گلہ ہم اجل سے سدا کرتے رہیں گے

اویس حفیظ  بدھ 14 جنوری 2015
دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ارفع نے کوئی موقع ایسا نہیں آنے دیا جب کوئی اس پر انگلی اٹھا سکے۔  فوٹو: فائل

دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ارفع نے کوئی موقع ایسا نہیں آنے دیا جب کوئی اس پر انگلی اٹھا سکے۔ فوٹو: فائل

2فروری 1995ء وہ مبارک دن تھا جب پریوں کے دیس کی ایک شہزادی نے پاکستان کے شہر فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں رام دیوالی میں جنم لیا۔ کرنل (ر) امجد کریم رندھاوا کے گھر پیدا ہونے والی اس بچی نے گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں آئی ٹی کو اپنا شوق بنایا اور محض 9 برس کی عمر میں دنیا کی سب سے کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ انجینئر ہونے کا اعزاز حاصل کر کے پوری دنیا کو پاکستان کی طرف سے امن و آشتی کا ایک پیغام دیا۔ 4 سال تک دنیا کی سب سے کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ انجینئر ہونے کا اعزاز اسی ننھی بچی کے پاس رہا جسے دنیا ’’ارفع کریم‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

بے شمار خداداد صلاحیتیں لئے پیدا ہونے والی یہ بچی شروع دن سے ہی ان لوگوں میں سے تھی جو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا میں مائیکرو سافٹ کمپنی کا دورہ کرتے ہوئے اس نے جب مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک’’بل گیٹس‘‘ سے استفسار کیا کہ اس کی کمپنی میں عورتوں کی تعداد اتنی قلیل کیوں ہے جبکہ اس کے گاؤں میں تو عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتی ہیں تو بل گیٹس جیسا گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والا شخص بھی ارفع کے سامنے لاجواب ہو گیا۔ یہی وہ انداز تھا کہ بل گیٹس بھی ارفع کی ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کے بعد جب ارفع نے ایک پروفیشنل کمپیوٹر ماہر کی طرح اس سے کمپیوٹر سافٹ وئیر سے متعلق کئی پیچیدہ سوالات کیے تو وہ اس ننھی سی جان کی صلاحیتیں دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔

اس ننھی سی بچی نے محض دس برس کی عمر میں دبئی میں ایک چھوٹا جہاز اڑا کر بھی پوری دنیا کو حیران کردیا تھا اورپھر دبئی کے فلائنگ کلب سے جہاز اڑانے کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کیا۔

فارغ وقت میں گنگنانا اور شاعری کرنا اس کے شوق تھے۔ اپنی نظموں کے ذریعے اس بچی نے صرف ہمت اور عزم کا پیغام عام کیا ہے۔ دنیا بھر کے بے شمار فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی ارفع نے کوئی موقع یا مقام ایسا نہیں آنے دیا کہ کوئی اس پر انگلی اٹھا سکے۔ اس نے اپنی تہذیب و ثقافت کی حدود کا احترام کرتے ہوئے دنیا کو دکھایا کہ پاکستان کا اصل چہرہ کیا ہے۔

اس ننھی پری کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کے اعزاز میں دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک بار دبئی آئی ٹی پروفیشنلز نے بھی اس کے اعزاز میں دو روزہ تقریب کا اہتمام کیا اور اس تقریب میں ارفع کو بے شمار کمپیوٹر سرٹیفیکٹس دے کر ارفع کی ماہرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔ نومبر 2006ء میں بارسلونا میں مائیکروسافٹ کی آئی ٹی کانفرنس میں 5000 سے زائد شرکاء کو مدعو کیا گیا مگر ارفع کریم وہ واحد پاکستانی تھی جسے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

بین الاقوامی ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹس کے علاوہ ملکی ایوارڈز کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو ارفع کے حصے میں آئے۔ 2005ء میں ارفع کوسائنس و ٹیکنالوجی میں بہتر کارکردگی دکھانے پر ’فاطمہ جناح گولڈ میڈل‘ دیا گیا۔ پھر ’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘ اور پھر ’سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ‘ ملا مگراس کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کی وہ محبت تھی جو اس کے حصے میں آئی۔یہ بچی حقیقی معنوں میں پاکستان کے ماتھے کا جھومرتھی۔

محض 16 برس کی عمر میں جب ارفع کریم سیکنڈ ائیر میں تھی تب کاتب تقدیر نے اس کلی کو کملا دیا جو پورے گلشن کو اپنے وجود سے مہکا رہی تھی۔ 26 روز موت سے لڑنے کے بعد 14جنوری 2012ء کو ارفع پوری قوم کو صدمے میں چھوڑ کر اپنے پریوں کے دیس میں واپس لوٹ گئی۔

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا

ارفع کی خواہش تھی کہ ’’وہ آئی ٹی کاایک شہر آباد کرے جہاں پر بچوں کو مفت کمپیوٹر کی تعلیم دی جائےاور یہ کہ ملک کے تمام سکولوں، کالجوں میں جدید ترین کمپیوٹر لیبز بنائی جائیں تاکہ ہر بچے کی کمپیوٹر تک رسائی ممکن ہو‘‘۔

ارفع کی پہلی برسی کے موقع پر 15جنوری 2013ء کو پنجاب حکومت نے لاہور ٹیکنالوجی پارک کا ’’صرف نام تبدیل کر کے‘‘ ارفع سوفٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک رکھ دیا اور یہ تصور کیا کہ ہم نے اس بچی کا حق ادا کر دیا ہے مگر کیا محض ایک ٹیکنالوجی پارک کا نام اس سے منسوب کرکے اور اس کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کرکے ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوچکے ہیں۔ کیا ہم اس بچی کا قرض کبھی اتارسکتے ہیں جس نے دنیا بھر میں صرف پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو بلند کیا۔ آج آسمان بھی ہم پر ہنستا ہوگا کہ ’’یہ کیسی قوم ہے کہ اپنے محسنوں کو فراموش کرنے کے بعد بھی اسی سوچ میں مبتلا ہے کہ اس سے کیاایسا غلط ہوا ہے کہ آج اس پر عرصہ حیات تنگ ہوا پڑا ہے۔‘‘

اب بھی جب14جنوری کا سورج طلوع ہوتا ہے اجل سے یہ گلہ کرنے کو جی چاہتا ہے کہ

پھول تو نے وہ توڑا
جو سارے چمن کو ویران کرگیا

مگر اب بھی ایک سوال باقی ہے کہ اجل سے گلہ ہی کرتے رہیں کہ ارفع کی اس نظم میں پوشیدہ پیغام کو سمجھیں۔ اس نظم میں یہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ارفع علامہ اقبال سے بہت متاثر تھی ؂

دور کہیں ایک پرندہ تھا انگشت بدنداں
سوچتا تھا کہ یہ لوگ کیوں اتنے ناداں
جانتے ہوئے بھی کہ جانا ہے اس کے پاس
کیوں نہیں آتے یہ برے کاموں سے باز
اے حضرت انساں تو راہ راست پر نہیں ہے
جانا ہے کہیں اور تُو اور کہیں ہے
اپنی آنکھیں کھول سوئے منزل چل
کہ آ رہا ہے تیرے سامنے اک نیا کل

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔