کیا ہم واقعی ایک قوم ہیں؟

شکیل صدیقی  جمعرات 15 جنوری 2015

پائیدار سوچ ، راست عمل اور مضبوط کردار ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔اس کڑی میں سے کوئی بھی چیزکم ہو تو ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔افراد تاریک راہوں میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ہم میں کیا کمی ہے ؟ہم کدھر جارہے ہیں، یہ معلوم کرنے کی کسی نے زحمت ہی گوارا نہیں کی۔بے ہنگم افراد کا ایک ریوڑ ہے جس کی کوئی سمت ہی نہیں۔ہوکیا رہا ہے اورکرنا کیا ہے،یہ کسی کو پتا ہی نہیں ہے۔ ہم اس شترمرغ کی طرح ہیں جس کا منہ ریت میں ہے اور وہ سمجھ رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے حالانکہ طوفان اس کے اوپر سے گزر رہا ہے۔

باز پرس ہم کسی سے کرتے ہی نہیں۔سوال کرتے بھی ہیں تو اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ صبح کا وقت ہے، سڑکوں پر پانی بہہ رہا ہے۔ بہے جا رہا ہے۔ انڈرگراؤنڈ واٹر ٹینک بھر چکا ہے۔ والو خراب ہے۔اس لیے پانی اپنا راستہ بنا رہا ہے اور گھر سے نکل کر نشیب کی طرف جا رہا ہے۔صبح مسجد سے واپس آنیوالے نمازی اپنا دامن بچا کر گلی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔

گلیوں کے کونوں پرکوڑا پڑا ہے۔ لوگ اِدھر اُدھر دیکھ کر اپنا تھیلا بھی اسی ڈھیر میں شامل کر دیتے ہیں۔ بلا سوچے سمجھے کہ اسے اٹھا کرکون لے جائے گا؟ ڈھیر اونچا ہوتا چلاجاتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کسی کو یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کہ متعلقہ محکمے کو فون کرکے اس کی بے حسی کو جھنجوڑے۔ ڈنڈوں کی مار نہ سہی ، لفظوں کی مار تو دے۔ہم کہتے ہیں ہماری بلا سے ۔بچوں کے امتحانات ہونیوالے ہیں۔ وہ سرجھکا کر پڑھائی میں مصروف ہیں۔ گلی میں لگے ہوئے شامیانے سے ریکارڈنگ ہونے لگتی ہے۔ کان پھاڑ دینے والی آواز سے محلہ گونجنے لگتا ہے۔ درودیوار لرزنے لگتے ہیں۔کوئی دبی زبان سے احتجاج کرے توکہتے ہیں کہ شادی ہو رہی ہے،گانا بجانا تو ہوتا ہی ہے۔ (ہم حقیقت میں گانے بجانے کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے)۔ گانا بجانا وہ بھی پُر شور آواز کے ساتھ تاکہ دوسرے محلوں تک آواز پہنچ جائے۔ ہمارے ہاں شادی ہو رہی ہے کوئی معمولی بات تھوڑی ہے!

رش کے اوقات میں سب کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے۔ جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنی گاڑی کا پہیہ گھسیڑ دیتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ پہیہ گزر جائے گا تو گاڑی بھی گزر جائے گی۔ جہاں جس کے سینگ سماتے ہیں وہ گاڑی بڑھا دیتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو منطق کیمطابق نکلنا چاہیے،تھوڑی سی دیر میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ اس موقعے پر کانسٹیبل غائب ہوتا ہے۔ ہم چند منٹ کی عجلت میں گھنٹوں ضایع کر دیتے ہیں۔دل چسپ بات یہ کہ آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیتے۔گاڑیاں پرانے ڈھرے پر چل پڑتی ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے،بڑے شہروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے کوئی سماج سدھارنے کاکوئی ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا؟

تہوار کے موقعوں پر سب پر بدحواسی طاری ہوتی ہے۔ عید ہو،بقر عید ہو، شب برات ہو یا عاشورہ۔ ہر ایک ہیجان میں مبتلا ہے۔ بازاروں میں قطار کہیں نہیں بنی ہوتی۔ ہر ایک کو جلدی ہے۔ چنانچہ دہی دودھ لینا ہو یا مٹھائی،سب کاؤنٹر کو گھیرے کھڑے ہوتے ہیں اور اونچی آواز میں یہ لینا، وہ دینا چیخ رہے ہوتے ہیں۔ دھکم پیل میں کچھ چیزیں ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے بھی گر جاتی ہیں۔ کوالٹی کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ یہ چیز چاہیے، وہ چیز چاہیے کیسی بھی ہے، بس ملنا چاہیے۔ کسی پر اخلاقی حد عائد نہیں ہوتی۔

سب چلتا ہے۔ جوتے کی دکان پر تین نمبر کا جوتا کھینچ کھانچ کردو نمبر والا پہن لیتا ہے اور دو نمبری کو تین نمبر کا جوتا راس آجاتا ہے۔درزی لوڈ شیڈنگ کا عذر پیش کر کے گاہکوں کو مایوس لوٹا دیتا ہے۔ کل آئیے گا ،پرسوں آئیے گا۔ آپ بھی کھینچ کھانچ کر کپڑے پہن لیتے ہیں۔ ماسٹر کہتا ہے اگر کوئی نقص رہ گیا ہے تو بعد میں درست کر دوں گا۔آپ مطمئن ہوکر گھر آجاتے ہیں۔کیوں کہ بے مثال قوموں کی طرح ہم نے کوئی لائحہ عمل ترتیب ہی نہیں دیا ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اگر درزی وقت پر کپڑے نہ دے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ دینی تقریب ہے۔ہر چیز سج دھج جاتی ہے۔ اسٹیج بنا ہوا ہے۔ یہ طے ہوگیا ہے کہ واعظ کی کرسی کہاں لگے گی۔ عطر گلاب چھڑکا جا چکا ہے۔ ہر چیز مہک رہی ہے۔

ماحول پاکیزہ اور متبرک ہو چکا  ہے۔ اب رہی لائٹ، تو اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کنڈا ڈال دیا جاتا ہے۔ دیانت، امانت، شرافت اور وحدانیت پر وعظ ہو نے لگتا ہے۔ لائٹ سرکار کی ہے، جس پر کوئی پائی پیسہ نہیں دینا پڑتا۔ دین کے راستے میں خرابات اور خرافات حائل ہے۔ کسی کو پروا ہی نہیں۔ کرنا کیا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ اس کا پتا ہی نہیں ہے۔ واعظ اپنا وعظ کہہ رہا ہے، ہم سن رہے ہیں، مگر کر وہی رہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔

ماہ رمضان آتا ہے تو مسجدیں نمازیوں سے پُر ہوتی ہیں۔ تلاوت ہوتی ہے، حمد،نعت سے گلی کوچے گونجنے لگتے ہیں، زکوٰۃ خیرات کی ریل پیل ہوتی ہے۔ پھر عید کا چاند دکھائی دیتا ہے اور سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہمہ وقت جھاگ اٹھ رہا تھا جو عید کا چاند نکلتے ہی بیٹھ گیا ہے۔ گاڑی پرانے ٹریک پر چلنے لگتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جنت مٹھی میں آگئی۔ اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئندہ برس پھردیکھا جائے گا۔قرآن پاک پھر جزدانوں میں چلا جاتا ہے،جائے نمازیں لپیٹ دی جاتی ہیں۔نیکی کرنا اور اللہ کی راہ پر چلنا غالباً اسی مہینے میں ہونا چاہیے تھا۔روز روز کی زحمت کون کرے۔یہ سوچنا کوئی گوارا نہیں کرتا کہ ثواب صرف رمضان ہی میں نہیں ملتا۔جب بھی کوئی نیکی کریں ،فرشتہ ہمارے نامۂ اعمال میں نیکی لکھ دیتا ہے۔

اس کے لیے مہینے اور وقت کی کیا قید ہے؟امتحانات ہو رہے ہیں،سارے سال کا کورس ایک رات میں پڑھ لیا گیا ہے۔کچھ کارتوس بنالیے گئے ہیں۔ کچھ پارٹی کی بنیاد پر اساتذہ پر دباؤ ڈلوا دیا ہے۔ جو پارٹی کے جتنا نزدیک ہے ،اس کے پوہ بارہ ہیں۔ وہ کتاب کھول کر بھی پرچہ حل کر سکتا ہے۔ ہے کوئی مائی کا لال جو اس طالب علم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ کون پوچھنے والا ہے؟ ہر سال یہی ہوتا ہے ،کچھ اسکولوں کے بارے میں خراب رپورٹیں نکلتی ہیں۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ہر سال یہی ہوتا ہے۔ سوچنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں ہے۔ رزلٹ آتا ہے، ڈگریاں مل جاتی ہیں، جب یہی ڈگری لے کر ہم دیار غیر میں جاتے ہیں تو انھیں بے توقیر اور غیر معتبر سمجھا جاتا ہے۔

اپنے ملک میں جو تعلیم حاصل کی تھی وہ دوبارہ حاصل کرنا پڑتی ہے۔بغیر تعلیم حاصل کیے ڈگری یافتہ طالب علم،دباؤ میں دب جانے والے اساتذہ،پارٹیوں کے رہنما،کوئی سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ جب ہم تعلیم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو تعلیم بھی ہم سے مذاق کرتی ہے۔سفارش ہمارا نصب العین ہے۔ ہرکام ہم اہلیت کے بجائے سفارش کی بنیاد پر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔چنانچہ ہمیں کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو یا کوئی ملازمت حاصل کرنا ہو،اپنی درخواستوں میں پہیے لگاتے ہیں۔

صاحب اختیار تک پرچیاں پہنچاتے ہیں۔چٹھی نہیں تو پھرمٹھی۔ ہم اس معاملے میں بھی فطانت اور شاطری کی باگیں تھامیں سب سے آگے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کرپشن میں ہمارا کون سا نمبر ہے یا ہم کتنے نمبری ہیں۔ہر چیز روایت کے خوشنما قالین میں لپٹی ہوئی ہے۔

کیا دین،کیا دنیا داری۔سب ایک ہی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ واعظ اپنا وعظ کہہ رہا ہے،وہی رٹی رٹائی باتیں۔اساتذہ ہر دن طالب علموں کو اچھا شہری بننے کی تلقین کر رہے ہیں، طالب علم اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال رہے ہیں۔لیڈران کرام ملک کا نقشہ بدل دینے کے دعوے کر رہے ہیں،جلسے میں بیٹھنے والے سن رہے اور مسکرا کر سر ہلا رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس سے پہلے والے بھی یہی کچھ کہہ رہے تھے 2015ء میں بھی یہی کچھ کہا جائے گا۔ہوناکچھ نہیں ہے۔اس لیے کہ ’’ہم‘‘ کچھ نہیں کرنا چاہتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔