’ریحام‘ والا موسم

عبدالقادر حسن  بدھ 14 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں رہتا لاہور میں ہوں لیکن رہنے والا ایک گاؤں کا ہوں جو شمالی پنجاب کے ایک کوہستانی سلسلہ میں پہاڑوں کے ایک دائرے میں بند ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے پہاڑوں کے اس دائرے میں دو راستے بنائے گئے ہیں یا قدرتی طور پر بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہ راستے جب سے ہیں تب تو پہاڑوں کو کاٹنے کے اوزار نہیں تھے۔ اس دائرے کے شمال جنوب میں دو مقامات پر پہاڑوں کا سلسلہ ٹوٹا ہوا تھا اور یہی دو راستے تھے جو میرے اس بارانی گاؤں کا راستہ دکھاتے تھے ایک شمال کی طرف سے اور ایک جنوب کی طرف سے۔

وادی سون کے ایک گوشے میں آباد اس گاؤں کی فوری یاد ان بارشوں نے دلائی ہے جو لاہور میں برس رہی ہیں یہ بارشیں ہلکی ہلکی پھوار سے شروع ہوئیں اور یہ حسن اتفاق دیکھئے کہ ہمارے ایک نامور شخص جو بہت کچھ ہے اس کی دوسری بیگم کے اجنبی نام کے معنی ہیں ’بارش کی ہلکی پھوار‘۔ ہمارے ایک ماہر لسانیات ساتھی جناب خالد احمد نے پاکستانیوں پر یہ انکشاف کیا ہے۔ ادھر ریحام آئی اور ادھر طویل قحط سالی کے بعد بارش شروع ہو گئی جو پہلے پہل ہلکی پھلکی پھوار ہی تھی بعد میں دوسرے تیسرے دن اس پھوار نے بارش کی شکل اختیار کر لی۔

لاہور میں یہ پھوار دیکھ کر جسے شہر والے کہتے ہیں کہ اس سے درختوں کے گرد آلود پتے دھل جائیں گے اور ہم بارانی گاؤں والے اس پھوار میں کسی بارش کی نوید تلاش کرتے ہیں۔ بارش ہو گی تو گاؤں کی خشک پیاسی زمینیں ہری اور سرسبز ہوں گی اور ان سے روزی برآمد ہو گی سال بھر کی گندم اور یہ گندم ہمارے بارانی علاقے میں اتنی بڑی نعمت اور دولت سمجھی جاتی ہے کہ گھر میں سال بھر کے دانے جمع ہو جائیں تو لوگ اپنی پرانی دشمنیاں چکانے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ قید بھی ہو گئی تو گھر والے بھوکے نہیں مریں گے۔ یہ کچھ پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب لوگ عقلمند ہو گئے ہیں اول تو دشمنی نہیں کرتے اور پھر اسے پالتے نہیں ہیں۔ خاندان کے بزرگ تیز مزاج لوگوں کو سمجھا بھجا کر ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔

ایک واقعہ بیان کر دوں کہ انگریزی حکومت کے دور میں ہمارے گاؤں میں قتل ہو گیا۔ ہوشیار قاتل رات کے وقت ایک پہاڑی ڈیرے کی طرف گئے وہاں کتے بھونکے اور پھر انھوں نے چپکے سے اس ڈیرے سے دور اپنے شکار کے ڈیرے پر جا کر وہاں دشمن کو قتل کر دیا چنانچہ رات کے وقت ایک ڈیرے سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سے جو شک پیدا ہوا اس پر مقدمہ اس ڈیرے کے لوگوں کے خلاف بن گیا اور رات کو کتوں کے بھونکنے سے یہ سمجھا گیا کہ واردات کرنے والے رات کو اس ڈیرے سے نکلے یا لوٹے تھے۔ قتل کے اس مقدمے میں ملزموں کو پھانسی ہو گئی لیکن بعد میں تھانیدار کو اصلی بات معلوم ہو گئی کہ یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ تھا اور قاتل بے گناہ تھے۔

اس پر وہ اس قدر شرمسار اور پریشان ہوا کہ اس کے ضمیر نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ ایس پی ضلع کو سب کچھ بتا دے اور جو سزا ملے اسے قبول کر لے چنانچہ وہ صاحب کے ہاں پیش ہو گیا اور اپنی پیٹی صاحب کی میز پر رکھ کر سارا واقعہ سنایا اور سزا کے لیے تیار ہو گیا۔ ایس پی نے دروازہ بند کر کے غور کیا اور پھر تھانیدار سے کہا کہ اب چپ ہو جاؤ اور اس بات کو چھپا دو۔ یہ ہم سب کی بے عزتی ہے جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ہم کسی کو واپس نہیں لا سکتے۔ بات نکل گئی تو میں بھی تمہارے ساتھ مجرم بن جاؤں گا۔ برطانوی دور میں جب کہیں قتل ہوتا تھا تو ایس پی وہاں ضرور جاتا تھا۔ بہر حال فرض شناسی اور غلطی کی سزا کے لیے تیاری کے زمانے گزر گئے۔

بات ریحام یعنی پھوار سے چلی تھی اور میں بارش کے شوق میں بذریعہ موبائل فون گاؤں چلا گیا جہاں ابھی تک پھوار نہیں ہوئی ورنہ عمران شکار کے لیے وادی سون بھی جایا کرتا تھا اور پھوار پر ہماری وادی کا بھی حق تھا۔

اب شاعری کی طرف آتے ہیں۔ شاعرہ زہرہ نگاہ نے ہماری حالت پر رونا رویا ہے آپ بھی دل گداز کریں ۔میں نے ایک اخبار سے یہ نظم نقل کی ہے۔

سنا ہے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو
پڑوسی مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آ جائے
کوئی پل ٹوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری‘ سانپ‘ چیتا اور بکری
ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہے
خداوندا‘ جلیل و معتبر دانا و بینا‘ منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔