کہنے میں کیا حرج ہے

وقار احمد شیخ  اتوار 18 جنوری 2015
اس دور میں جہاں لوگ ڈپریشن اورفرسٹریشن کا شکار ہیں اگر کوئی چند لمحات کیلئے مسکراہٹ کا سبب بنتا ہے تو وہ شخص عظیم ہے۔ فوٹو؛ زید علی فیس بک پیج

اس دور میں جہاں لوگ ڈپریشن اورفرسٹریشن کا شکار ہیں اگر کوئی چند لمحات کیلئے مسکراہٹ کا سبب بنتا ہے تو وہ شخص عظیم ہے۔ فوٹو؛ زید علی فیس بک پیج

’’مجھے ہالی ووڈ سے فلم کی آفر ہوئی تھی لیکن میں نے ٹھکرا دی‘‘۔ مجھے یقین ہے اس ابتدائی جملے سے آپ مجھے ’’پھینکو‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر مجھے کوئی آفر ہوتی تو میں کبھی انکار نہ کرتا لیکن ہماری ایسی قسمت کہاں؟ یہ جملہ تو فیس بک اور یوٹیوب کے پاکستانی نژاد اسٹار زید علی نے کہا تھا۔ جی ہاں یہ وہی زید علی ٹی ہیں جن کے یوٹیوب پر دو لاکھ سے زیادہ شائقین ہیں اور فیس بک پر بھی ایک بڑا حلقہ ان کے چاہنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔

فوٹو؛ زید علی فیس بک پیج

زید علی کا کہنا ہے کہ ہالی ووڈ کی ایک فلم کے کردار کے لئے انہیں آفر ہوئی تھی لیکن انہوں نے یہ پیشکش محض اس لئے ٹھکرا دی کیونکہ اس میں انہیں لڑکی کے ساتھ بوسہ لینے کا سین بھی ادا کرنا پڑتا۔ خبر کی جزئیات تو مزید ہیں لیکن پاکستانی میڈیا کے لئے یہ بھی ایک ’’بریکنگ نیوز‘‘ ہے کہ ایک پاکستانی نژاد لڑکے نے جو امریکا میں زیر تعلیم ہے، فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے پلیٹ فارم جہاں کام کرنے کے خواہشمند بالی ووڈ کے بڑے بڑے اداکار ہیں اور محض ایک چھوٹا سا کردار ملنے پر راضی ہوجاتے ہیں، وہاں اس عظیم پاکستانی نے غیرت کی خاطر ہالی ووڈ فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی اخبارات میں یہ خبر نمایاں شائع ہوئی اور فیس بک پر بھی زید علی ٹی کے چاہنے والوں نے ستائش کے ڈونگرے برسا دیے۔ یہ اور بات ہے کہ مابدولت بھی فیس بک پر زید علی ٹی کی ویڈیوز سے محظوظ ہونے والے حلقے میں شامل ہیں۔

بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن اسے مسئلہ بنادیا فیس بک کے ہی ایک اور یوزر فرقان شیخ نے۔ جن کا کہنا ہے کہ زید علی کے فلم آفر ٹھکرانے کے بعد یہی کردار انہیں آفر کیا گیا جو انھوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ ان کے مطابق یہ ایک پاکستانی اسٹوڈنٹ کا کردار ہے جو امریکا میں زیر تعلیم ہے لیکن اس میں کوئی ’’بوس و کنار‘‘ کا سین شامل نہیں ہے، نیز زید علی کا معاملہ محض معاوضے پر آکر اٹک گیا تھا اور وہ اس تمام معاملے کو گھما پھرا کر اپنی ذاتی نمائش و تشہیر کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والی خبر پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ بنا تحقیق انھیں یہ رپورٹ شائع نہیں کرنی چاہیے تھے۔

فوٹو؛ آل پاکستانی ڈرامہ فیس بک پیج

فرقان شیخ نے یہ تمام باتیں اپنے اکاؤنٹ سے اب حذف کردی ہیں لیکن یہ پوسٹ اور اس پر ہونے والے مضحکہ خیز کمنٹس سے بے خبر لوگوں کو ضرور محظوظ ہونا چاہیے جو انٹرنیٹ پر مختلف ذرائع پر دستیاب ہے اور اس سب کے بعد فیس بک پر وہی روایتی لایعنی جنگ چھڑ گئی کہ کون صحیح ہے کون غلط وغیرہ وغیرہ۔ یہ الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں کہ زید علی کے پیش کردہ خاکے چوری شدہ ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کے آئیڈیاز پر ہی کام کرکے اپنا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ فیس بک کے یوزرز اس معاملے میں کافی ’’ایکٹیو‘‘ ہیں، بس انہیں کوئی ’’ٹاپک‘‘ ہاتھ لگ جائے پھر ہفتوں ان کا ’’ٹائم پاس‘‘ ہوجاتا ہے۔

ہم نے کافی کوشش کی کہ میسر ذرائع کے سہارے زید علی یا فرقان شیخ سے بات کرسکیں لیکن وائے ناکامی۔ اس لیے یہاں ان کا موقف تو نہ سہی لیکن اپنی بات کہہ کر دل کی بھڑاس ضرور نکالیں گے۔ چونکہ ہم خود زید اور فرقان کی ویڈیوز دیکھتے رہے ہیں اس لیے باآسانی دونوں کا تقابل کرسکتے ہیں، بلاشبہ زید علی ٹی کے فالوورز فرقان سے زیادہ ہیں اور وہ اب تک 100 سے زائد چھوٹے بڑے کلپ ویڈیوز کی صورت میں یوٹیوب اور فیس بک پر پیش کرچکے ہیں۔لیکن جہاں تک بات آئیڈیاز چرانے کی ہے تو ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور لالی ووڈ، سب ہی اس معاملے میں بدنام ہیں، اصل بات تو پیش کیے جانے کی ہے اور پھر ہمارا تو کہنا ہے کہ اس پرآشوب دور میں جہاں لوگ ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار ہیں اگر کوئی چند لمحات کے لیے ہی سہی مسکراہٹ کا سبب بنتا ہے تو وہ شخص عظیم ہے۔

لیکن اس تمام واقعے میں ایک خلش صرف ہمارے ہی نہیں دیگر لوگوں کے دل میں بھی جاگ اٹھی ہے۔ بلاشبہ آواز کے لوچ کی وجہ سے ہمیں بھی کئی بار ریڈیو کی آفر ہوئی، کالج اور یونیورسٹی میں اداکاری کرکے بھی دل بہلا لیا لیکن حسرت ہی رہی کہ کوئی ’’چھوٹے موٹے کردار‘‘ کی آفر ہی کردیتا۔ ارے بابا، جب فرقان شیخ جیسے عامیانہ چہرے والے شخص کو ہالی ووڈ مووی کی آفر آسکتی ہے تو ہم کیوں لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بلاگ پڑھنے کے بعد ہی کسی کو یہ خیال آجائے۔

ہاں وہ جو فرقان شیخ کا کہنا ہے کہ ’’مذکورہ‘‘ کردار میں نامناسب منظر نہیں تو ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ بعض باتیں رابطے کے وقت زبانی کلامی کہی جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے جو لوگ آفر لے کر زید کے پاس گئے تھے انہوں نے زبانی انہیں ’’بوسہ‘‘ کے بارے میں بتایا ہو لیکن فرقان سے بات کرتے ہوئے انہیں یہ سین اضافی لگا ہو یا پھر فرقان کو دیکھ کر ارادہ بدل لیا ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو، اگر اسی طرح کی مزید ’’ہوائیاں‘‘ اڑتی رہیں تو فیس بک کے یوزرز بھی اپنا ٹائم پاس کرتے رہیں گے اور ہمیں بھی لکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ ویسے جب اتنا کچھ کہہ ہی دیا ہے تو یہ کہنے میں بھی حرج نہیں کہ ہمیں بھی کئی بڑے بڑے کردار آفر ہوئے ہیں (خواب میں)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔