قتل یا خودکشی؟؟؟

شبیر رخشانی  منگل 20 جنوری 2015
وہاں موجود افراد اُس بڑی بہن کو بچانے کے لئے اسے بے قصور قرار دینے کے لئے دو الفاظ بول سکتے تھے لیکن سب نے خاموش چہروں کے ساتھ اس عورت کو مجرم قرار دینے کے لئے ماں کے الزامات کی تائید کی۔ فوٹو: فائل

وہاں موجود افراد اُس بڑی بہن کو بچانے کے لئے اسے بے قصور قرار دینے کے لئے دو الفاظ بول سکتے تھے لیکن سب نے خاموش چہروں کے ساتھ اس عورت کو مجرم قرار دینے کے لئے ماں کے الزامات کی تائید کی۔ فوٹو: فائل

یہاں پر میں جس موضوع پر لکھ رہا ہوں یہ نہ تو فرضی ہے اور نہ ہی کسی فلم کا کوئی سین ہے بلکہ یہ حقیقت پر مبنی دلخراش واقعہ ہے ایک ایسا واقعہ جسے کئی سال گزرجانے کے باوجود میں آج تک نہ بھلا پایا۔

ہوا یوں تھا کہ جون 1997ء کو میری نانی کا انتقال ہو گیا تھااور اس وقت میں اپنے چھوٹے سے گاؤں جس سے میری بچپن کی یادیں وابسطہ ہیں میں ہی موجود تھا اور گاؤں کے رسم و رواج سے سب ہی واقف ہیں کہ جہاں انسان کو اپنائیت بہت زیادہ ملتی ہے اور نانی کی اس وفات نے ہمارے گھر کو سوگوار کردیا تھا جبکہ گاؤں کے دیگر افراد دلی ہمدردی کے لئے ہمارے ہاں جمع تھےکہ اچانک کسی بچے نے دور سے آواز لگانی شروع کی اور سب اس آواز کی جانب متوجہ ہوئے۔

بھاگتا ہوا بچہ جسکا بھاگتے بھاگتے سانس پھولا ہوا تھا قریب پہنچا اور ایک ناخوشگوار واقعہ سنایا کہ فلاں کی بیٹی نے ندی میں کود کر جان دے دی ہے۔ تعزیت گاہ پر موجود ماں نے جب یہ اطلاع سنی تو دھاڑیں مارتی ہوئی ندی کی جانب دوڑتی چلی گئی جہاں اسکی بیٹی کی لاش رکھی ہوئی تھی۔ پورے گاؤں کے لوگ جو تھوڑی دیر پہلے ہمارے ہاں ہمدردی کے طور پر موجود تھے وہ بھی اُسی جانب چل دیئے۔ لاش ندی کے کنارے رکھی تھی۔۔ لوگوں نے لاش کو گھیر رکھا تھا۔ لاش کے قریب بیٹھی اس لڑکی کی بڑی بہن رورہی تھی جبکہ اردگرد گھیرا جمائے اس مجمع کو چھیرتی ہوئی ماں اپنی بیٹی کی لاش کو دیکھ کر اپنی ہوش و حواس کھو بیٹھی اور ہجوم کے سامنے اپنی بڑی بیٹی کو لعنت ملامت کرنے لگی کہ واقعہ اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔

احساس ندامت اور لاچارگی بڑی بہن کے چہرے سے عیاں تھی لیکن اپنی صفائی دینے کے لئے اسکے پاس الفاط نہیں تھے۔ بہت سے لوگ اپنے احساسات کو آنسوؤں کی صورت میں بہا کر اْس بوڑھی ماں سے افسوس کا اظہار کررہے تھے جو غم سے نڈھال تھی۔ میت کو غسل دینے کے لئے گھر کی طرف روانہ کردیا گیا تھا اور پورے گاؤں کی فضاء میں خاموشی چھا گئی تھی اور میت کو اسکی آرام گاہ تک پہنچانے کے لئے تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں جبکہ مسجد سے میت کی چارپائی بھی اس گھر تک پہنچا دی گئی تھی۔

ابھی آدھا گھنٹہ ہی نہیں گزرا تھا کہ اسی گھر سے رونے دھونے اور شور و غل کی آوازیں دوبارہ اٹھنے شروع ہو گئیں بس اگلی خبر آئی کہچار بچوں کی ماں بڑی بہن نے بھی خودکشی کرلی۔ یہ المناک واقعے یکے بعد دیگرے سامنے آنے کی وجہ سے پورے گاؤں والوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ جو اپنوں نے سنا یا غیروں نے سنا سب کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ گاؤں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کوئی المناک واقعہ رونما ہوا تھا جس نے پورے گاؤں کو سوگوارکردیا تھا

دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن کبھی کچھ ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جو انسان کے زہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں، انہی واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا جسکے منظر 17 سال گزرجانے کے باوجود بھی آج میرے زہن میں نقش ہیں اور وہ مناظر آج بھی میں چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلا پارہا۔

گوکہ اس وقت میری عمر 13 برس تھی۔ لیکن پھر بھی اُس وقت سے لیکر آج تک میرے زہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آیا بڑی بہن کی موت ایک قتل تھا یا خود کشی۔۔ لیکن آج تک اسکا جواب مجھے نہ مل سکا اور مجھے خدشہ ہے کہ اِس کا جواب شاید مل بھی نہ سکے گا کیونکہ اسکی سب سے بڑی وجہ جو اکثر ہمارے معاشرے کی جانب سے خاموشی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے کہ جو واقعہ ہونا تھا ہوگیا اب تبصرہ کرنے کا کیا فائدہ۔ حالانکہ میرے نذدیک اِس موضوع پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ کیا بڑی بہن کیجانب سے اقدام خودکشی پر اکسانے کے وجوہات یہ نہیں تھے کہ ایک ماں نے پورے مجمع کے سامنے جو رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنایا تھا وہ غلط تھا یا اِس معاشرے سے جڑے وہاں موجود لوگ جو اُسے بے قصور قرار دیتے اور اسکا بچاؤ کرتے جب اس وقت اس عورت کی نگاہیں انصاف طلب کررہی تھیں۔ جو اپنی بے قصوری ثابت کرنے کے لئے وہاں موجود ہر فرد کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی اسے بے قصور قرار دے اور دو لفظ انصاف کے اسکے حق میں بول دے۔

لیکن اسے ہر نظر میں اپنی تصویر ایک مجرم کی نظر آرہی تھی۔ جسکا سہارا لے کر احساس ندامت اور خود کو معاشرے کے سوالوں سے آزاد کرنے کے لئے ایک ہی راستہ اختیار کیا  اور وہ تھا خودکشی کا۔ گوکہ وہاں موجود افراد اُس بڑی بہن کو بچانے کے لئے اسے بے قصور قرار دینے کے لئے دو الفاظ بول سکتے تھے لیکن سب نے خاموش چہروں کے ساتھ اس عورت کو مجرم قرار دینے کے لئے ماں کے الزامات کی تائید کی جس نے نہ صرف اسے خودکشی پر آمادہ کیا بلکہ گاؤں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا۔

شاید میری سوچ غلط ہو اور یہی وجہ ہے کہ میرے زہن میں آج بھی سوال اٹھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جس میں اِسی معاشرے کے لوگ بالواسطہ  نہیں تو بلاواسطہ اس میں ضرور ملوث ہوتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں اداروں اور شرفاء کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے معاشرے کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے لیکن پھر سوال یہ ہے کہ پھر ایسے واقعات تواتر کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ کیوں نہ ایسے واقعات کی کیس اسٹڈی تیار کرکےمعاشرے میں مزید اس قسم کے اقدامات اٹھانے والوں کو روکا جاسکے۔ لیکن ایسے معاملات پر نہ انکی جانب سے بحث و مباحثہ سامنے لایا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے بلکہ اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر اسے بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسکے اثرات آنے والی نسلوں پر نہ پڑیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چھپانے کے باوجود بھی ایسا بار بار ہورہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔