- ڈوپامائن بڑھانے والی دوا، ڈپریشن کی اعصابی سوزش کو ختم کرسکتی ہے
- ایک گیلن پانی سے ٹھنڈا ہونے والا ایئرکنڈیشننگ خیمہ
- انسانوں کے ساتھ مل کر مچھلیوں کا شکار کرنے والی ڈولفن
- جیل بھرو تحریک شروع کریں، آپ کا علاج میں کروں گا، رانا ثنا اللہ
- آئی ایم ایف ہر شعبے کی کتاب اور ایک ایک دھلے کی سبسڈی کا جائزہ لے رہا ہے، وزیراعظم
- بھارت میں ٹرانس جینڈر جوڑے کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع
- ڈالفن کیساتھ تیراکی کے دوران 16 سالہ لڑکی شارک کے حملے میں ہلاک
- پاک افغان ٹی20 سیریز کب ہوگی، نجم سیٹھی نے اعلان کردیا
- کراچی پرانا گولیمار میں سرچ آپریشن؛ ٹارگٹ کلر، 6 اسٹریٹ کرمنلز، 5 منشیات فروش گرفتار
- ایشیاکپ 2023؛ پی سی بی نے کرک انفو کی خبر کے کچھ نکات کو ’’بےبنیاد‘‘ قرار دیدیا
- کراچی، باپ نشہ آور سگے بیٹے کے قتل میں ملوث نکلا
- خبردار! چلتی گاڑی سے سگریٹ پھینکنے پر 75 ہزار روپے جرمانہ ہوگا
- نمائشی میچ؛ گلیڈی ایٹرز نے زلمی کو سنسنی خیز مقابلے میں 2 رنز سے ہرادیا
- لیاری میں ملزمان نے اسنوکر کلب میں گھس کر نوجوان کو قتل کردیا
- پنڈی میں خواجہ سرا کو پھندا لگا کر قتل کردیا گیا
- پنجاب کے وزیر کھیل کو افتخار نے ایک اوور میں 6 چھکے جڑدیئے، ویڈیو وائرل
- پرویز مشرف کی تدفین پاکستان میں کرنے کا فیصلہ
- موبائل چوری کا الزام؛16سالہ لڑکے نے 58 سالہ خاتون کو زیادتی کے بعد قتل کردیا
- بندرگاہ سے دالوں کے کنسائمنٹس ریلیز ہونا شروع
- چلی کے جنگلات میں خوفناک آتشزدگی میں 23 افراد ہلاک؛ 979 زخمی
لمحہ فکریہ

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام کے جذبات کو سمجھیں،ان کے دکھ درد کو محسوس کریں۔ فوٹو : فائل
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گزشتہ روز آرمی پبلک اسکول پشاور آمد پر شہید طلباء کے لواحقین نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے،وہ ملک کی سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی اور ان کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ عوام کے جذبات،مسائل اور ضروریات کو نہ سمجھنا یا انھیں اہمیت دینے کے بجائے اپنے خیالات و نظریات کو بالاتر سمجھنا ملک کا سیاسی کلچر بن گیا ہے۔ عمران خان نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ کبھی پروٹوکول کے ساتھ سفر نہیں کریں گے،یہ اچھی بات ہے،سیاستدانوں کو عوام کے جذبات کو سمجھنا چاہیے۔
دراصل پاکستان میں ایسا کلچر پروان چڑھا ہے کہ ملک میں کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو سیاستدان اپنے اپنے نمبر بنانے کے لیے پہلے مگرمچھ کے آنسو روتے ہیں، پھر لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے پہنچتے ہیں، اس ایکسر سائزکا مقصد صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہوتا ہے۔ یہ آئے روز کا کام ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کہیں کسی غریب گھرانے کی بچی سے زیادتی ہو جاتی ہے تو حکمران وہاں پہنچتے ہیں،کوئی امدادی چیک دیتے ہیں اور اپنی تصاویر ٹی وی چینل پرچلوالے اور اخبارات میں چھپواتے ہیں،اس سیاسی کلچر نے پورے سسٹم کو زوال پذیر کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے سیاستدانوں نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اپنا اپنا راگ الاپتی چلی آ رہی ہے۔
اخباروں میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں اور عملاً کچھ نہیں کیا جاتا‘اس کلچر سے معاملات کو زیادہ پیچیدہ اور مبہم بنایا۔ ہمارے سیاستدانوں اور دینی قیادت نے دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی سوچ اور جذبات کو کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی اور بس اپنے نظریات یا مفادات کو سامنے رکھا۔ اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں،پاکستان میں پچاس ساٹھ ہزار افراد دہشت گردی میں شہید ہو چکے ہیں،ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں،یہ سب لوگ عوام کاحصہ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے منتظر ہیں۔حقائق کو تسلیم کرنا ہی بڑائی ہے۔ سیاستدانوں اور دینی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ان سے کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی ہے۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام کے جذبات کو سمجھیں،ان کے دکھ درد کو محسوس کریں،سیاست کا مقصد یہ نہیں کہ کوئی شخصیت ملک کی وزیراعظم بن جائے اور نہ کسی سیاستدان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ اقتدار اسے ملے،سیاست کا مقصد اقتدار میں آ کر عوام کے مسائل حل کرنا ہے،اب سیاستدانوں کو روایتی سیاست ترک کرنا ہو گی،ورنہ عوام کا ردعمل پشاور سے کہیں زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔