سوشل میڈیا اور ہم

ابو عقبہ  جمعـء 16 جنوری 2015
ذمے داریوں سے کچھ وقت ملا تو بہت دن بعد فیس بک استعمال کیا۔  سوچا تھا کچھ شغل کریں گے، یار دوستوں سے گپ لگائیں گے لیکن فیس بک پر لینڈ کرتے ہی ایک زوردار جھٹکے نے ہمارا استقبال کیا۔ فوٹو: فائل

ذمے داریوں سے کچھ وقت ملا تو بہت دن بعد فیس بک استعمال کیا۔ سوچا تھا کچھ شغل کریں گے، یار دوستوں سے گپ لگائیں گے لیکن فیس بک پر لینڈ کرتے ہی ایک زوردار جھٹکے نے ہمارا استقبال کیا۔ فوٹو: فائل

اگر آپ شادی شدہ ہیں اور ماشا الله 2,3  بچوں کے والد محترم بھی ہیں تو ظاہر ہے بیوی بچوں کی ذمے داری ادا کرنے کے لئے نوکری بھی کرتے ہی ہونگے اور ایسے میں گھر اور نوکری ہی زندگی کا محور ہوجاتی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

ہمارا بھی حال کچھ مختلف نہیں۔ بس انہی ذمے داریوں سے کچھ وقت ملا تو کل رات بہت عرصے بعد فیس بک کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا، چونکہ استعمال کیے ہوئے بہت دن ہوچکے تھے اِس لیے پاس ورڈ کچھ بھول سا گیا تھا ۔۔۔۔ مگر پھر ذہن پر زور دیا تو یاد آ ہی گیا۔

سوچا تھا کچھ شغل کریں گے، یار دوستوں سے گپ لگائیں گے لیکن فیس بک پر لینڈ کرتے ہی ایک زوردار جھٹکا لگا۔ اپنے ایک پُرانے دوست کی دوسری شادی کی ایک بھرپور چٹ پٹی پوسٹ چل رہی تھی اور یار دوست خوب تجزیے اور تبصروں کے ساتھ شیر بھی کرتے جا رہے تھے۔ کچھ تبصرے تو ایسے تھے جسے پڑھ کے غصہ بھی آیا اور شرم بھی آئی کہ کوئی کیسے کسی کو جانے بغیراس طرح کی بات کرسکتا ہے لیکن کیا کریں صاحب ہم سب کے پاس ’’آزادی رائے‘‘ کا لائسنس جو ہے-

خیر ہم تبصرہ کیا کرتے، موبائل اٹھایا اوردوست کا نمبر ڈائل کردیا۔ موصوف نے کچھ تاخیر سے فون اٹھایا تو ہم نے سوچا نئی نئی شادی ہے موصوف شاید مصروف ہونگے۔ بعد ازسلام ہم نے فورن ہی مدعا بیان کردیا تو جواب میں4، 2 مضبوط قسم کی گالیوں کے ساتھ گویا ہوئےکے کسی نے ’مذاق‘ کیا ہے۔ ہماری تصویر کسی نامعلوم خاتون کے ساتھ لگاکر اپنے پیج پر مبارکباد کے ساتھ لگادی اور ساتھ ہی ہمارے دوستوں اورعزیز رشتےداروں کو ٹیگ بھی کردیا۔ کل سے ہر ایک کو یہی کہانی سنا رہا ہوں لیکن پیج پر پوسٹ اب بھی موجود ہے اور یہ ہم کو معلوم نہیں کہ اس پیج کے ایڈمن کون صاحب بہادر ہیں۔ لہٰذا جب تک پوسٹ ڈیلیٹ نہیں ہوجاتی ہماری زندگی تو تباہ ہی سمجھیں- ہم نے بھی جواب میں پیج کے نامعلوم ایڈمن صاحب کی عزت افزائی کی اور تسلی دے کر فون بند کر دیا-

یہ تو ایک مذاق تھا جو کہ بہرحال نہیں ہونا چاہیے تھا اور اُمید یہی ہے کہ پوسٹ بھی جلد ڈیلیٹ ہوجائے گی اور لوگ بھول بھال جائیں گے۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر یہی پوسٹ دوسری شادی کی نہ ہوتی بلکہ ہمارے دوست پر کسی کو قتل یا اغوا کرنے کے بارے میں ہوتی، کسی خاتون کے ساتھ بد تہذیبی، کوئی فراڈ یا پھر خدا نخوستہ توہین رسالت کے حوالے سے ہوتی تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس قسم کی خبروں پر کیسے ری ایکٹ کرتا ہے؟

فیس بک اور دوسری کوئی بھی سوشل میڈیا ویب سائٹ آپ کو یقیناً آزادی اظہار کا بھرپورموقع دیتی ہے۔ آپ پروفائل کے ساتھ ساتھ اپنا پیج اور گروپ بھی بنا سکتے ہیں لیکن کیا کہنا ہے، کیا لکھنا ہے، کیا شیر کرنا ہے اور کس کو رپورٹ کرنا ہے یہ میری اور آپ کی ذاتی اور اہم ذمےداری ہے۔

ہم اگر اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بلا تحقیق ہر چیز کو آگے بڑھائیں جس سے کسی کی جان، مال  یا کردار کو نقصان ہوجائے تو اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہونگےاور ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں ہم کو کوئی نہ پوچھ پائے لیکن اگر ہم مسلمان ہیں اور الله کے سامنے ہر عمل کی جوابدہی پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر ہمارا ہر ’کلک‘ ہمارے اعمال میں لکھا جائے گا۔

سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کریں لیکن اس سوچ کے ساتھ کہ ہم نے اس ذریعے کو پاکستان میں ایک پُرامن اور باشعور معاشرے کے قیام کے لئے استعمال کرنا ہے۔ رواداری اور برداشت کا ماحول بنانا ہے، نفرتوں کو ختم اور محبّت کو فروغ دینا ہے-

قرآن کریم میں الله تعالیٰ  فرماتے ہیں،

’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘ الحجرات

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں.

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔