نوحہ غم‘ نغمہ شادی

انتظار حسین  پير 19 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

سانحہ پشاور کا ایک ماہ مکمل۔ ملک گیر ریلیاں۔ شمعیں روشن۔ شہدا کو خراج عقیدت۔

خبریں تو آج کے اخبار میں اور بھی تھیں مگر اس خبر نے اپنی درد مندانہ سرخیوں کے ساتھ ہمیں پکڑ لیا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ پاک فضائیہ کے طیاروں نے علی الصبح آرمی پبلک اسکول پشاور پر نیچی پرواز کر کے ہمارے کمسن شہدا کو سلامی دی۔ جو ریلیاں ہوئیں ان میں تو اس عنوان کے تحت نکالی گئیں کہ ’’ہم تمہیں نہیں بھولیں گے‘‘۔ اس جملہ کا ہم پر عجب اثر ہوا۔ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ ارے ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہم نے مہینے کے اندر اندر ہی اس دلدوز واقعہ کو فراموش کر دیا۔ یہ غلط فہمی اصل میں ہمیں بعض ٹی وی چینلوں پر ایک شادی کی دھوم دھام کے مناظر دیکھ کر ہوئی۔

اس وقت یہ مناظر دیکھ کر تھوڑی حیرانی بھی ہوئی تھی جس میں تھوڑا افسوس بھی شامل تھا۔ پھر ہمیں ایک مثل یاد آئی۔ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ سوچا کہ وہ تو خیر ٹھیک ہے کہ آخر ایک مقبول رہنما کی شادی ہے۔ ان کے مداحوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے مگر یہ ٹی وی والی مخلوق تو خوشی سے پھولی نہیں سما رہی۔ اسی کے ساتھ ہمارا دھیان آرمی پبلک اسکول کے کمسن شہیدوں کی طرف گیا۔ وہ دن ہمیں کتنی شدت کے ساتھ یاد آیا۔ پاکستان پر جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ پھر حیرانی کہ یار اتنی جلدی اس غم سے فارغ ہو گئے۔ حیرانی ہی حیرانی۔

اس آن غالبؔ کا ایک شعر یاد آیا۔ عجب شعر ہے؎

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی

مگر ہمارے کرم فرمائوں نے نوحہ غم اور نغمہ شادی کا کس کمال سے امتزاج کیا ہے کہ نوحہ غم نغمہ شادی میں یکسر تحلیل ہو گیا۔ اور پھر ہمیں لگے ہاتھوں آتش کا ایک شعر یاد آ گیا؎

زمین چمن گل کھلاتی  ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اس کے بعد ایک واقعہ عجب گزرا۔ عمران خان جب اپنی شادی کی رسوم سے فارغ ہو کر تعزیت کے لیے اس درسگاہ میں گئے تو وہاں ان گزر جانے والے بچوں کی کتنی مائیں بہنیں جمع تھیں۔ انھوں نے مظاہرہ کیا اور نعرے لگائے‘ گو عمران خاں گو۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھو کہ پی ٹی آئی نے جو نعرہ میاں نواز شریف کے لیے تراشا تھا وہ بوم رینگ کی مثال پلٹ کر خود انھیں کے رہنما کو آ کر لگا۔ ہم نے بعد میں عمران خاں کی ٹی وی پر کہتے سنا کہ بیبوں کی یہ شکایت میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اس پر ہمارے ایک دوست نے زہر خند کیا اور کہا ع

اور اس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اس بت کو خدا سمجھے

پھر ہم نے سوچا کہ حیرت کیوں۔ کس بات پر۔ یہ دنیا کا کارخانہ سدا سے اسی رنگ سے چلتا چلا آ رہا ہے۔ مرنا جینا آدمی کی ذات سے چپکا چلا آ رہا ہے۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ اعزا‘ اقربا‘ یار‘ دوست شریک غم ہوتے ہیں مگر کب تک آخر میں تو دکھ انھیں کو ستاتا رہتا ہے جن کا جگر کا ٹکڑا ان سے جدا ہوا ہے۔ ہاں جب سانحہ اس طرح کا ہو جیسے پشاور کے آرمی اسکول میں گزرا تو وہ پوری قوم کا دکھ بن جاتا ہے۔ پھر پوری قوم اپنے شہیدوں کا سوگ مناتی ہے۔ آخر ایک ماہ پورے ہونے پر قوم نے ان نوخیز شہیدوں کو یاد کیا نا۔

ہاں ایک فرق ضرور پڑا۔ اس وقت سمجھنے والوں نے یہ سمجھا اور کہا کہ یہ ایسا سانحہ ہے کہ پوری قوم ایک صفحہ پر آ گئی ہے۔ مگر وہ ان کی خوش فہمی تھی۔ جلدی ہی پتہ چل گیا کہ قومی سانحہ ضرور ہے۔ مگر کسی قومی سانحہ کا پوری قوم کا ایک صفحہ پر آ جانا لازم نہیں ہے۔

ابھی کل پرسوں ہم نے رضا علی عابدی کا ایک کالم پڑھا۔ انھوں نے ایک زہر خند کے ساتھ لکھا تھا کہ ایک صفحہ پر آنا اسے کہتے ہیں جیسا فرانس میں ہوا کہ جب ان کے چند کارٹونسٹ انتہا پسندوں کو گولیوں کا نشانہ بنے تو فرانس کی ساری خلقت گھروں سے باہر نکل آئی۔ کتنا بڑا مظاہرہ ہوا۔ سب ایک صفحہ پر نظر آ رہے تھے۔

عابدی صاحب نے بجا کہا۔ مگر اس پر زہر خند کیوں۔ ہم زبان کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ غیر زبان کا محاورہ ہے۔ ان کے اپنے قومی تجربے نے اس محاورے کو جنم دیا ہے۔ ہم نے اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ہماری زبان میں کھپا نہیں۔ ارے کیسے کھپتا۔ ہمارا قومی تجربہ مختلف ہے۔ ایک صفحہ پر آنا کسے کہتے ہیں۔ ہمارا قومی مزاج اس سے ناآشنا ہے۔

ہمارا معاملہ یہ ہے کہ محمود و ایاز بوقت نماز ایک صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں اور دم کے لیے بندہ اور بندہ نواز کا فرق بھی ختم ہو سکتا ہے۔ مگر ہمہ وقت تو ہم نمازیوں کی صف میں کھڑے نہیں رہ سکتے۔ ایک صف میں کھڑے ہو کر تین رکعت چار رکعت پڑھ لینا اور اس سے ثواب کمانا کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے۔ کم از کم اتنی دیر کے لیے تو اپنے خدا کے حضور میں ہوتے ہیں۔ مگر ہم چوبیسوں گھنٹے تو خدا کے حضور میں کھڑے نہیں رہ سکتے۔

بہر حال یہ کیا کم بڑی بات ہے کہ قوم کی اکثریت نے اس سانحہ سے گہرا اثر قبول کیا ہے اور اس اثر میں اس نے قلب کی گہرائیوں سے سوگ منایا ہے۔ اور کتنے کچھ فیصلے کیے ہیں اور ہماری فوج میدان جنگ میں اتری ہوئی ہے۔ یہ فوجی ڈسپلن ہے کہ جب ایک فیصلہ ہو گیا تو اس پر پوری فوج کار بند ہے۔

یہ جو پاکستان میں دو گروہ ہیں۔ فوجی اور سویلین۔ سویلین سے یہ توقع کہ وہ بھی اس طرح متحد الخیال ہوں ع

این خیال است و محال است و جنوں

جمہوریت کا مطلب ان کے حساب سے ایک ہی ہے کہ اختلاف کا کوئی جھوٹا سچا نکتہ ہاتھ آ جائے تو اسے ضایع مت ہونے دو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔