اور اسکول کھل گئے

نسیم انجم  ہفتہ 17 جنوری 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

الحمدللہ ،موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد پاکستان بھر کے تمام اسکول کھل گئے، پورے 26 دن کی چھٹیاں تھیں اس اضافے کی خاص وجہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والا وہ سانحہ تھا ،جس میں بزدلوں نے معصوم ننھے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ بچوں سے محبت کرنا تو ہر مذہب میں شامل ہے، اپنے آپ کو مسلمان کہنا اور مسلمانوں جیسے نام رکھ کر حملے کرنے والے تخریب کار کون سے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ مسلمان جس نبی کے امتی ہیں وہ آخر الزماں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود بچوں سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ دین اسلام اگر بڑوں کی عزت و احترام کرنا سکھاتا ہے تو معصوم بچوں سے محبت و پیار کا درس بھی دیتا ہے۔

میں سوچ رہی تھی کہ جب اسکول کھلے گا تو طالب علم کس دل سے اسکول کی چار دیواری میں قدم رکھیں گے؟ ان کے والدین اپنے بچوں کو مادر علمی میں بھیجتے وقت یقینا آبدیدہ ہوں گے، اپنے ساتھی اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی شہید اور دوسرے اساتذہ یاد آئیں گے، وہی خونی منظر سامنے آجائے گا، معصوم کلیاں خوف سے سہم سی جائیں گی لیکن ہمارے ملک کے بچے بے حد بہادر اور امت مسلمہ کے وہ سپوت ہیں، جو موت سے نہیں ڈرتے۔

وہ جانتے ہیں کہ علم کی راہ میں ملک عدم کا سفر کرنے والے شہید اور بچ جانے والے غازی ہوتے ہیں اور پھر جنرل راحیل شریف اور ان کی اہلیہ نے طالب علموں اور اسٹاف کا استقبال کرکے ایک خوشگوار واقعے کو جنم دیا ان کی آمد سے نہ کہ طلبا کا حوصلہ بڑھا بلکہ بچوں کے والدین اور پاکستان کے شہری بھی نہ کہ حیرت میں مبتلا ہوئے بلکہ تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی گزرے ہوئے دردناک حادثے کو بھی بھول گئے۔ یقینا جنرل صاحب نے آرمی پبلک اسکول بہ نفس نفیس پہنچ کر انسانی اقدار کی لاج رکھ لی اور انسانیت کا پیغام عام کیا کہ کس طرح غمزدہ دلوں پر خلوص کے پھائے رکھے جاتے ہیں اور ہمت و جرأت کا بہترین سبق بھی سکھا گئے۔ ضرب عضب کی کامیابیاں، دہشت گردی کا خاتمہ جنرل راحیل شریف کا ہی مرہون منت ہے۔

اگر غور کیا جائے تو چھوٹی چھوٹی جانوں نے بڑے غم سہے، بڑی تکلیفیں جھیلیں، لیکن حوصلہ نہیں ہارا، تاریخ اسلام بھی ننھے بچوں کی شجاعت ودلیری سے روشن ہے۔ پاکستانی بچوں نے بھی یہ کہہ کر کہ ہم ڈرنے والے نہیں، بلکہ بڑے ہوکر آرمی جوائن کریں گے اور اپنے دشمن سے بدلہ لیں گے وہ ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتے ہیں، ایک تاریخ رقم کردی ہے۔ تاریخ کے صفحات پر بہادر اور جری بچوں کے نام ہمیشہ کے لیے سنہرے لفظوں سے لکھ دیے گئے ہیں، ’’اعتزاز‘‘ جیسے عظیم ترین اور تن تنہا طالب علم نے ایک بڑی تباہی اور ہلاکتوں سے اپنے پورے اسکول کو بچالیا، آرمی پبلک اسکول پشاور میں بھی ننھے بچوں نے اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی۔

یہ ہیں پاکستانی قوم کے دلیر اور جذبہ شہادت سے سرشار بچے۔ چھبیس دن کی چھٹیاں تھیں، لیکن ان چھٹیوں میں جہاں اسکول کی دیواریں اونچی کی گئیں۔ وہاں اندرونی و بیرونی دیواروں کا رنگ بھی تبدیل کردینا چاہیے تھا ساتھ میں چھوٹی جماعتوں کا فرنیچر، پردے اور بدلی ہوئی سیٹنگ بچوں کو بہت حد تک گزرے سانحے کو بھلانے میں مددگار ثابت ہوتی اور وہ نئی نئی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوتے جیساکہ بچوں کی فطرت ہوتی ہے، لیکن بعض بچے بے حد حساس ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں اور دلوں میں خونی مناظر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور وہ نہ صرف راتوں کو ڈرتے ہیں بلکہ دن کی روشنی میں بھی سیاہ پرچھائیاں، خون کے دھبے اور فائرنگ کی آوازیں انھیں دہلا دیتی ہیں۔

ان حالات سے نجات دلانے کے لیے طلبا کے لیے نئے کھیل اور نئے مشاغل کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے، قرآن کی تفسیر اور واقعات بھی انسانی ذہنوں کو تبدیل کرنے کا باعث ہوتے ہیں، ہر معصوم شخص قبل از وقت جان جاتا ہے کہ انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے اور اپنی زندگیوں کو کس طرح جاوداں بنایا جاسکتا ہے۔ ورنہ جانا تو سب کو ہی ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ‘ کل ہماری باری ہے

سانحہ پشاور آرمی اسکول کے شہید ہونے والے طلبا اپنی اولاد کا غم تاحیات نہیں بھلا سکتے ہیں، والدین کے لیے اولاد ان کے اپنے ہی جسم کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ رشتہ ہے ہی دل و جان کا۔ ماں کے بے مثال و لازوال محبت کے حوالے سے ہی ’’ماں کا خواب‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی تھی جس کے چند شعر درج کر رہی ہوں:

میں سوئی جو ایک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ مرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر‘ میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آگئے تم کہاں؟
جدائی میں رہتی ہوں‘ میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو‘ ہوگیا کیا اسے
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے

تو…! صابر و شاکر والدین غم نہ کریں، ہماری قوم کے بچے، ہمارے ملک کے بچے، ہمارے بچے، جنت کے باغوں میں گھوم رہے ہیں اور دنیاوی زندگی میں بھی وہ حیات ہیں کہ شہید کبھی نہیں مرتا ہے، وہ امر ہوجاتا ہے، وہ زندہ رہتا ہے، اور اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کی شہادت پر فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی صحابہ کرام نے بھی شہادت کی تمنا کی ۔

اتنے بڑے واقعے کے بعد بہت سے اسکولوں خصوصاً سندھ کے کچھ اسکولوں کا وہی حال ہے۔ نہ سیکیورٹی اور نہ دیواروں کی تعمیر فیڈرل بی ایریا کا تو ایک ایسا اسکول بھی ہے جس کی اب تک بیرونی دیوار ٹوٹی ہوئی ہے۔ مستقبل کے معماروں کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔