16دسمبر 2014 …تجدید عہد کا دن

جاوید قاضی  جمعـء 16 جنوری 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جتنا بھی سانحہ پشاور پر لکھا جائے بہت کم ہے۔ آج اس واقعے کو ایک مہینہ بیت گیا اور ایسے کتنے مہینے بیت جائیں گے مگر یہ زخم ہمارے وجود کا بھر نہ پائے گا۔ ہم بھول نہ پائیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس واقعے نے پوری قوم کو ایک کردیا وہ قوم جو اچھے اور برے طالبان کے فرق میں بٹی ہوئی تھی جو یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہماری جنگ نہیں وہ سارے فرق اب دور ہوئے مگر ہم اپنی تاریخ کا ادراک کرنا کبھی نہ بھولیں۔ اور اگر ہم تاریخ کا ادراک کرنا بھول گئے تو ہم پھر سے بھٹک جائیں گے۔ وہ اس لیے کہ یہ سب جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا یا ہو رہا ہے ، اس لیے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کیا تھا یہ اس کا ثمر تھا جو آج ہم اس مشکل میں پھنسے ۔

وہ حقیقت کہ یہ ملک جمہوریت کے ذریعے بنا تھا اور جمہوریت کے لیے بنا تھا۔ اور جمہوریت کبھی بھی کالی نیلی سفید نہیں ہوا کرتی وہ تو فیصلہ کرتی ہے کہ حق حکمرانی عوام کا ہی حق ہے۔

یہ حقیقت کہ یہ ملک فیڈریشن ہے، اور یہ بحث کسی اور نے نہیں بلکہ بابائے قوم جناح نے متحدہ ہندوستان میں کی تھی جس سے نہرو والے کتراتے تھے اور بالآخر جناح کی اس بحث نے 1935 کے G 1 ACT کو جنم دیا ، ہندوستان پہلی مرتبہ فیڈریشن بن کر ابھرا۔ یہ وہ تسلسل تھا جس نے 1940 کی قرارداد کو جنم دیا۔

یہ حقیقت کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی فعل ہوگا اور ہر فرد کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے مذہب کے فریضے اپنی مرضی کے ساتھ ادا کرے اور یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ گیارہ اگست 1947 کو جناح نے آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ ہم نے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 20 میں بھی یہی بات کی ہے اور بھلا ہو جسٹس تصدق حسین جیلانی والی سپریم کورٹ کی بینچ کا جس نے جون 2014 کو ایک بہت بڑا فیصلہ سنایا اور اسی عزم کو دوہرایا جس کے بارے میں جناح نے گیارہ اگست 1947 میں تشریح کی تھی۔

یہ حقیقت کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہوگی اس کو Judicial Reviewکا آفاقی اختیار ہوگا ۔ہر اس اختیار پر جو آئین دیتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ایسے اختیار رکھنے والے نے اپنے اس اختیار سے تجاوز تو نہیں کیا۔ جسے قانونی زبان میں Ultra Vires کہا جاتا ہے۔

یہ حقیقت کہ ہمارا ملک مسلمانوں کا جمہوری ملک ہوگا وہ مسلمانجن کے مختلف فرقے بھی آتے ہیں اور ایسا مسلمانوں کا اکثریتی روادارانہ ملک جس میں طرح طرح کی اقلیتیں ہوں گی اور سب کے حقوق اس آفاقی منطق پر وضع ہوں گے جو UNO Charter میں بیان کردہ ہیں۔

یہ حقیقت کہ اس ملک کے ہر فرد کے بنیادی حقوق ہوں گے اور وہ حقوق آئین میں موجود ہوں گے اور اس کی ضمانت کچھ اس طرح سے دی ہوئی ہے کہ اگر اس کی پامالی ہو تو ایسا شخص اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا سکتا ہے اور ایسی عدالتوں پر لازم ہے کہ آئین میں وضع کیے ہوئے ایسے شہری کے بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑے۔ریاست عملی و معنوی طورکے ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت ہو۔ ’’جان‘‘ کوئی چھوٹا لفظ نہیں۔

اس کے بہت وسیع معنی ہیں اور اگر اس کی تشریح کرنے بیٹھیں تو خود پورا آئین اس ایک نقطے سے پھیل کر وسیع بن جائے گا۔جان کے لفظ میں دریا کو کوزے میں بند سمجھئے ۔ ’’جان‘‘ دشت تنہائیوں میں نہیں رہا کرتی وہ سماج میں رہتی ہے اور اسے سماج ہی چاہیے، جہاں وہ پارک میں جا سکے، بیمار ہو تو اسپتال جاسکے، بچے ہوں تو اسکول میں میٹرک تک مفت تعلیم کے لیے بھیجے جا سکیں اور اگر انہیں مارنا یا سزا دینی ہے اس لیے کہ اس نے سماجی اقدار کی پامالی کی ہے تو سارے قانونی تقاضے پورے کر کے ایسا فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔

ان واضح باتوں کے لیے بنا تھا پاکستان۔ اور ان باتوں کے لیے لیا تھا ہم نے پاکستان ۔ ہمارے اجداد کو ڈر تھا کہ ہمارے ساتھ متحدہ ہندوستان میں انصاف نہیں ہوگا اور اس کے لیے ایک پوری تاریخ پڑی تھی۔ ورنہ ہمارے جناح نے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے جو شروع کے دنوں میں جدوجہد کی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور آج ہندوستان میں جو مسلمانوں کی حالت زار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مسلمانوں کی 90 فیصد آبادی نشیبی آبادی والے مکانوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ یہاں تک تو بالکل ٹھیک ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمارے اجداد نے صحیح فیصلہ کیا۔ لیکن آگے جاکے ہم بھٹک جاتے ہیں۔ یہ اس بھٹکنے کا ثمر ہے جو آج ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں ، لیکن اس سے نکلنے کا ابھی طریقہ موجود ہے اور وہ ہے جو آفاقی ہے، جو قابل عمل ہے ، جو ہمارے اجداد نے ہمارے لیے وضع کیا تھا۔

ہمارے جناح کے جانے کے بعد ہم نے انحرافی کی کہ اس ملک کو آئین نہ دے سکے۔ جب کہ ہندوستان اسی عرصے میں آئین دے دیتا ہے۔

برطانیہ کے House of Common نے جو Independence Act 1974 دیا تھا اس کے تحت دو آئین ساز اسمبلیاں دی تھیں۔ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کو ملا ہوا مینڈیٹ پورا ہوگیا۔ مگر ہمارا ادھورا رہ گیا۔ نہرو نے یہ کبھی نہیں کہا کہ کانگریس سے غداری ہندوستان سے غداری کے برابر ہوگا۔ لیکن ہم نے کہا مسلم لیگ سے غداری پاکستان سے غداری کے برابر ہوگا۔

ہم یہ بھول گئے کہ پاکستان 1940 کی قرارداد کا تسلسل ہے۔ ہم نے جناح کی گیارہ اگست والی تقریر کو ریکارڈ سے غائب کردیا۔ ریڈیو پاکستان سے وہ ریکارڈنگ نکلوا دی ، مگر جب سول قیادت نے انحرافی کی تو عسکری قیادت بھی بھانپ گئی کہ یہ کام ان کے بس کا روگ نہیں اور پھر یوں ہوا تھا حقیقت کا مسخ ہونا ، یوں پہنچے تھے ہم بالآخر 16دسمبر 1971 کو ….اور پھر سے ہم تاریخ کی صحیح سمت طے کرنے پر لگ گئے۔ بالآخر تین سال میں اس ملک کو آئین دینے میں کامیاب ہوگئے۔ ایسا آئین جو ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کو اپنے اندر آرٹیکل 20 کرکے جذب کرتا ہے۔ ان کا آئین بھی G 1 ACT 1935 کا تسلسل تھا تو ہمارا بھی ۔ ان کا آئین بھی امریکا کے آئین سے ناتہ جوڑتا ہے تو ہمارا آئین بھی ، ان کو آئین بھی بنیادی حقوق کے ریڑھ کی ہڈی سمجھتا ہے تو ہمارا آئین بھی۔

مگر پھر ہم بھٹک گئے، ہم اپنی تاریخ بھول گئے اور اس کو مسخ کرنے کا کام شروع کیا۔ بھٹو صاحب کو بھی آمر بننے کی سوجھی اور ایسا موقع اس وقت کی عسکری قیادت بھلا کیوں کر گنوائے۔ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی مقبول لیڈر بالآخر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس کے جانے کی بعد جو ہم نے تاریخ کو اور اپنے آئین کو مسخ کرنا شروع کردیا۔ ہم مذہب کو ریاستی امور میں اس حد تک کھینچ لائے کہ آج کون صحیح مسلمان ہے اور کون نہیں ؟ ایک دردناک سیاسی، سماجی اور مذہبی بھنور میں پھنس گئے۔

ہم نے 16 دسمبر 2014 کو پھر ایک عہد کیا ہے کہ اس بار ہم اپنی سمت درست کریں گے۔ تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر جہاں پوری دنیا ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے وہ اس لیے کہ جب ہم اپنی راہ بھٹک گئے تھے تو سرد جنگ کے زمانے کے نوآبادیاتی نظام میں دنیا بٹی ہوئی تھی۔ دنیا میں اشتراکیت اور سامراج کا آپس میں نظریاتی ٹکراؤ تھا۔ پھر اشتراکیت ہار بیٹھی اور سامراج جیت گیا مگر سامراج نے وہی نوآبادیاتی منظر رواں رکھا۔ مسلمانوں میں پیدا کیے ہوئے آمروں کے تسلسل کو جاری رکھا۔

ایک مرتبہ پھر سے عرب دنیا میں ٹکراؤ ہے، وہ اپنی سمت بیٹھے گا اور ہم بھی اپنی سمت بیٹھیں گے ، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا اس ملک کے آگے جانے کے سارے راستے وہی ہیں جو جناح نے بتائے تھے اور یہی ہے Basic Structure ہمارے آئین کا۔ جسے آج نہیں تو کل کورٹ نے واضح کرنا ہے۔ ہمارے آگے جانے کے سارے راستے ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی تاریخ کو صحیح طرح رقم کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔