل ہو گیا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ہر کتاب میں تحقیق کا حق ادا کیا۔ آپ کی اردو کتب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی صرف ایک اردو کتاب ’’سندھ میں اردو شاعری‘‘ کا ذکر کافی ہے۔‘‘

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ایک قابل استاد اور ماہر تعلیم بھی تھے۔ وہ سندھ یونیورسٹی کے پہلے پروفیسر اور وہاں کے شعبہ تعلیم کے بانی تھے۔ 1951میں علامہ آئی آئی قاضی انھیں وہاں لے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا علامہ قاضی سے خصوصی تعلق تھا۔ اسی طرح قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی اور ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں سے ان کی قربت تھی اور ان کے بارے میں ان کی تحریریں خاکہ نگاری کے زمرے میں آتی ہیں۔

راشد شیخ لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر صاحب کو تعلیم کے فروغ کا اس قدر شوق تھا کہ آج ان کے گاؤں گوٹھ جعفر خاں لغاری اور اس کے قریبی علاقوں میں جو تعلیمی ترقی نظر آتی ہے وہ ان ہی کی کوششوں کا ثمر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گاؤں میں لڑکیوں اور لڑکیوں کے لیے جدا جدا پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول قائم کرائے اور ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی شعبہ تعلیم اختیار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ’’میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کون سا پیشہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ میرے نزدیک اعلیٰ کردار کے معلم کا پیشہ ہے۔ معلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ وہ طلبہ کا روحانی باپ اور قوم کا معمار ہوتا ہے۔ آیندہ نسلوں کی سیرت سازی اس کے ذریعے ہوتی ہے اس لیے اسے اعلیٰ اوصاف اور کردار کا مالک ہونا چاہیے۔‘‘

راشد شیخ لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر بلوچ کو زندگی بھر کتابوں سے عشق کی حد تک محبت رہی۔ وہ جب بھی کبھی کسی بیرونی ملک کے دورے سے واپس آتے تو سب سے زیادہ جو چیزیں لے کر آتے وہ کتابیں ہی تھیں۔ وہ ایک نادر اور قیمتی کتب خانے کے مالک تھے۔‘‘ خود انھوں نے سندھی، اردو اور انگریزی بہت سی کتابیں لکھیں۔

ڈاکٹر بلوچ بہت سادہ طبیعت کے آدمی تھے، بے جا تکلفات سے بہت دور رہتے تھے۔ نہ مہنگے کھانے کا شوق، نہ مہنگے لباس کا۔ کوئی دعوت کرتا تو کہتے سادہ کھانا پکانا۔ سادہ کھانے سے مراد دال، ساگ وغیرہ ہوتی۔ آرٹ، خوبصورت چیزوں اور موسیقی کا شوق تھا۔ بلیاں بھی انھیں پیاری تھیں۔ وقت کے وہ بہت پابند تھے۔ بڑائی اور شان وشوکت سے انھیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ منکسر المزاج اور نرم روی ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔

راشد شیخ نے ایک ملاقات کے دوران ان سے سوال کیا کہ آج کل لوگ وقت کی کمی کی بڑی شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وقت ہی نہیں ملتا تو کام کیسے کریں۔ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ لوگ غلط کہتے ہیں۔ وہ اپنا قیمتی وقت فضول کاموں میں ضایع کرتے ہیں۔ اگر انسان منضبط انداز سے اپنی زندگی گزارے تو اسی وقت میں بڑے بڑے کام کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔