ترس کریں سفید پوشوں پر!!

شیریں حیدر  ہفتہ 17 جنوری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

وہ اتنی دیر سے بیٹھے ہوئے تھے، میں ان کے اور وہ غالباً میرے اٹھنے کا انتظار کر رہے تھے، گاؤں میں لوگوں کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی کے ہاں جائیں تو دیر تک بیٹھے رہتے ہیں، خاندان ، محلے ، گاؤں اور ملکی سیاست پر تبصرے ہوتے ہیں مگر جاوید بھائی تو اتنے مصروف آدمی ہیں، ان کا یوں دیر تک بیٹھنا مجھے عجیب سا لگا۔ کچھ دیر تک تو وہ انتظار کرتے رہے مگر پھر معذرت کرنے لگے کہ انھیں میری ساس امی سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا تھی، وہ رشتے میں ان کے بھتیجے لگتے ہیں… انھوں نے کہا کہ میری بیٹی ہے، اس کے سامنے ہی بات کر لو۔

’’ اصل میں پھوپھو جی… کچھ پیسوں کی ضرورت تھی!!‘‘ انھوں نے جھجک کر کہا۔

پچھلی دفعہ میری ان سے ملاقات خاندان کی ایک تقریب میں ہوئی تھی تو میں نے ان سے دریافت کیا تھا کہ ان کا اسکول کیسا چل رہا تھا تو انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ اللہ کا کرم تھا اور ان کے ماں باپ کی دعائیں۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ انھیں ماہانہ پچاس ہزار تک بچ جاتا ہے جس سے گھر کا خرچ بہ احسن چل جاتا ہے۔ اپنی زمینوں کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے تو گندم، سبزیاں اور کچھ دالیں گھر کی آ جاتی ہیں ۔ وہی جاوید بھائی اس وقت جس دقت سے اپنی ضرورت بیان کر کے بیٹھے تھے، مجھے ان پر ترس بھی آیا، انھیں رقم تو جتنی چاہیے تھی وہ مل گئی ۔

’’ جاوید بھائی اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات پوچھوں ‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا، ’’ سب ٹھیک تو ہے نا؟ ’’ میری آپ سے پچھلی ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے بتایا تھا کہ آپ کا اسکول اچھا چل رہا ہے اور اچھا گزارا ہو جاتا ہے مگر اب یہ ‘‘ مجھے دل میں شرمندگی بھی ہو رہی تھی کہ وہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔

’’ بس بہن جی… سب ٹھیک ہی چل رہا تھا، بس اب حکومت نے ہماری مت مار دی ہے اور میرے جیسے سفید پوشوں کے پیٹ بھی ننگے کر دیے ہیں اور ہمیں اتنا مجبور کر دیا ہے کہ کیا بتائیں !! ان کے ہدایت نامے نے ہمارے دن کے چین اور رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں ‘‘

’’ ہوں … کچھ وضاحت کریں گے آپ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

انھوں نے اخبار کا کٹا ہوا تراشا اپنی جیب سے نکال کر میری طرف بڑھایا، ’’ یہ حکومت کے وہ احکامات ہیں جن کی تعمیل کیے بغیر ہم اپنا اسکول نہیں کھول سکتے کیونکہ سیکیورٹی انتظامات چیک کرنے والی ٹیمیں ان اسکولوں پر چھاپے مار رہی ہیں جو کھل چکے ہیں اور اگر کسی کے حفاظتی انتظامات سے وہ مطمئن نہیں تو ان اسکولوں کو سیل کیا جا رہا ہے، آپ پڑھیں بہن جی ذرا اس پرچے کو!!‘‘

سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہدایات ہیں کہ وہ اپنے اسکولوں کی چار دیواری کو آٹھ فٹ تک اونچا کروائیں اور اس پر مزید دو فٹ کی خاردار تار لگوائیں، تعلیمی اداروں کے اندر نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے CCTV  کیمرے لگوائیں، تمام آنے جانے والوں کو چیک کرنے کے لیے میٹل ڈیٹیکٹر اور تربیت یافتہ مسلح سیکیورٹی گارڈز کا انتظام کریں، مرکزی داخلی دروازے کے آگے zig zag بیرئیر لگوائیں، اس کے علاوہ باقی ہدایات ایسی ہیں جن میں کوئی خرچہ نہیں ہوتا، میں نے پڑھ کر اخبار انھیں واپس کیا۔

’’ میں نے اسکول کرائے کی ایک عمارت میں بنایا ہے جس کا ماہانہ کرایہ میں بیس ہزار دیتا ہوں ، اس چار کنال کی عمارت کی حالت خستہ سی ہے اور پورا سال میں اس میں مرمت کی مد میں کچھ نہ کچھ کرواتا رہتا ہوں ، جس کی ادائیگی کرنے سے مالک انکار کر دیتا ہے۔

اب میں نے ان سب کاموں کے اخراجات کا تخمینہ لگوایا ہے تو یہ لگ بھگ چھ لاکھ کا خرچہ ہے، اس خرچے کو بھی عمارت کے مالک نے ادا کرنے سے حسب توقع انکار کر دیا ہے۔ میں پچاس ہزار ماہانہ بمشکل کماتا ہوں جس سے ایک بڑے کنبے کے اخراجات سفید پوشی سے پورے کرتا ہوں ، اب چونکہ اسکول بند ہیں تو میں اس ماہ کی فیس بھی ابھی تک وصول نہیں کر سکا جس کے باعث میرے پاس بجلی اور ٹیلی فون کے بل ادا کرنے کے لیے بھی رقم نہیں ہے۔‘‘

’’ ہوں … ‘‘ میں نے گہری سانس لی، ’’ اگر آپ یہ سب کچھ نہ کروا سکتے ہوں اور چھاپہ مار ٹیموں کو بتا دیں کہ آپ یہ سب نہیں کروا سکتے تو؟ ‘‘

’’ شنید ہے کہ ان اسکولوں کو کھولنے کی اجازت نہیں دے رہے جو کہ حکومت کے مقررکردہ معیار کے مطابق اپنے اسکولوں کی عمارتوںمیں حفاظتی اقدامات مکمل نہیں کر سکیں گے ‘‘ انھوں نے کہا، ’’ کوئی ہے جو حکمرانوں سے کہے کہ ہم سفید پوشوں پر ترس کھائیں، سانپ گزر گیا ہے اب لکیر پیٹ رہے ہیں، بڑے چھوٹے سب اداروں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں، ہم نہ تو کوئی لاکھوں کمانے والے ادارے ہیں نہ ہمیں کسی این جی او یا بیرونی ممالک سے امداد ملتی ہے۔

اگر حکومت اپنے عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی تو اس کا کیا فائدہ۔ آج اسکولوں کے حفاظتی اقدامات کا کہہ رہے ہیں کیونکہ ایک اسکول پر حملہ ہوا ہے، کل کو کسی اسپتال پر حملہ ہو گا تو اسپتالوں کی سیکیورٹی بڑھانے کا کہیں گے۔ آپ نے گجرات سے گاؤں آتے ہوئے راستے میں وہ سب اسکول تو دیکھے ہوں گے بہن جی ، جو کہ بارہ جنوری سے کھل چکے ہیں؟ ‘‘

’’ ہاں! میں نے دیکھا اور میں تمام راستہ یہی سوچتی رہی ہوں کہ ہمارا ملک کس سمت جا رہا ہے؟ سب اسکولوں کے باہر اور چھتوں پر مسلح سیکیورٹی گارڈز، خار دار تاریں!! کیا ہمارے بچے اس طرح کے اسکولوں میں پڑھیں گے، وہ معصوم بچے جنھیں اسلحے کا مطلب بھی نہیں آنا چاہیے، وہ ہر روز اسکول کے اوقات میں یہ دیکھیں گے کہ وہ بندوقوں کے سائے میں ہیں؟؟‘‘ میں نے کہا۔

’’ ایک تو اس قدر اخراجات ہیں کہ کوئی بھی اسکول جو کم منافع پر چل رہا ہے وہ ان کو برداشت ہی نہیں کر سکتا اور اس سے اہم بات یہ کہ چونکہ اب ان سب چیزوں کی طلب ہے اس لیے ان کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، نہ سیکیورٹی گارڈز مل رہے ہیں نہ ہی خار دار تاریں۔ مستریوں اور مزدوروں کی چاندی ہو گئی ہے، سیمنٹ اور اینٹیں بھی نایاب ہو گئی ہیں، ہم تو یوں بھی موقع پرست لوگ ہیں جہاں کسی کی کھال اتارنے کا موقع ملتا ہے ہم ضرور فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘

’’ آپ سب اسکولوں کے مالکان مل کر احتجاج کریں کہ آپ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے!!‘‘ میں نے تجویز پیش کی، ’’ حکومت کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے، کیا حملہ آور دوبارہ اسی طور حملہ کرنے کو آئیں گے؟ کیا کوئی دیوار اور خار دار تار ان دہشت گردوں کا راستہ روک سکتی ہیں جنھوں نے خود مرنے کا عزم کیا ہوتا ہے؟ ‘‘

’’ آپ کو لگتا ہے کہ اگر ہم احتجاج کریں گے تو کوئی ہماری سنے گا؟ ‘‘ انھوں نے حیرت سے کہا، ’’ آپ کوئی کالم کیوں نہیں لکھتیں اس بارے میں بہن جی؟ ‘‘ انھوں نے کچھ توقف سے کہا۔’’ آپ کو لگتا ہے کہ کوئی میرے لکھے کو پڑھے گا؟ کوئی ایسا جسے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار ہو یا جو حکومتی احکامات کو تبدیل کرنے کا مجاز ہو ، جن احکامات نے لوگوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں؟ ‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔’’ پھر بھی آپ لکھیں ، ہماری طرف سے لکھیں کہ اہل اقتدار، خدارا ہم پر ترس کھائیں،ان اخراجات کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے اور ایسا نہ ہو کہ اس میں ناکامی کی صورت میں ملک میں لاکھوں اسکول بند ہو جائیں اور ہزاروں لوگ بے روز گار‘‘

’’ آپ کہتے ہیں تو لکھ دیتی ہوں جاوید بھائی، مگر مجھے یہ علم ہے کہ ہم اہل قلم اپنی انگلیاں فگار کرتے ہیں، جہاں ہم یہ بات پہنچانا چاہتے ہیں، وہاں تک بات پہنچتی بھی ہے کہ نہیں، جن لوگوںکے نام پیغام لکھا جاتا ہے ان کے دربار میں شنوائی ہوتی بھی ہے کہ نہیں ‘‘

’’ پھر بھی آپ لکھیں بہن جی، کیا پتا آپ کے قلم سے ہماری حمایت ہو!!‘‘ انھوں نے اصرار کیا، ’’ یہ فقط میرا نہیں ، کم از کم ہمارے گاؤں کے دس اسکولوں کا مسئلہ ہے!‘‘

اگر ہمارے گاؤں میں دس اسکولوں کا یہ مسئلہ ہے تو ملک میں یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے، میں نے ان لاکھوں لوگوں کے احساسات کو لکھ دیا جاوید بھائی، آپ کی درخواست اپنے قلم سے، اخبار کی وساطت سے، ارباب اختیار تک پہنچانے کی سعی کی ہے، آگے آپ کی قسمت!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔