سری لنکا میں جمہوری تبدیلی

کلدیپ نائر  جمعرات 15 جنوری 2015

نئی دہلی کو اس بارے میں بہت سی وضاحتیں کرنی ہیں کہ جب مہندر راجہ پاکشے دوسری بار انتخاب جیت کر سری لنکا کے صدر بنے تو بھارت نے انھیں چھوٹے ہتھیاروں کی بھاری کھیپ بھیجی جسے انھوں نے بِلا دریغ تامل باشندوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کیا جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔

پاکشے پر تو جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے کیونکہ انھوں نے 40,000 تاملوں کو نہایت بیدردی سے ہلاک کر ڈالا حالانکہ تاملوں کی عسکری تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن اس کے باوجود ان سب کو مار ڈالا گیا۔ اس موقع پر جب کہ ان کی شکست کی نمائش کی جا رہی تھی راجہ پاکشے نے فوج اور پولیس کے سربراہوں کو اس معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا اور نہایت پھرتی اور مہارت سے جمہوری بھارت کی آنکھوں میں دھول جھونک دی لیکن نئی دہلی حکومت کو تو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور پاکشے کس قدر اندھی طاقت کے استعمال سے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ موصوف کا ایک بھائی سیکریٹری دفاع تھا۔میں اس کے رویّے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا کیونکہ پولیس نے رات کے وقت مجھے ہراساں کیا تھا۔

میرا جرم یہ تھا کہ میں نے کہا تھا کالعدم ایل ٹی ٹی ای کے ساتھ فوجی ذریعے سے نہیں بلکہ سیاسی طور پر نمٹنا چاہیے۔ اسی رات میرے دروازے پر دستک ہوئی اور پولیس نے میرا پاسپورٹ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔ لیکن پیغام بڑا واضح تھا۔ میں نے اگلے ہی دن ان کا ملک چھوڑ دیا اور آج تک کولمبو واپس نہیں گیا۔اب جب کہ ملک نے آمریت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے تو اس کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی قرار داد پر عملدرآمد کرنا چاہیے جس کو امریکا کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ سری لنکا کی حکومت جنگی جرائم کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگ کے آخری مرحلے میں تاملوں پر ناقابل بیان ظلم و تشدد کیا گیا۔

لیکن بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ نئی دہلی نے اس قدر واضح شواہد کے باوجود راجہ پاکشے کی حکومت کی پردہ پوشی کی اپنی سی پوری کوشش کی۔ لیکن 47 ممالک کی مضبوط تنظیم نے، جس کی قیادت امریکا کر رہا تھا، بھارت کے تمام دلائل مسترد کر دیے اور قرار داد کے الفاظ میں کسی تبدیلی سے بھی انکار کر دیا۔ اس وقت نئی دہلی کے طرز عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ڈی ایم کے حکومت کی حمایت سے دست کش ہو گئی تھی۔ابھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی۔ اس صورتحال سے جو سبق سیکھا گیا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔

جس کی تجویز بھارت نے پیش کی ہے تا کہ تمام حالات کا بنظر غائر جائزہ لے کر تحقیقات کی جا سکے تاکہ سری لنکا کے مظالم سامنے آ سکیں۔ اس سے قبل اسی قسم کی ایک کوشش ناکامی کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ سری لنکا کی حکومت نے جو کہ خود مورد الزام تھی اس نے تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا لہٰذا ان تحقیقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ بہر حال اب یہ دیکھ کر بڑی تسکین ہوتی ہے کہ سری لنکا دوبارہ جمہوریت کی طرف مراجعت کر رہا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی عوام اصلی جمہوریت کے نفاذ کے لیے اپنے جذبے کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ سیاست کو فوجی عدالتوں کے سامنے سرنگوں کر دینا ایک حالیہ مثال ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ آئین میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت دہشت گردی کے مشتبہ افراد کا مقدمہ دو سال کے لیے قائم کی گئیں‘ فوجی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام فوج کی خواہش نہیں تھی بلکہ یہ غیر معمولی وقت اس کا متقاضی تھا۔ دبکے ہوئے سیاستدانوں نے اپنی خاموشی سے اس کی راہ ہموار کر دی۔ سری لنکا اور پاکستان دونوں ہمارے پڑوسی ہیں وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر بھارت پر بھی پڑتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی جڑیں کافی گہری ہو چکی ہیں لہذا وہ اس قسم کے جھٹکے برداشت کر لیتی ہے، مگر نئی دہلی دوسرے ملکوں کو جمہوریت برآمد نہیں کر سکتی۔ لیکن اسے یہ تو دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کے اڑوس پڑوس میں عوام الناس کی بات سنی جا رہی ہے یا نہیں۔ اور یہ کام دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کیے بغیر کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے جب جمہوریت کمزور پڑتی ہے تو آمریت کو بڑھاوا ملتا ہے۔ بھارت نے اس گناہ کا ارتکاب کیا جب چند سال پہلے یہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل میں ووٹ دینے سے غیر حاضر رہا۔ اس موقع پر ایک قرار داد پیش کی گئی تھی جس میں سری لنکا میں ہلاک کیے جانے والے 40,000 تامل باشندوں کے بارے میں آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور لبریش آف تامل ٹائیگرز ایلام (LTTE) کے خلاف جو ظلم و تشدد کیا گیا تھا اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی شامل تھا حالانکہ ایلام نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔

جب بھارت ووٹ دینے سے غیر حاضر رہا تو مجھے اس وقت وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے یہ الفاظ یاد آئے کہ ’’جب جارحیت ہو یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو ہم غیر جانبدار نہیں رہیں گے اور نہ ہی ہمیں رہنا چاہیے‘‘۔ لیکن اس کے باوجود من موہن سنگھ کی حکومت نے راجہ پاکشے کی آمرانہ حکومت کی حمایت کر دی۔ نئی دہلی کو اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا کہ اس کی اس حرکت سے تامل باشندوں کے حقوق کو کتنا سخت نقصان پہنچے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ وزارت خارجہ امور کی افسر شاہی نے ووٹ ڈالنے سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا ہو گا اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہی فیصلہ بھارت کے بہترین مفاد میں ہے۔

اس وقت سلمان خورشید وزیر خارجہ تھے لیکن وہ قطعاً بے اختیار تھے۔ وہ غالباً ان 100 ماہی گیروں کو رہا کرانا چاہتے تھے جو کہ بھٹک کر سری لنکا کی سمندری حدود میں داخل ہو گئے تھے۔ مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ جب راجہ پاکشے کی حکومت نے جواباً نئی دہلی کا شکریہ ادا کیا حالانکہ بھارت پر جمہوری دنیا کا خاصا دبائو تھا جس کی قیادت امریکا کر رہا تھا جب کہ چین اور پاکستان نے، جہاں پر کہ جمہوریت کو مقابلتاً خاصا محدود کر دیا گیا ہے، کولمبو کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مجھے ایل ٹی ٹی ای کے کالعدم ہونے کا کوئی افسوس نہیں کیونکہ وہ بڑی حد تک ایک دہشت گرد جماعت تھی لیکن انسانیت پرست ہونے کے ناتے مجھے ان کے فوجیوں اور ان کے حامیوں کی ہلاکتوں پر افسوس ہے کیونکہ وہ ہتھیار پھینک چکے تھے۔ سری لنکا کی فوج کو جسے صدر راجہ پاکشے اور ان کے بھائی وزیر دفاع گوٹا بھائیا راجہ پاکشے کی حمایت کے باعث خون کا دریا بہانے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

دنیا کو تو اس قتل و غارت کا علم ہی نہیں ہو سکتا تھا اگر بی بی سی کا چینل 4 ان ہلاکتوں اور ظلم و تشدد کے بارے میں دستاویزی فلم ٹیلی کاسٹ نہ کرتا۔ اس قدر بے پناہ ظلم و تشدد صرف ایل ٹی ٹی ای کے مسلح دستوں کے خلاف ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس میں معصوم تامل باشندے بھی شامل تھے۔ کولمبو نے خود جو انکوائری کی ہے وہ محض دکھاوے کی ہے۔ اس میں سارا الزام تاملوں کے سر منڈنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ فوج کو ہر قسم کی ذمے داری سے بچا لیا گیا ہے۔ تاملوں کا مطالبہ یہی ہے کہ انھیں ملکی معاملات میں برابری کا حصہ دیا جائے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ نئی جمہوری حکومت ان کا مطالبہ کس حد تک پورا کرتی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔