’’دی انٹرویو‘‘، شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے گئی

ندیم سبحان  اتوار 18 جنوری 2015
متنازع فلم میں کم جونگ اُن کی ہلاکت اور ایشیائی ملک کو جمہوریہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

متنازع فلم میں کم جونگ اُن کی ہلاکت اور ایشیائی ملک کو جمہوریہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکا بہادر، شمالی کوریا کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتا ہے مگر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ ملک عراق اور افغانستان نہیں جس پر وہ بلاخوف و خطر چڑھ دوڑے۔ چناں چہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہ گاہے بگاہے اپنے دشمن کو زچ کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔

امریکی ایما پر عالمی ذرائع ابلاغ شمالی کوریا اور کم جونگ اُن کی شبیہہ مسخ کرنے میں عرصے سے مصروف ہیں، اور ’’ دی انٹرویو‘‘ کے ذریعے اب ہالی وڈ بھی اس مہم میں شامل ہوگیا ہے۔ اس متنازع فلم میں شمالی کوریا کے حکم راں کِم جونگ اُن کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے جسے امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) قتل کرنے کا منصوبہ بناتی ہے اور بالآخر اس میں کام یاب ہوجاتی ہے۔

’’دی انٹرویو‘‘ کے ہدایت کار اور پیش کار سیتھ روجن اور ایوان گولڈ برگ ہیں۔ فلم کی کہانی کے مطابق سی آئی اے ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان اور پیش کار کو کم جونگ اُن کے قتل پر آمادہ کرتی ہے ( یہ کردار بالترتیب جیمز فرانکو اور سیتھ روجن نے ادا کیے ہیں)۔ دونوں کردار انٹرویو کے بہانے شمالی کوریا پہنچتے ہیں۔ یہاں وہ ایک خاتون سرکاری ملازم کی مدد سے کم جونگ اُن کی اصل شخصیت کو عوام کے سامنے لانے اور بالآخر اسے ہلاک کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ کم جونگ اُن کا کردار رینڈل پارک نے ادا کیا ہے۔ فلم کو مزاحیہ انداز میں بنایا گیا ہے۔ اس میں شمالی کوریا کے فرمانروا کی تضحیک بھی کی گئی ہے اور ملک کو جمہوریہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر بُش نے شمالی کوریا کو ’برائی کا محور‘ قرار دیا تھا۔ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہی کی وجہ سے جنوبی کوریا میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ 1958ء میں امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بھی جنوبی کوریا میں ذخیرہ کیے تھے۔ یہ ہتھیار1991ء تک جنوبی کوریا کی سرزمین پر موجود رہے تھے۔ یوں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان دشمنی کی تاریخ کئی عشروں پر محیط ہے۔

سیتھ روجن اور ایوان گولڈ برگ کو ’’دی انٹرویو‘‘ بنانے کا خیال چند برس پہلے آیا تھا، جب کم جونگ اُن کے والد کم جونگ اِل حکم راں تھے۔ انھوں نے اس سلسلے میں تیاریوں کا آغاز بھی کردیا تھا کہ سنیئر کم جونگ راہیٔ ملکِ عدم ہوگئے۔ ان کے بعد زمامِ اقتدار جواں سال کم جونگ اُن کے ہاتھ میں آگئی۔ سیتھ اور ایوان کو ازسرنو ابتدائی تیاریوں کا مرحلہ انجام دینا پڑا۔ انھوں نے فلم کی تیاری کا باقاعدہ اعلان مارچ 2013 ء میں کیا۔ رینڈل پارک کو پہلے ہی آڈیشن کے بعد کم جونگ اُن کے کردار میں منتخب کرلیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے مرکزی اداکار جیمز فرانکو کا انتخاب عمل میں آیا۔ تیسرے مرکزی کردار میں سیتھ روجن نے خود اپنی صلاحیتیں آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فلم کی تقسیم کے حقوق کے لیے کولمبیا پکچرز سے معاملات طے پاگئے تھے جو جاپانی کمپنی سونی کے ذیلی ادارے سونی پکچرز اینٹرٹینمنٹ کی ذیلی شاخ ہے۔

’’دی انٹرویو‘‘ پر شمالی کوریا کی جانب سے پہلا ردعمل 20 جون 2014ء کو سامنے آیا جب غیررسمی حکومتی ترجمان کم میانگ چول نے کہا،’’امریکی حکومت اور امریکی عوام شمالی کوریا میں بھی وہی کچھ کرنے کے شدت سے آرزو مند ہیں جو وہ افغانستان، عراق، شام اور یوکرین میں کرچکے ہیں۔ یہ فلم ان کی اسی خواہش کا آئینہ ہوگی۔‘‘ پانچ روز کے بعد شمالی کوریا کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے خبر دی کہ فلم ریلیز ہونے کی صورت میں حکومت نے سخت اور بے رحمانہ ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر میں مزید کہا گیا تھا،’’ایسی فلم بنانا اور ریلیز کرنا جس میں ہماری اعلیٰ ترین لیڈرشپ کو حملے کا نشانہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہو، دہشت گردی اور جنگ کا بدترین عمل ہے، جسے مطلق برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

شمالی کوریا نے ’’دی انٹرویو‘‘ کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا۔ 11 جولائی 2014ء کو اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر جا سونگ نم نے کہا،’’ایک ایسی فلم کی تیاری اور تقسیم کو جس میں ایک خودمختار ریاست کے موجودہ حکم راں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو، دہشت گردی کو فروغ دینے کا صریح عمل اور جنگی اقدام سمجھا جانا چاہیے۔‘‘

شمالی کوریا کے احتجاج کے بعد سونی پکچرز نے ’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز 25 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلم کو شمالی کوریا کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اس میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور کم جونگ اُن کی ہلاکت سمیت شدید قابل اعتراض مناظر نکال دیے جائیں گے، تاہم اس پر عمل نہیں ہوا۔

’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز میں بھی کئی موڑ آئے۔ 24 نومبر کو سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ کا کمپیوٹر نیٹ ورک ہیک کرلیا گیا۔ اس کارروائی کی ذمے داری ہیکرز کے ’’گارجینز آف پیس‘‘ نامی ایک غیرمعروف گروپ نے قبول کی۔ ہیکروں نے سونی کی ای میلز، ملازمین کے ریکارڈ، اور کئی حالیہ اور غیرریلیز شدہ فلمیں انٹرنیٹ پر جاری کردیں۔ امریکی حکام کی جانب سے اس ’حرکت‘ کا ذمہ دار شمالی کوریا کو ٹھیرایا گیا مگر شمالی کوریا نے ایسے کسی فعل میں ملوث ہونے کی تردید کردی۔

16دسمبر کو ہیکرز نے فلم بینوں کو دھمکی دی کہ وہ ’’دی انٹرویو‘‘ کے نیویارک میں ہونے والے پریمیئر میں شرکت نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنیما مالکان کو بھی دھمکاتے ہوئے کہا کہ اس فلم کی نمائش کی صورت میں وہ حملوں کے لیے تیار رہیں۔

ہیکرز کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد ’’دی انٹرویو‘‘ کے اداکار تشہیری پروگراموں میں شرکت کرنے سے انکاری ہوگئے اور سونی نے بھی ٹیلی ویژن پر فلم کے اشتہارات چلوانے بند کردیے۔ اگلے ہی روز تمام بڑے سنیماؤں نے بھی اس فلم کی نمائش کرنے سے انکار کردیا۔ بعدازاں سونی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ’’دی انٹرویو‘‘ ریلیز نہیں کرے گی۔

اس فیصلے پر سونی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ باراک اوباما نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران سونی کے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا،’’میرے خیال میں سونی نے یہ فیصلہ کرکے غلطی ہے۔ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کسی دوسری جگہ پر بیٹھا ہوا آمر امریکا میں سنسرشپ نافذ کرنے لگے۔ میری خواہش تھی کہ وہ ( سونی کے کرتا دھرتا) یہ فیصلہ کرنے سے پہلے مجھ سے بات کرتے۔ میں ان سے کہتا کی کسی کی دھمکی میں مت آؤ۔‘‘

امریکی صدر کی کانفرنس کے بعد سونی اینٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مائیکل لنٹن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فلم کی ریلیز منسوخ کرنے کا سبب ہیکرز کی طرف سے ملنے والی دھمکیاں نہیں بلکہ سنیما مالکان کا فلم کی نمائش کرنے سے انکار تھا۔ لنٹن نے کہا کہ ہم آزادیٔ اظہار پر یقین رکھتے ہیں اور دھمکیوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر ’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز کے دیگر ذرائع تلاش کریں گے۔

اس ’وضاحت‘ کے بعد چند روز تک ذرائع ابلاغ میں خبریں آتی رہیں کہ وائٹ ہاؤس اور فلم انڈسٹری کے مسلسل دباؤ کے سبب سونی کی انتظامیہ فلم ریلیز کرنے پر غور کررہی ہے۔ سونی نے 25 دسمبر سے محدود پیمانے پر فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا۔ چناں چہ ایک طویل انتظار اور کش مکش کے بعد یہ متنازع فلم تین سو سے زاید ’آزاد‘ اور ’آرٹ ہاؤس‘ سنیماؤں کی زینت بن گئی۔ سنیماؤں کے ساتھ ساتھ ’’دی انٹرویو‘‘ آن لائن موویز دکھانے والی سروسز اور ویب سائٹس پر بھی جاری کردی گئی۔ ان ویب سائٹ اور سروسز پر یہ فلم معاوضے کی ادائیگی پر آن لائن بھی دیکھی جاسکتی تھی اور اسے ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا تھا۔ تاہم سیکیوریٹی نقص کے باعث چند ہی گھنٹوں میں یہ فلم فائل شیئرنگ ویب سائٹس پر بھی دست یاب ہوگئی، جس کے بعد اسے بڑی تعداد میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔

شمالی کوریا نے ’’دی انٹرویو‘‘ کی نمائش کے لیے امریکی صدر کو ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے انہیں استوائی جنگلوں میں بھٹکنے والے بندر سے تشبیہہ دے ڈالی۔

حال ہی میں جنوبی کوریا نے غباروں کے ذریعے ’’دی انٹرویو‘‘ کی ڈی وی ڈیز شمالی کوریا کی سرزمین پر گرانے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل یہ اعلان جنوبی کوریا میں انسانی حقوق کے کارکن پارک سینگ ہاک نے کیا ہے، جسے اس معاملے میں حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پارک کے مطابق گیس کے غباروں سے باندھ کر ’’دی انٹرویو‘‘ کی ایک لاکھ ڈی وی ڈی ز اور یو ایس بی ز شمالی کوریا پہنچائی جائیں گی۔ اس سلسلے میں پارک کو امریکی این جی او ’’ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’فائٹرز فار اے فری نارتھ کوریا‘‘ کا تعاون بھی حاصل ہے، جو اسے کورین سب ٹائٹل کے ساتھ ڈی وی ڈیز اور یو ایس بی میموری اسٹکس فراہم کریں گی۔ یہ ادارے اس سے پہلے بھی اس نوع کا اقدام کرچکے ہیں۔ ماضی میں انھوں نے کورین وکی پیڈیا کی نقول ہو اکے دوش پر شمالی کوریا کی جانب روانہ کی تھیں۔

جنوبی کوریا کے اس اقدام پر جواباً شمالی کوریا نے اعلان کیا جو شہری ’’دی انٹرویو‘‘ سے لطف اندوز ہوتا ہوا پایا گیا اسے گولی مار دی جائے گی۔

شمالی کوریا کو اگر ’بند ملک‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ اس سرزمین کی خبریں بیرونی دنیا تک کم کم ہی پہنچ پاتی ہیں۔ کہنے کو تو شمالی کوریا عوامی جمہوریہ ہے مگر عملاً وہاں ایسا انداز حکم رانی رائج ہے جو آمرانہ طرز حکومت کی اصطلاح پر پورا اترتا ہے۔ شمالی کوریا میں موروثی حکومت چلی آرہی ہے۔ کم جونگ اُن سے پہلے زمام اقتدار ان کے والد کم جونگ ال کے ہاتھ میں تھی۔ ان سے پہلے کم جونگ اُن کے دادا کم ال سنگ 1948 سے 1994 تک وزیراعظم و صدر رہے تھے۔

اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے شمالی کوریا کے حکم راں مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ ملک کو ایک ’بند ملک‘ میں بدل دینا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم دسمبر 2011ء میں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد کم جونگ اُن نے کچھ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جنھیں بیرونی دنیا نے تمسخرانہ انداز میں دیکھا۔ مثلاً پہلے یونی ورسٹی کے طلبا پر اپنے حکم راں کے ہیئراسٹائل کی نقل کرنا لازم قرار دیا گیا۔ پھر کم جونگ اُن کے حالات زندگی کے مطالعے کو مضمون کی شکل دے کر تدریسی نصاب کا حصہ بنادیا گیا۔ بعدازاں عوام کو پابند کردیا گیا وہ نومولود بچوں کے نام کم جونگ اُن نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ ملک میں ایک ہی کم جونگ اُن رہ سکتا ہے۔ انھیں یہ ہدایت بھی کی گئی جن افراد کے نام کم جونگ اُن ہیں وہ اپنے نام بدل ڈالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔