کھلونے پوچھتے ہیں

صفورا خیری  جمعـء 16 جنوری 2015

کتنے دن پہلے تم نے مجھ میں چابی بھر کر تالیاں بجوائی تھیں
کتنے دن پہلے تم نے میری گڈے سے شادی رچائی تھی
کتنے دن پہلے تم مجھ پر سوار ہوکر پورے آنگن میں چکر لگاتے تھے

مگر اب ہم سب اس شو کیس میں بے حس و حرکت پڑے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جیل میں ہوں بلکہ اس سے بھی بدتر کہ کم ازکم جیل کا دروازہ قیدیوں کے کھانے کے لیے دن میں دو ایک بار تو کھل جاتا ہے۔ تمہاری تصویریں اس خوبصورت ڈرائنگ روم کے کارنس پر سجی ہوئی ہیں کہیں تم ہمارے ساتھ کھیل رہے ہو اور کہیں اپنے امی ابو کے ساتھ بیٹھے مسکرا رہے ہو مگر اب وہ اندھیرا ہے کہ تنہائی ہے خوف آتا ہے ہم سب ایک ساتھ ہیں مگر کوئی کسی سے نہیں بول رہا ہے سب کی نظریں تمہاری تصویروں پر مرکوز ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ابھی ہنس دو گے اور ہم سے کھیل کر اپنے مخصوص انداز میں اپنی امی سے کہو گے:

’’اچھا امی! اب ہم ہوم ورک کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا امی! مولوی صاحب آگئے، آج میرا تیسواں پارا ختم ہوجائے گا آپ نے کہا تھا کہ منے! تم جب قرآن ختم کر لوگے تو میں بہت بڑی تقریب دوں گی اور تقریب کے کارڈ پر تمہاری تصویر بھی چھپواؤں گی۔‘‘

’’پھر تم پڑھنے بیٹھ جاؤگے تھوڑی دیر میں ننھی آجائے گی اور ہم سے کھیلنے کی ضد کرے گی تم ناراض ہوجاؤ گے اور کہوگے:

’’نہیں ابھی کھیلنے کا وقت نہیں ہے، میرے بھالو کی چابی ٹوٹ گئی ہے، یہ تالیاں نہیں بجائے گا، جاؤ بھاگ جاؤ اور ننھی روتی ہوئی امی کی گود میں چھپ جائے گی۔ امی تم کو ڈانٹیں گی کہ منے! تم بہت گندے بچے ہو۔ منی بہن کو ڈانٹ دیا۔ ایسے میں مجھے ننھی پر ترس آجائے گا اور میں جلدی سے شوکیس سے نیچے اتر کر تالیاں بجانے لگوں گا۔‘‘

مگر اب یہ سب خواب کی باتیں ہیں خواب جو آئینہ ہوتے ہیں جو تم انسان آنکھوں میں لیے پھرتے ہو۔ آئینے جو دھوپ میں چمکتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ہم سب کھلونے ہیں مگر تم سے محبت کرتے ہیں کہ تم ہم سے کھیلتے ہو ہمیں پانے کے لیے روتے ہو مگر اب تو جانے کتنے آنگن سونے ہیں تم سب بچے کہاں گئے سنا ہے تمہاری درسگاہ کو تم سمیت اجاڑ دیا گیا ہمارے برابر الماری کے ایک طاق پر سیٹی بجانے والی چڑیا کہہ رہی تھی کہ اس نے ٹی وی کی چھوٹی سے اسکرین پر بہت بڑے سانحے کو دیکھا ہے۔

اس نے دیکھے ہیں وہ دلخراش مناظر جب تم لوگوں کے جھلسے ہوئے بستے پھٹی ہوئی کتابیں ٹوٹے ہوئے جوتے کلاسوں میں بکھرے پڑے تھے شاید اس لیے کہ اس دن ننھا ڈبو مذاق میں اس سے کہہ گیا تھا کہ پیاری چوں چوں میں اسکول جا رہا ہوں جب میں آجاؤنگا تو تم سیٹی بجانا، وہ کہتی ہے اب مجھے کون اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں بٹھاکر دانہ کھلائیگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دل بھی ہماری طرح ٹوٹ گئے ہیں ہم تو حیرت سے تم انسانوں کی دنیا کو دیکھتے ہیں تم لوگ کتنے ظالم ہو، کتنے مظلوم ہو، تم کہ قاتل بھی ہو اور مقتول بھی، ہمیں بنانے والے تو تم ہو مگر تم کو تو اس نے بنایا ہے جو کل کائنات کا مالک ہے۔

پھر تم میں آپس میں محبت کیوں نہیں ہے؟ تمہارے ماتھے پر یہ سجدے کے نشان، سر پر ٹوپی، کاندھوں پر ململ کے رومال شرعی پاجامے اور شلواریں ہاتھ میں تسبیح پاؤں میں چپل مدرسوں اور مسجدوں میں بچھی ہوئی وسیع وعریض چٹائیاں اور ان پر سجدہ کرتے ہوئے بیشمار سر بظاہر کیسا روح پرور نظارہ ہے یہ کہ 12 ربیع الاول کو تمہارا وطن بقہ نور بنا ہوا تھا ہر سمت روشنیاں تھیں رنگینیاں تھیں۔ فضا نعتوں سے گونج رہی تھی تم حضور کونین آقائے دو جہاںؐ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے پھر یکایک اچانک تم ہی میں کچھ درندہ صفت آئے جن کے چہروں پر پھٹکار برس رہی تھی جو ان معصوم فرشتوں کو بھی نہیں بخش رہے تھے جو علم کی مشعل جلاتے ہیں ہم حیران ہیں کہ تم انسان پیسوں کی خاطر کتنی آسانی سے ایک دوسرے کا خون بہا دیتے ہو۔

اسی زمین کی خاطر ایک دوسرے کا سینہ چھلنی کردیتے ہو جس میں آخر کار تم کو جانا ہے تم مسلمان کرپشن، ملاوٹ، گراوٹ، بے ایمانی، دھوکہ دہی، قتل و غارتگری میں ملوث ہونے کے باوجود کیسے چین کی نیند سو لیتے ہو؟ کیا تم سے اچھے ہم بیجان کھلونے نہیں جو دل بہلاتے ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ببلو کا پونی پوچھ رہا تھا کتنے دن بیت گئے میرا سوار نہیں آیا، مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اگر کسی اور نے مجھ میں چابی بھری بھی تو میں دوڑ نہیں سکوں گا۔ ذرا دیکھو تو شمو کی ہوم ورک ڈائری کے ادھ جلے ورق جسے اس کی مما اسکول سے اٹھا لائی تھی اور جس کے آخری صفحے پر لکھا تھا The End ایسا لکھتے وقت شمو نے کب سوچا تھا کہ یہ دی اینڈ وہ اپنے لیے لکھ رہی ہے۔

ابھی کل جب 26 دن بعد اسکول کھلے تو ہم نے سوچا کہ ہم سے کھیلنے والے تو نہ رہے، خدا کرے اور سارے بچوں کو ان کے کھلونے ان کے بستے ان کے کھلونے کہیں اکیلے نہ رہ جائیں ہم نے سنا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے دوبارہ کھلنے پر ہمارے آرمی چیف وہاں موجود تھے ان کی موجودگی ان معزز، مقدس، ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے منہ پر طمانچہ تھی جنھوں نے وہاں جانے کے بجائے اپنے طے شدہ پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی، شاید اس لیے کہ اس موقعے پر کون صبح صبح اٹھ کر اپنی نیند خراب کرتا، بھلا خواب خرگوش سے بھی اچھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

دنیا میں جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو انھیں ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد خیال آتا ہے بقول منیر نیازی ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ تو اے کروڑوں انسانو! تم سے اچھے تو ہم کھلونے ہیں جو خود تو ٹوٹ جاتے ہیں مگر تم لوگوں کو دکھ نہیں دیتے، دیکھو میرے دائیں جانب طاق پر بیٹھی ہوئی مانو نے دعا کے لیے اپنے اگلے دونوں ہاتھ اٹھا لیے ہیں یہ مانو جسے شوکی پیار سے پومی کہتا تھا رو دی ہے اور اس کو روتا دیکھ کر شوکی کی مما نے اسے سینے سے لگا لیا ہے وہ کہہ رہی ہیں: ’’تم تو میرے لعل کی نشانی ہو پومی! دعا کرو کہ خدا بھیڑیوں کو اس بستی سے ہم کو محفوظ رکھے۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے وہ بھی زار و قطار رو رہی ہیں اور ہم الماری میں رکھے ہوئے اداس کھلونے سوچ رہے ہیں کہ انھوں نے بھیڑیوں کا لفظ کیوں استعمال کیا کہ بھیڑیا تو کبھی بھیڑیے کے بچوں کا اس طرح خون نہیں بہاتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔